تنقید کے عمومی معنی کھرے کھوٹے میں تمیز کرنا لیے جاتے ہیں یہ ہم عام لفظوں میں کہتے ہیں ’تنقید دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کردیتی ہے‘‘۔اردو میں تنقید نے دونوں کام کیے ہیں اور اب اردو میں تنقیداتنی لکھی جاچکی ہیں کہ بہت سے نقاد تنقید کو بھی تخلیق کے زمرے میں لانے کی بات کر رہے ہیں جو نہ صرف ان کی بوکھلاہت اور کم فہمی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ یہ اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اردو میں نقادوں کی دبدبہ اور اجارہ داری کس حد تک بڑھ گئی ہے ،لیکن اسے اردو ادب اور ادیبوں کی بدقسمتی کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ایسے معاشرے میں جہاں تنقید کی کتابیں زیادہ اور ادب کی کتابیں کم پڑھی جاتی ہوں(یا بِکتی ہوں) ادب کے متعلق کسی خیر کی توقع کرنا نادانی کے سوا کچھ نہیں۔شائد تنقید یا سرکاری تنقیدی سے متعلق راقم الحروف کی باتوںسے بہت سے نقاد ناراض ہوتے ہوں اور ہوتے بھی ہیں لیکن ادب یا کوئی بھی علم سرکس کا کھیل نہیں جہاں صرف تماشائیوں کو ہنسایا اور خوش کیا جائے۔ ادب کی جمہوریت میں ہر کسی کو اپنی بات رکھنے کا حق ہے،یہاں کسی ڈکٹیٹرشپ کی گنجائش نہیں ۔یہاں جو بت بنائے جاتے ہیں، ان کے ٹوٹنے کا وقت کبھی بھی آسکتا ہے۔ بہرحال یہ ایک الگ موضوع ہے جس کے لیے ایک الگ مضمون درکار ہے۔یہاں پر صرف عہد حاضر میں تنقیدکے منصب پر مختصر روشنی ڈالنی مطلوب ہے۔
ادبی تنقید کا پہلا کام اور منصب یہی ہے اور جسے پوری دنیا میں تسلیم کیا جاتا ہے کہ یہ ادب کے پرکھنے کا ایک وسیلہ ہے۔ادب کی صحیح تفہیم اور تعبیر کے لیے ضروری ہے۔اوران باتوں سے کسی کو بھی انکار نہیں۔اور تنقید نے ابتدا ہی سے ایسا کام کیا ہے۔لیکن اسے بدقسمتی کہیے یا کچھ اور کہ اردو میں پچھلے پچاس سال سے تنقید زیادہ تر یک رُخی رہی ہے۔تنقید کو جوکام کرنا تھا ،اس نے وہ پوری طرح نہیں کیا اور نتائج ہمارے سامنے ہیں۔تنقیدکا کام تو یقینا ادب کی پرکھ اور تعبیر ہے لیکن تنقید کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ یہ ادیبوں کو صحیح راہ دکھائے۔وہ راہ جہاں ادیب صرف مسئلے کے ایک پہلو پر توجہ نہ دیں بلکہ اس مسئلہ اور اپنے ماحول کے ارد گرد بھی اپنی نظر دوڑائے۔اِس کے لیے ضروری ہے خود نقاداپنے ارد گرد ماحول و مسائل سے آگاہ ہو۔لیکن جہاں نقاد تو سات سمندر پار تنقید نگاروں کے حوالے دیتا ہو لیکن اسے پتا نہیں کہ اس کے پڑوس میں کیا ہورہا ہے، اپنی ثقافت ،اپنی تاریخ اور روایت سے بے خبر ہو تو ایسی تنقید سے کسی خیر کی امید رکھنا کار فضول کے سوا کچھ نہیں۔ایسی تنقید صرف ذہنی ورزش اور سرکس کا کھیل ہوکر رہ جاتی ہے۔اور یہی اردو تنقید کے ساتھ بھی ہوا۔ادب کی ادبیت کا دعویٰ کرنے والے بھول گئے یا بھولنے کا دھونگ کیا کہ 1960 ء کے قبل بھی ادب لکھا گیا اور جس کے ترجمے دنیا کی بڑی زبانوں میں ہوئے ہیں اور قاری کروڑوں کی تعداد میں ہیں۔لیکن اردو کے بیچارے قارئین جو ہندوستان میں زیادہ تر مدرسے سے نکلتے ہیں ،ان پر سات سمندر پار والے تنقید نگاروں کا رعب اس طرح جمایا گیا جس سے نکلنے میں ابھی شائد کچھ وقت لگے گا۔
اگر یہ کہا جائے کہ 1960 کے بعد تنقید نے جہاں اچھا کام کیا لیکن ساتھ ہی اس نے اردو معاشرے کو قنوطیت کے اس دلدل میں پھنسادیا ہے تو کسی کو ناراض ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔اس وقت میں اردو تنقید کا المیہ یہ رہا ہے کہ اس نے ادیبوں و شاعروں کو سُلانے کا کام کیا ہے۔نام نہاد ادبیت اور فارملزم کی آڑ میں ادیبوں و شاعروں کے ایک بڑے گروہ کو قنوطیت کی دلدل میں جھونک دیا ہے۔اس قنوطیت کا سب سے بڑا نقصان یہ ہو ا کہ ہندوستان میں اردو معاشرہ مین اسٹریم سے کٹ گیا اور اس کا فائدہ ہندی والوں نے اٹھایا۔یہی وجہ ہے کہ پچھلے لگ بھگ پچاس سال میں ہندوستان میں ہندی میں ناول اور افسانے نے جو ترقی کی وہ اردو میں دیکھنے کو نہیں ملتی۔شاعری کا اتنا ڈول پیٹا گیا کہ افسانے و ناول پس پشت چلے گئے۔اور شاعری ہی شاعری رہ گئی جو قنوطیت اور فراریت سے بھری پڑی ہے۔۔ہاں کچھ اچھے ناول و افسانے ضرور لکھے گئے لیکن عموماََ شاعری اور شاعری کی تنقید پر ہی سارا زور صرف ہوا ۔ظاہر سی بات ہے جب بورژوا تنقیدی ماڈل تیسری دنیا میں آنکھ بند کرکے اپنایا جائے گا تو ادب اور دوسرے فنون کا یہی حشر ہوگا۔اور یہی اردو کے ساتھ ہوا۔اردو کا ادیب اور شاعر زمین سے کٹ گیا اور اس نے راہ فرا ر اختیار کرنے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔اس کے بُرے نتائج بھی نکلے ۔ہندوستانی سماج میں اردو کے ادیبوں و شاعروں کا جو رول رہا تھا وہ ختم ہوگیا ، کیوں کہ وہ سماج سے ہی کٹ گیا تو پھر اس کا رول کیسا۔مین سٹریم سے کٹنے کی وجہ سے وہ بکھر گئے اور پھر اسی بکھراو کو انہوں نے اپنی تحریروں میں سمویا اور قاری سے مخاطب ہوئے کہ یہ پورے سماج کے مسائل ہیں جس میں فریب اور جھوٹ کے سوا کچھ نہیں تھا۔ادب جمود کا شکار ہوا اور صرف تفریح کا ذریعہ بن کر رہ گیا۔ایسا نہیں کہ اس دوران بالکل سطحی ادب لکھا گیا ،بلکہ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جن مسائل و موضوعات پر قلم اٹھانا چاہیے تھا وہ پس پشت چلے گئے اورادیب و شاعر اپنی ہی سنانے لگے ۔مسئلہ یہ تھا کہ ان کی پشت پناہی ایسی ہ قنوطیت پرست تنقید کررہی تھی۔اور اس سے بڑا المیہ کوئی نہیں تھا۔
اس دور سے نکلنے کی بہت آوازیں اٹھیں اور پچھلے دس بیس سال سے متواتر نئی آوازیں سامنے آرہی ہیں جو ادب کے سماج میں رول کی اہمیت کی قائل ہیں اور ادب کو بجا طور پر محض حظ یا تفریح کا ذریعہ نہیں مانتی۔بلکہ اس بات پر مصر ہیں کہ ادب میں ادبیت ہونے کے ساتھ ساتھ ،اس تہذیب،ثقافت، سماج وغیرہ کی عکاسی بھی ہوتی ہے جس سماج یا ملک میں وہ لکھا جاتا ہے۔ایسے میں تنقید کے فرائض اور بھی مشکل ہوجاتے ہیں جب آپ پرانے دور سے نکل رہے ہوں۔یہاں تنقید کو سنبھل کر قدم رکھنا پڑے گا۔
عہد حاضر میں تنقید کا پہلا فریضہ یہی ہونا چاہیے کہ وہ ادیب کو نہ صرف ادبی اوصاف کی رہنمائی کرے بلکہ ایک نقاد کے لیے ضروری ہے کہ ادب کو ہر معاملے میں صحیح راہ دکھائے۔تنقید کا پہلا مقصد یہی ہونا چاہیے کہ وہ قاری کے اندر ہر طرح کے ادب کا مطالعہ کرنے پر اکسائے اور اس کے اندر ادب فہمی کا ذوق پیدا کرے۔یہاں چودھراہٹ یا تاناشاہی کی گنجائش نہیں نہ ہی کسی بیورو کریٹک تنقید کی بلکہ ادب کا مطالعہ عصری تناظر میں پیش کیا جائے اور ادیب کی بھی اس سلسلے میں رہنمائی کی جائے۔
عصر حاضر یا مابعد جدید تنقید نگار کو پتا ہو نا چاہیے کہ ادب محض حظ یا تفریح کا ذریعہ نہیں جیسا کہ اسے اپنے پہلے والے تنقید نگاروں نے باور کرایا ہے بلکہ جدید ادبی تھیوریوں نے یہ بات ثابت کی ہے کہ ادب کا اس ملک کی ثقافت،سماج،روایات ،تاریخ،سیاسیات سے گہرہ تعلق ہے۔ادب کا مطالعہ اسی تناظر میں ہونا چاہیے۔ایک نقاد کے لیے ضروری ہے کہ عالمی تنقیدی نظریات سے استفادہ کرے، لیکن اس دوران میں اسے یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ وہ کسی فرانسیسی یا انگریزی قاری یا ادیب کے لیے تنقید نہیں لکھ رہا ہے بلکہ اس کا قاری برصغیر کا ہے،اپنے سماج کا ہے اور اپنے ملک کا ہے۔اس تنقید نگار کے قارئین کا سماجی و ثقافتی پس منظر مختلف ہوگا اور مزاج بھی۔دوسرے یہ کہ ضروری نہیں کہ وہ ہر جملے کے بعد کسی مغربی نقاد یا تھیوری باز کا جملہ دہرائے بلکہ اس نے کسی مغرب تنقیدی ماڈل سے استفادہ کیا ،اسے اس کا اقرار کرنا چاہیے ،لیکن ہر مضمون میں بے جا باربار دہرانا اسی کی مغرب سے مرعوبیت اور احساس کمتری کو ظاہر کرے گا۔یہ ضرور ہے کہ اسے ایسے قارئین کا ایک وسیع حلقہ بھی نصیب ہوگا لیکن اسے یاد ہونا چاہئے کہ وقت اور تاریخ بڑی فیصلہ ساز ہے۔بدقسمتی سے پچھلے چالیس سال کی تنقید میں جتنی مرعبیت کی بو آتی ہے اس سے پہلے اردو میں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔
موجودہ دور میں تنقید نگار کو سمجھنا ہوگا کہ دنیائے ادب اب فارملزم یا مارکسزم سے بہت آگے نکل چکا ہے۔ادب نے بہت سی سرحدیں عبور کی ہیں اور یہ برابر نئی سرحدوں کو چھو رہا ہے۔ایسے میں ایک تنقید نگار کے لیے ضروری ہے کہ اسے اپنے ارد گرد کے حالات کے علاوہ عالمی منظرنامے پر بھی نظر ہونی چاہیے۔اس کی نہ صرف عالمی تاریخ بلکہ عالمی سیاست پر بھی نظر ہونی چاہیے۔ادب کا کام حظ اور مسرت پہنچانے کے علاوہ کچھ اور بھی ہے۔یہاں پر اس بات کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ اردو میں تنقید نگاروں کے ایک گروہ نے یہ غلط فہمی پھیلائی کی جس ادب میں بھی غریبوں ،مظلوموں اور آزادی کی بات ہوگی،وہ مارکسی ادب ہے،یہ نعرہ بازی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان نام نہاد نقادوں نے فیض کو بھی نہیں بخشا،عصمت،پریم چند ،کرشن چندر ،بیدی، منٹو کو تو ادب باہر کیا جانے لگا۔بھلا ہو دو تین نقادوں کا جنہوں ان ادیبوں پر لکھا ورنہ اردو والے بیوروکریٹک تنقید کے زیر اثر شائد ان ادبا کو آج بھول گئے ہوتے۔اتنی بات تو طے ہے کہ ہر وہ تحریر جس میں کسی بھی مظلوم ،غریب،غلام کا ذکر ہوگا، ضروری نہیں کہ وہ مارکسزم یا ترقی پسندی کے زمرے میں آئے ۔ اورنہ کسی تنقید نگار کو کسی نے یہ حق دیا ہے کہ وہ ادیب سے قسم کروا لے کہ وہ کتنا ترقی پسند ہے اور کتنا جن سنگھی یا جدیدی یا کچھ اور۔نہ ہی یہ تنقید کے مناصب میں ہے۔تنقید نگار کا پہلا فرض یہ ہے کہ کسی بھی تحریر میں زبان اور موضوع کا مطالعہ غیر جانبداری کے ساتھ پیش کرے،تب جاکر اپنا فیصلہ سُنائے۔
تنقید نگار کا یہ بھی فرض بنتا ہے کہ وہ ادیب کو عصری حالات و واقعات سے روشناس کرائے۔سماج میں کیسے حالات پنپ رہے ہیں اس پر ایک تنقید نگار کی نظر ضرور ہونی چاہیے،ورنہ وہ سات سمندر کی تو باتیں کرے گا لیکن اپنے سماج یا ملک کے ادیب کی کوئی رہنمائی نہیں کرسکے گا۔ایک نقاد کا یہ فرض اور منصب ہے کہ وہ نہ صرف فن کی باریکیوں سے بلکہ عصری تقاضوں سے بھی ایک ادیب کو روشناس کرائے اور یہ ضروری بھی ہے۔کیوں کہ جب تک ایک ادیب کی سماج اور افراد پر گہری نظر نہیں تب تک وہ اچھی تحریر نہیں لکھ سکتا۔اور یہ سچ بھی ہے کہ ایک نیا ادیب نقاد سے ان چیزوں کا طلب گار رہتا ہے جو اوپر مذکو ر ہوئیں۔
تنقید کا کام صرف کسی فن پارے میں تشبیہات،استعارات یا جملوں کی ساخت دیکھنا یا گِنناہی نہیں بلکہ بہت کچھ ہے۔ہاں یہ چیزیں ادبی تنقید میں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں لیکن انہی کو کُل سمجھنا تنقید کے منصب کے ساتھ ناانصافی ہے یا اس کے منصب کو محدودکرنے کے برابر ہے۔عصر حاضر میں ایک تنقید نگار کے اندر مختلف علوم و نظریات کا وسیع مطالعہ ضروری ہے۔تنقید نگار کا کھلے ذہن اور وسیع نظر کا مالک ہونا ضروری ہے۔کبھی کبھی وہ خود بھی تنقید کی زد میں آسکتا ہے،اگر وہ یہ تنقید سہہ پایا تو ٹھیک اگر نہیں تو یہ ایک تنقید نگار کے ڈکٹیٹر ہونے کی علامت ہوگی اور اس کے اپنے نظریے اور موقف کے موت کی بھی۔
رابطہ :جواہر لال نہرو یونیورسٹی ،نئی دہلی