علامہ اقبال بلا مبالغہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ وہ ایک طرف جہاں عظیم پایہ کے فلسفی تھے تو وہیں دوسری طرف وہ ایک معتبر اور اعلیٰ درجہ کے مفکر بھی تھے۔ ایک عمدہ اور اچھے قانون دان بھی تھے اور ایک عظیم المرتبت شاعر بھی۔ بیک وقت اتنی ساری شخصیتوں کا مالک ہونے کی حیثیت سے اقبال نے ہزار ہا کتابوں کا مطالعہ کیا، کئی کتب خانے چھان مارے، بے شمار ا نگریزی، فارسی اور اردو شعراء کے کلام سے استفادہ کیا۔ مگر اُن کے ذہن وقلب پر جو گہرے نقوش اوراُن کی زندگی میں جو انقلابِ عظیم قرآنِ مجید نے برپا کردیا ،وہ کسی فلسفی کے منطقی دلائل کرسکے اور نہ کسی شاعر کی سحرالبیانی۔ اسی بات کو سید ابوالحسن علی ندوی ـؒ نے اپنی تصنیف ’’نقوشِ اقبال‘‘ میں یوں رقم کیا ہے۔
’’ اقبال کی زندگی پر یہ کتاب (قرآن) جس قدر اثراندازہوئی ہے اتنا نہ وہ کسی شخصیت سے متاثر ہوئے
ہیںاور نہ کسی کتاب نے اِن پر ایسا اثر ڈالا ہے‘‘
یہ بات اُس وقت صدفیصد صحیح ثابت ہو جاتی ہے جب ہم علامہ کی زندگی اور شاعری دونوں کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں۔ اُن کی زندگی کے تعلق سے اگر ذکر کیا جائے تو بے شمار ایسے واقعات ہیں جن سے اقبال کی زندگی میں قرآن کی اہمیت نمایاں طور پر واضح ہو جاتی ہے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ چند طلباء فلسفہ سے متعلق کچھ سوالات لیکر اقبال کے پاس پہنچے اُنہیں توقع تھی کہ علامہ فلسفہ کی کتابوں سے جوابات تلاش کرینگے مگر معاملہ اُن کی توقع کے برخلاف یہ ہوا کہ علامہ نے قرآن ِ مجید اُٹھا کر اُن کی اور سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دئے۔ ایک عظیم فلسفی ہونے کے باوجود فلسفہ سے کام نہ لیتے ہوئے علامہ اقبال نے قرآن سے رہنمائی حاصل کی، یہ اِس بات کا عمدہ ثبوت ہے کہ اقبال نے اپنی زندگی میں قرآن کو وہ اہمیت دی ہے جس کی یہ کتاب مستحق ہے۔ اِس ضمن میں یہ بات بھی قابل تذکرہ ہے کہ علامہ اقبال نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں دیگر تمام کتابوں سے دوری اختیار کر کے اپنی توجہ صرف اور صرف قرآنِ مجید کی اور مرکوز کی تھی۔
اس معاملے میں میرے نزدیک یہ بات بھی کافی اہم اور دلچسپ ہے کہ قرآن کے تئیں علامہ کا ذاتی عقیدہ کیا تھا۔ وہ خودہی کہتے ہیں ؎
فاش گوئم آنچہ در دل مضمر است
ایں کتابے نیست چیزے دیگر است
یعنی اس کتاب (قرآن) کے تعلق سے جو عقیدہ میرے دل میں پوشیدہ ہے ،وہ یہ ہے کہ یہ قرآن کوئی کتاب نہیں ہے بلکہ کچھ اور ہی چیز ہے۔ اب کس لحاظ سے قرآن اقبال کے لئے کتاب نہیں بلکہ کتاب سے بڑھ کر کوئی اور شئے ہے، اِس کا ذکر اوپر ہوچکا ہے کہ کس طرح سینکڑوں کتابوں کا مطالعہ ہونے کے باوجود بھی قرآن ہی نے اُن کی زندگی میں انقلابِ عظیم برپاکردیا۔
بہرحال قرآنِ مجید نے جو گہرے نقوش اقبال کے ذہن وقلب پر مرتب کئے، اُن کے نمایاں اثرات اُن کی شاعری میں جابجا ملتے ہیں۔ ’’ بانگ ِ درا‘‘ سے لیکر ’’ارمغانِ حجاز‘‘ تک اقبال نے اپنی شاعری میں جو قرآنی نکتے ابھارے ہیں، وہ قاری کو ورطہ حیرت میں ڈالتے ہیں۔ اِسی بناپر مشہور مفسرِ قرآن مولانا امین احسن اصلاحیؔ نے کہا تھا:۔
’’میرا گمان تھا کہ میں نے اپنی تفسیر (تدبر قرآن) میںقرآنِ مجید کی اصطلاحات کی اچھی طرح وضاحت
کی ہے، مگر کلام اقبال کا مطالعہ کرنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ اقبال نے یہ کام مجھ سے پہلے اور مجھ سے بہتر
کیا ہے‘‘
یہاں پر کچھ اشعار ملاحظہ کیجئے جو مولانا اصلاحیؔ کے اِن الفاظ کے ساتھ ساتھ اِس پوری بحث کی تصدیق کرتے ہیں۔؎
آں کتابِ زندہ، قرآنِ حکیم
حکمت او لا یزال است وقدیم
حرفِ او لا ریب نے تبدیل نے
آیہ اش شر مندہ تاویل نے
صد جہانِ تازہ در آیات اوست
عصرِ ہا پیچیدہ در آناتِ اوست
چوں بجاں در رفت جان دیگر شود
چوں دیگر شد جہاں دیگر شود!
’’وہ زندہ کتاب، قرآن حکیم جس کی حکمت لازوال بھی ہے اور قدیم بھی۔ اِس کے الفاظ میں نہ کسی
شک وشبہ کا شائبہہے نہ رد وبدل کی گنجائش۔ اور اِس کی آیات کسی تاویلکی محتاج نہیں۔اِس
کی آیتوں میںسینکڑوں تازہ جہاں آبادہیں اور اِس کے ایک ایک لمحے میں بے شمار زمانے موجود
ہیں۔ یہ قرآن جب کسی کے باطن میں سرایت کرجاتا ہے تو اُس کے اندر ایک انقلاب برپا ہوجاتا
ہے، اور جب کسی کے اندر کی دنیا بدل جاتی ہے تو اُس کے لئے پور ی دنیا ہی انقلاب کی زد میں آجاتی ہے‘ ‘ ۔
ایسے ہی صدہا اشعار اقبال کے دونوں اردو اور فارسی کلام میں پائے جاتے ہیں کہ جن میں انہوں نے قرآن کی عظمت اور آفاقیت کو بڑے ہی دلچسپ اور خوبصورت پیر ایہ میں بیان کیا ہے۔ خوفِ طوالت کی وجہ سے یہاں اِن ہی چند اشعار پر اکتفا کرنا پڑا۔
بہر حال علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں ایک طرف اگر چہ قرآنی اصطلاحات اور آیات کی ترجمانی کی ہے تاہم دوسری طرف قرآن کے تئیں امتِ مسلمہ کے بے جاسلوک کو لیکر وہ کافی غمناک اور فکر مند بھی نظر آتے ہیں اور اِس بات کا افسوس کے ساتھ اظہار کرتے ہیں کہ عصرِ حاضر کے مسلمان نے قرآن کو پسِ پشت ڈال کر اپنے اوپر زوال مسلط کردیا ہے۔ ؎
خوار از مہجورُی قرآں شدی
شکوہ سنج گردشِ دوراں شدی
یعنی اے مسلمان ! آج دنیا بھر میں تیری ذلت اور رسوائی کا سبب یہ ہے کہ تونے قرآن سے دوری اختیار کر کے خود کو اس عظیم کتاب سے لا تعلق کردیا ہے، اور اس پر طرح یہ کہ تو اپنی اِس ذلت اور رسوائی کا الزام ’’گردشِ دوراں‘‘ یعنی زمانے پر ٹھونس رہا ہے۔ اسی بات کو نظم ’’ جوابِ شکوہ‘‘ میں اسلاف کے تذکرے کے ساتھ یوں دہرایا ہے۔ ؎
وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
قرآن کی جانب ملت کی اِس بدزنی، نار واسلوک اور محرومی کا اصل ذمہ دار علامہ اقبال ملتِ اسلامی کے اُن سربراہاں کو گردانتے ہیں کہ جن کے ذمہ مسلمانوں کی تعلیم وتربیت، رہنمائی اور کردار سازی کا کام تھا۔ ؎
زمن بر صوفی ومُلاّ سلامی
کہ پیغامِ خد ا گفتند مارا
ولی تاویل شان در حیرت انداخت
خدا و جبریل ومصطفیٰ ؐ را
یعنی صوفی اور مُلا کی خدمت میں سلام عرض کیا جائے کہ انہوں نے خدا کا پیغام یعنی قران ہم تک پہنچایا، مگر اِس قرآن کی جو تاویل انہوں نے بیان کی ہے ،اُس نے خدا کے ساتھ ساتھ رسولؐ اور جبریل ؑ امین کو بھی حیرت میں ڈال دیا ہے۔ وہ اِس لئے کہ انہوں نے جو تاویل اور ترجمانی قرآن مجید کی، کی ہے وہ خدا نے کبھی کہا تھا اور نہ مصطفیٰ ؐ اور جبریل ؑ نے۔ ؎
خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقہانِ حرم بے تو فیق!
احکام ترے حق ہیں مگر اپنے مفسر
تاویل سے قرآن کو بنا سکتے ہیں پاژند
بہر حال امیں یہ کہنا ضروری تصور کرتا ہوں کہ قرآن کو اللہ تعالیٰ نے ’’حبلُ اللہ ‘‘ کہہ کر بنی نوح انسان کی رُشدو ہدایت اور رہنمائی کے لئے نازل کیا تھا، اور یہ واحد ایک ایسی کتاب ہے جو مکمل ضابطہ حیات پیش کرتی ہے مگر افسوس کہ آج بقول اقبال قرآن کے ساتھ ہمارا تعلق اِس کے سوا اور کچھ نہیں رہا کہ ہم قریبُ المرگ شخص کے سرہانے بیٹھ کر سورہ ’’ یٰسین‘‘ کی تلاوت کریں تاکہ اُس پر موت آسان ہوجائے۔ ؎
بآیا تش تُرا کارے جُز ایں نیست!
کہ از یاسین اُو آساں بمیری!
رابطہ :سیر جاگیر سوپور،کشمیر
8825090545