عصر حاضر اور مسلم نوجوان

اللہ  تعالی نے اس حوالے سے حضرت لقمان کا قول نقل کیا ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فر مایا: اورتم لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کرو  (لقمان :۱۸)’’ صعر‘‘ یعنی منہ پھیر کر بات کرنا،اصل میں ایک بیماری کانام ہے جو عرب میں اونٹوں کی گر دنوں میں پائی جاتی ہے ۔یہ بیماری جب اونٹ کولگ جاتی ہے تو وہ اپنی گردن کو دائیں بائیں گھما نہیں سکتا ،بالکل اسی طرح کیر ئیر پرستی کے شکار نوجونوں کا رویہ ہوتا ہے ۔لہٰذا اس کیر ئیر پرستی سے اجتناب کرنا چاہیے۔ 
۴۔ عصری مسائل اور نوجوان : 
 آج امت کا نوجوان بے شمار مسائل اور الجھنوں میں گھر اہوا ہے ۔ ایک طرف غیر متوازن نظام تعلیم کے مسائل کا سامنا کر رہا ہے تودوسری طرف اقتصادی مسائل سے دوچار ہے ۔ ایک طرف اگر وقت پر نکاح نہ ہونے کے مسائل تو دوسری طرف بے روز گاری کے مسائل نے پر یشا نیوں میں مبتلا کر رکھا ہے ایک طر ف ناقص تعلیم و تر بیت حیا سوز مغربی فکر و تہذیب کے پیدا کر دہ مسا ئل علاوہ ازیں نت نئے افکار کے پیدا کرد ہ مسائل اور لجھنوں کا انبار لگا ہو ا ہے ۔ جن  سے ا مت کا یہ اہم طبقہ دو چار ہے ۔یہ واضح رہے کہ نوجوان طبقہ مسائل کا سامنا کرنے سے کتراتا بھی ہے ۔ کیونکہ ان کو اس سلسلے میں مطلوبہ رہنمائی نہیں مل پارہی ہے تاکہ وہ ان مسائل سے باآسانی نبرد آزما ہو سکے ۔اس سلسلے میں ماں باپ ،علما ء اور دانشوروں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مربیانہ رول اداکریں تاکہ نوجوان طبقہ مستقبل میں ملت اور سماج کی تعمیر اور اصلاح کے لئے مؤثررول ادا کر سکے ۔ اس حوالے سے اللہ کے رسول ؐ کا وہ تربیتی منہج سامنے رکھنا چاہیے جس کی بدولت انہوں نے نوجوانوں کی ایک بہترین ٹیم تیار کی تھی ۔ جس نے بعد میں بڑے بڑے معرکہ اور کنمے نجام دئے ۔ اللہ کے رسول ؐ  نوجوانوں کی ان کے رجحان اور طبعیت کو مد نظر رکھتے ہوئے تر بیت کر کے ذمہ داریاں سونپتے تھے ۔ اللہ کے رسول ؐ کااتربیتی منہج بڑا شاندار اور منفرد انداز کا ہے۔ آپ ا ؐ ن کی کردار سازی پر بہت توجہ فر ماتے تھے ۔اور نہ صرف ان کے خارجی مسائل حل کرتے تھے بلکہ ان کے نفسیاتی مسائل بھی حل کرتے تھے ۔ ایک دن قریش کا ایک نوجوان رسول ؐ کی خد مت میں آیا اور بلا خوف وتردد عرض کیا اے اللہ کے رسول ؐ مجھے بدکاری کی اجازت دے دیجئے، صحابہ کرام ؓ اس نوجوان کی بے ہودہ جسارت پر بپھر گئے اور اس کو سخت سے سخت سزا دیناچاہی مگر رسول ؐ نے بالکل منفرد انداز اختیار کیا آپ ؐ نے اس نوجوان کو قریب بلایا اور کہا کیا تم یہ بات اپنی ماں کے لئے پسند کرتے ہو نوجوان نے کہا میری جان آپ ؐ پر قربان ہو یہ بات میں اپنی ماں کے لئے کبھی پسند نہیـں کر سکتا۔ پھر آپؐ نے اس کی بہن ، پھوپھی اور خالہ کے بارے میں اس طرح کے سوالات کئے بعد میںاس سے پوچھتے کیا تم اسے پسند کرتے ہو وہ ہر بار یہی کہتا میری جان آپ ؐ پر قربان ہو خدا کی قسم یہ با ت میں ہر گز پسند نہیں کر سکتا ۔پھر آپ ؐ نے ا س نوجوان کو اپنے قریب بلایا اور اس کے لئے اللہ سے دعا کی جس کے بعد وہ کبھی بھی اس بے ہودہ کام کی طرف مائل نہیں ہوا ۔(مسند احمد ) اس واقعے سے ہم کو بخوبی اندازہہوتا ہے کہ نوجوانوں کے نفسیاتی مسائل کو کس طرح پیار سے سمجھانے اور حل کرنے کی ضرورت ہے ۔   
۵۔اخلاق باختگی اور نوجوان :
     آج فحاشی وعریانیت ، ننگا ناچ اور حیا سوز ذرائع ابلاغ ہر گھر اور خاندان کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے ۔ بے شمار رسائل وجرائد اور اخبارات بے حیائی کو فروغ دے رہے ہیں ۔انٹر نیٹ پر اَن گنت حیا سوز ویب سائٹس دستیاب ہیں جن تک رسائی ہر نوجوان کو باآسانی ہو جاتی ہے ۔ گھر سے لے کر کالج تک اور کالج سے لے کر بازار تک بے حیائی پر مبنی ماحول کا سامنا ہے ایسا معا شرہ اور فضا نوجوان کی جنسی خواہشات کو بر انگیختہ کر دیتی ہیں ۔ بے حیائی اخلاق باختگی ایک ایسی وبا ہے جو بڑی تیزی کے سا تھ اپنے اثرات دکھا رہی ہے ۔ جس کی بدولت آج نوجوانوں میں خوف تناؤ ،ذہنی اور نفسیاتی پریشانیاں دن بدن بڑھتی جارہی ہیں ۔ برائیوں ، پریشانیوں بے حیائی اور فحاشی اور رذائل اخلاق دیمک کی طرح کی طرح نوجوانوں کو کھا ئے جارہے ہیں ۔اطمنان قلب ، تطہیر ذہن ،حیا پسندی ، پاک دامنی اور حسن اخلاق سے نوجوانوں کو متصف کرنا وقت کا ایک تجدید ی کام ہوگا ۔ بقول مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ  ’’وقت کا تجدیدی کام یہ ہے کہ امت کے نوجوان اور تعلیم یافتہ طبقہ میں اسلام کی اساسیات اور اس کے نظام و حقائق اور رسالت محمدی ؐ وہ اعتماد واپس لایا جائے جس کا رشتہ اس طبقہ کے ہاتھ سے چھوٹ چکا ہے آج کی سب سے بڑی عبادت یہ ہے کہ اس فکری اضطراب اور نفسیاتی الجھنوں کا علاج بہم پہنچایا جائے ۔جس میں آج کا تعلیم یافتہ نوجوان بری طرح گرفتار ہے اوراس کی عقلیت اور علمی ذہن کو اسلام پر پوری طرح مطمئن کر دیا جائے‘‘ ۔(نیاطوفان اور اس کا مقابلہ ص ۲۶)
اسلام نہ صرف برائیوں کو قابو میں کرنا چاہتا ہے بلکہ ان کا قلع قمع بھی کرتا ہے ۔ جن میں نوجوان طبقہ مبتلا ہے، اسلام نے برائیوں سے دور رہنے کی سخت تاکید کی ہے ۔ اب اگر برائیوں کو جاننے اور اس کے انجام بد سے باخبر ہونے کے باوجود اجتناب نہیں کریں گے تو اللہ کے رسول ؐ کا یہ مبارک ارشاد ذہنوں میں مستحضر رکھنا چاہیے کہ:  لوگوں نے اگلی نبوت کی باتوں میں جو کچھ پایا اس میں ایک بات یہ بھی ہے کہ جب تم کو شرم نہ رہے تو جو چاہے کرو۔
۶۔ اعتدال وتوازن کا فقدان :۔
    اعتدال وتوازن ہر کام میں مطلوب ہے جس کام میں اس کا فقدان ہو وہ صحیح ڈگر پر زیادہ دیر اور دورتک نہیں چل سکتا ۔ جب اور جہاں بھی اعتدال اور توازن ہاتھ سے چھوٹ جائے تو وہیں انتہاء پسند ی اور غلو،شدت پسندی اور تخریب کاری کا عمل شروع ہو نا لازمی ہے ۔ اعتدال پسندی وتوازن کھانے پینے ، چلنے پھرنے ، بات چیت ، سو نے جاگنے ،محنت ومشقت ،مال کمانے ، سیر وتفریح حتی کہ عبادات میں بھی مطلوب ہے ۔ اسلام اعتدال و توازن کا دین ہے ۔ یہ جہاں شدت پسندی سے روکتا ہے و ہیں غلو کرنے سے اجتناب کی تلقین کر تا ہے ۔اسلا م زندگی کے ہر شعبہ میں اعتدال کی راہ اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے قرآن جگہ جگہ اعتدال کی راہ اختیار کرنے کے رہنما اصول فراہم کر تا ہے ۔ امت مسلمہ کے حوالے سے قرآن کاموقف یہ ہے کہ یہ امت وسط ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے  ا للہ تعالیٰ نے نہ صرف امت کے ہر فرد کو اعتدال وتوازن پر قائم رہنے کی تاکید کی (البقرۃ)بلکہ پیغمبر اعظم ؐ کوبھی اعتدال کی روش اختیار کر نے کی تلقین کی ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:اے محمد! ؐ کہہ دیجئے کہ میرے رب نے اعتدال کی راہ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے ۔ (الاعراف۲۹ )شدت پسندی ،غلو اور افراط وتفریط سے اجتناب کرکے نوجوانوں کو اعتدال کی روش کو اپنانا چاہیے۔
۷۔تعلیم وتر بیت کافقدان :۔ 
   ایک اور مسئلہ جس کی وجہ سے نوجوان مختلف مسائل اور مشکلات میں گھر اہوا ہے وہ ماں باپ کی ناقص تعلیم وتربیت ہے ۔ جو نوجوان بھی ماں باپ کی تعلیم و تربیت سے محروم رہ جا ئیگا لازمی طور سے مسائل اورا لجھنوں کا شکار ہو گا ۔ایک نوجوان کی اس سے بڑی بد قسمتی اور کیا ہو سکتی کہ وہ اپنے ماں باپ کی تعلیم وتربیت کے سے محرو م رہے ۔اس کے ماں باپ تعلیم وتر بیت اور س کو صحیح رہنمائی کرنے میں کوتاہی یا بے اعتنائی برتیں۔ حقیقی معنوں میں یتیم اسی کو کہا جاتا ہے جیسے عربی کاایک مشہور شعر ہے    ؎
لیس الیتیم من انتھی ابوہ من ھم الحیات وخلفاہ ذلیلا
ان الیتیم ھو الذی تلقی لہ اماتخلت او ابامشغولا 
’’یتیم وہ نہیں ہے جس کے والدین فوت ہو چکے ہوں اور اس کو تنہا اوربے سہار چھوڑ رہے ہوں، یتیم تو وہ ہے جس کی ماں نے اس سے بے اعتنائی بر تی ہو اور باپ مصروف کار رہا ہو ‘‘۔ 
  اسلام نے بچوں کی پرورش اور پرداخت کے ساتھ ساتھ ماں باپ پر یہ بھی ذمہ داری عائد کی ہے کہ ان کو تعلیم وتر بیت اور اسلام کی اساسی تعلیمات سے روشناس کراکے صحت مند سماج کے لئے بہترین اور کار آمد افراد تیار کریں۔جہاں ماں باپ کو اس بات کیلئے مکلف ٹھہرایاہے کہ سات سال سے ہی بچوں کو نماز کی تلقین کریں وہیں ان کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کا مناسب وقت پر نکاح کا اہتمام کریں کیونکہ یہ ان کے بچوں کی عزت وعصمت اور پاک دامنی کے لئے انتہائی ضروری ہے۔
۸۔ ناقص نظام تعلیم :۔ 
      رائج نظام تعلیم بر طانوی مفکر لارڈ میکاولے کے افکار ونظر یات پر مبنی ہے عصر حاضر میں تنگ نظری ، مقامیت ، مادیت ،اخلاقی بے راہ روی اور عورت کا استحصال ، نوجوانوں میں بڑھتے ہوئے جرائم (juvenile delinquency)نیز خود کشی کے گراف میںاضا فہ یہ سب ناقص نظام تعلیم کی دین ہے ۔نظام تعلیم میں ان خرابیوں سے یہ ثابت ہوتا ہے اس کو صحیح رخ دینے کی اشد ضرورت ہے تاکہ یہ فرد اور سماج دونوں کی اصل ضروریات کو پورا کرسکے ۔ مشہور ماہر تعلیم ken Robinsonکی یہ بات کتنی مبنی بر صداقت ہے ۔
 "what we need is  not reform in the eduction system (because that would merely try to fix a  foundmently flawed system )but a total revolution".
   ہر قوم وملت کی تعمیروترقی بامعنی اور اقدار پر مبنی نظام تعلیم پر منحصر ہے ۔ بلکہ اگر یہ کہا جا ئے کہ قوم یا ملت کا بہتر مستقبل نظام تعلیم پر ہی منحصر ہے تو بے جا نہ ہوگا ۔ ایک مشہور ماہر تعلیم سے پوچھا گیا آپ ملت کے مستقبل کے حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے ۔تو ان کا جواب تھا ۔
''show me its education system that i can tell you about its future''
ترجمہ:’’مجھے اپنا نظام تعلیم دکھاؤ کہ جوبتا سکتا ہے کہ اس کامستقبل کیا ہوگا ‘‘۔  
رائج نظام تعلیم کے بر عکس اسلام کا نظام ِتعلیم الہی ہدایات پر مبنی ہے جو کسی بھی کمی یا نقص سے پاک ہے۔ اس میں فرد کی تعمیر و تطہیر کے لئے وافر مقدار میں ہدایات موجود ہیں ۔یہ فرد کی شخصیت کو منور کرتا ہے۔اس نظام تعلیم کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ چند بنیادی اور ہم سوالات کے جوابات فراہم کرتا ہے مثلا میں کون ہوں ؟میری زندگی کامقصد کیا ہے؟ مجھے پیدا کرنے والا کون ہے ؟ اس نے مجھے دنیامیں کیوں بھیجا ؟اور وہ کیا کام لینا چاہتا ہے ؟۔ خالق اور مخلوق کے درمیا ن اور پھر مخلوق اور مخلوق مابین کیا تعلقات ہیں ؟۔ 
۹۔ اسلامی تا ریخ ناواقفیت اور نوجوان :۔
     اپنی تہذیب و تاریخ اور علمی ورثہ سے مانوس و باخبر رہنا اشد ضروری ہے ۔ جو قوم وملک اپنی تاریخ اور علمی ورثہ سے غفلت برتی ہے۔ تو وہ صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹ جاتی ہے یا مٹا دی جاتی ہے۔ اپنی تاریخ سے ناآشنا ہوکر کوئی بھی قوم یا ملت بہتر مستقبل اور ترقی کی راہ پر گامزان نہیں ہوسکتی ۔ اس وقت امت مسلمہ کی صور ت حال یہ ہے کہ اس کا یہ اہم سر مایہ اپنی تاریخ سے بالکل نا بلد ہے ۔ ملت کے نوجوانوں کو اسلامی فتوحات کا کچھ علم نہیں۔ خلفائے راشدین کے کارناموں سے کوئی واقفیت نہیں ۔ وہ رسول ؐ کے جانباز ساتھیوں کی زندگیوں سے کو سوں دور ہیں ۔ ان کو پتہ ہی نہیں کہ امام غزالی، ابن خلدون ،ابن تیمیہ جیسی نامور شخصیات کون تھیں ۔ انہیں اس بات کا علم ہی نہیں کہ سید قطبؒ ، حسن البناؒ اور سید مودودیؒ  اور ناصر الدین البانی ؒنے کیا کیا خدمات انجام دیں ۔ملت  کے اس طبقہ کو اسلام کے سرمایہ علم اور تاریخ سے جوڑنا وقت کی ہم ترین پکار ہے ۔ 
۱۰۔گلوبلائزیشن کے اثرات اور نوجوان:۔
عالم کاریGlobolization) ( کے ذریعہ مغرب پوری دنیا میں آزاد تجارتی منڈی قائم کر چکاہے ۔ جس کے نتیجہ میںسیکولرازم اور الحادی نظریات کی تخم ریزی ہو رہی ہے۔ گلوبلائزیشن ایک ایسا رجحان ہے کہ مغرب اس کے ذریعہ دنیا کے ہر کونے میں آزاد معیشت اور تجارتی منڈی کو فروغ دے رہا ہے ۔ گلیمر کی اس دنیا میں مغرب اپنی تہذیب کے اثرات بھی تیزی کے ساتھ مرتب کر ر ہے ۔ا س تہذ یب کی ظاہری چمک دمک نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے حالانکہ یہ تہذیب اقبال کی زبان میں ۔
  فسادِ قلب ونظر ہے فرنگ کی تہذیب   
   کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف !
   رہے نہ روح میں پاکیزگی تو ہے ناپید 
 ضمیرپاک و خیال ِبلند و ذوقِ لطیف !
    گلوبلائزیشن کے ذریعہ سے مغرب جن چار چیزوں کو وسیع پیمانے پر پھیلانے کے لئے مصروف عمل ہے وہ یہ ہیں ۔۱۔تہذیب ۲۔ ٹیک نولوجی ۳۔ معیشت ۴۔ جمہوریت ۔اور اس کے علاوہ سرمایہ داروں اور ایم این سیز (Multi National companies)کو بھی خوب پزیرائی مل رہی ہے ۔ ان سبھی اداروں نے سب سے زیادہ جس طبقہ کو اپنی گرفت میں کر رکھا ہے وہ نوجوان طبقہ ہے ۔   مسلم نوجوانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام عالمگیر نظام زندگی ہے، یہ خالق کائنات نے انسان کے لئے بنایا(Design)کیا ہے ۔اللہ تعالیٰ اپنا تعارف قرآن مجید میں رب العالمینسے کر اتا ہے ۔ رسول ؐ رحمت کا تعارف رحمۃللعالمینسے کراتا ہے اور قرآن پاک کو ھدی للناس کہتا ہے اس کے علاوہ اسلامی تہذیب ایسی تہذیب ہے جس میں متبادل ہونے کی صفات بدرجہ اتم موجود ہیں۔بقول اقبال    ؎
 اُٹھ کہ اب بزم ِجہاں کا اور ہی انداز ہے  
    مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے 
(ختم شد)
رابطہ پی، ایچ ۔ڈی ۔اسکالر ،شعبہ اسلامیات،مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدر آباد
6397700258