محمد عرفات وانی
اردو ادب میں کچھ تحریریں ایسی ہوتی ہیں جو وقت کے ساتھ ماند نہیں پڑتیںبلکہ ہر پڑھنے والے کے دل پر گہرا اثر چھوڑ جاتی ہیں۔ ایسی تخلیقات میں ایک بڑااضافہ پرویز مانوس بٹ کا ناول ’’عشق جس نے بھی کیا‘‘ ہے، جو اردو فکشن میں ایک نئی سمت اور منفرد اسلوب کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ صرف ایک ناول نہیں بلکہ عشق کے فلسفے، انسانی جذبات کی پیچیدگیوں اور سماجی حقائق کی آئینہ دار ہے۔پرویز مانوس اردو ادب میں ایک معتبر نام ہے، جن کی تخلیقات نے کہانی کہنے کے روایتی انداز کو ایک نیا زاویہ دیا۔ ان کی نثر میں جہاں شعریت کی لطافت ہے، وہیں حقیقت کی گہرائی بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔ ان کے افسانے، نظمیں اور ناولز صرف کہانیاں نہیں بلکہ جذبات اور فکر کی خوبصورت تصویریں ہیں، جن میں معاشرتی تضادات، انسانی رویے اور زندگی کی نیرنگیاں جیتی جاگتی محسوس ہوتی ہیں۔پرویز مانوس نے 1985 میں ادبی سفر کا آغاز کیا اور وقت کے ساتھ اردو ادب کے مختلف زاویوں میں اپنی شناخت قائم کی۔ شاعری، افسانہ نگاری اور ناول نگاری میں ان کی خدمات پورے برصغیر میں سراہی جارہی ہیں۔ ان کے ادبی سفر کی جھلک ہمیں ’’بیتے لمحوں کی سوغاتیں‘‘، ’’شکاری کی موت‘‘، ’’مٹھی بھر چھاؤں‘‘، ’’سارے جہاں کا درد‘‘ اور ’’برگشتگی ‘‘جیسی تخلیقات میں نظر آتی ہے۔
’’عشق جس نے بھی کیا‘‘ پرویز مانوس کی تخلیقی صلاحیتوں کا عروج ہے۔ یہ ایک ایسا ناول ہے جو عشق کے مختلف پہلوؤں کو اُجاگر کرتا ہے۔ایک طرف مجازی محبت تو دوسری طرف عشقِ حقیقی کی بے پناہ وسعت۔ ناول میں محبت صرف ایک جذبہ نہیں بلکہ ایک کائناتی حقیقت کے طور پر پیش کی گئی ہے جو انسان کو فنا سے بقا کی جانب لے جاتی ہے۔ناول کے آغاز ہی سے قاری ایک منفرد دنیا میں داخل ہوتا ہے، جہاں کردار نہ صرف جیتے جاگتے محسوس ہوتے ہیں بلکہ ان کی نفسیاتی کیفیات بھی گہرائی کے ساتھ اُجاگر کی گئی ہیں۔ پرویز مانوس نے اس کہانی میں روحانیت اور حقیقت کے امتزاج سے ایک ایسا تخلیقی شاہکار تخلیق کیا ہے جو اردو ادب میں اپنی مثال آپ ہے۔
یہ انتساب ہی ناول کی عظمت کو بیان کر دیتا ہے:’’اس عشق کے نام جس نے آتشِ نمرود کو گلزار کر دیا،جس نے مچھلی کے پیٹ میں کئی روز گزارے،جس نے کنعان کے تاریک کنویں میں کئی راتیں بِتائیں،جس نے طورِ سینا پر خالقِ کائنات کی تجلی دیکھی،جس نے ‘انا الحق کے عوض تختۂ دار قبول کیا۔‘‘یہ کلمات ناول کے مرکزی خیال کو واضح کرتے ہیں،یہ عشق محض ایک جذباتی وابستگی نہیں بلکہ وہ روشنی ہے جو نمرود کے انگاروں کو گلزار کر دیتی ہے، وہ یقین ہے جو یونس کو مچھلی کے پیٹ میں بھی تنہا محسوس نہیں ہونے دیتا، وہ سچائی ہے جو منصور کو سولی پر چڑھنے سے نہیں روک پاتی۔
پرویز مانوس نے اس ناول میں کرداروں کو بے حد باریکی اور نفاست سے تراشا ہے۔ ہر کردار اپنے اندر ایک مکمل کہانی رکھتا ہے اور ہر کہانی عشق کی کسی نہ کسی صورت کو آشکار کرتی ہے۔ مرکزی کرداروں کے مکالمے، ان کی سوچ اور ان کے جذبات ایک حقیقی رنگ لئے ہوئے ہیں جو قاری کو ان سے جُڑنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔اُن کی تحریر کا سب سے خوبصورت پہلو اُن کی نثر کی شاعرانہ کیفیت ہے۔ الفاظ کو محض جملے بنانے کے لیے نہیں برتتے بلکہ ہر جملہ ایک شعری تجربہ لگتا ہے جو قاری کو جذباتی طور پر اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔’’عشق صرف محبت کا نام نہیں، یہ وہ شعلہ ہے جو جلاتا بھی ہے اور روشنی بھی دیتا ہے۔‘‘،’’محبت کے بغیر دنیا کا کوئی راز کھلتا نہیں اور محبت وہ واحد راز ہے جو جتنا چھپایا جائے، اتنا عیاں ہوتا جاتا ہے۔‘‘یہ جملے نہ صرف کرداروں کی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ پورے ناول کے فکری دھارے کی نمائندگی کرتے ہیں۔
’’عشق جس نے بھی کیا‘‘ – ایک آئینہ ہے جو قاری کو خود میں دیکھنے پر مجبور کر دیتا ہے۔یہ ناول محض ایک کہانی نہیں بلکہ ایک ذہنی و روحانی سفر ہے۔ ہر قاری اس میں خود کو تلاش کرتا ہے، اپنے عشق کے رنگ دیکھتا ہے، اپنی محبتوں کی ناتمامیوں کو محسوس کرتا ہے۔ مصنف نے نہایت خوبی سے اس ناول میں سماجی مسائل کو بھی اُجاگر کیا ہے۔ایسے مسائل جو معاشرتی روایات میں جکڑے ہوئے لوگوں کو نظر تو آتے ہیں مگر وہ انہیں قبول کرنے کی ہمت نہیں کر پاتے۔یہ ناول قاری کو جھنجھوڑتا ہے، اسے سوال کرنے پر مجبور کرتا ہے:کیا محبت واقعی سب سے بڑی حقیقت ہے؟کیا عشق قربانی مانگتا ہے یا خود کو تسلیم کرانے کا ہنر سکھاتا ہے؟کیا دنیا میں کوئی محبت ایسی بھی ہے جو وقت اور زمانے کی قید سے آزاد ہو؟’’عشق جس نے بھی کیا‘‘ محبت کے ہر زاویے کو نہایت خوبصورتی اور گہرائی کے ساتھ بیان کرتا ہے۔یہ عشق کی شدت کو بھی دکھاتا ہے اور اس کی قربانی کی لازوال حقیقت کو بھی۔یہ تصنیف پرویز مانوس کے ادبی سفر میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے اور اردو فکشن کے دامن میں ایک ایسا اضافہ ہے جسے آنے والے عشروں تک یاد رکھا جائے گا۔یہ ناول ہر اس دل کے لیے ہے جو عشق کے اسرار کو جاننا چاہتا ہے، ہر اس روح کے لیے جو محبت کی گہرائیوں میں اترنے کی جستجو رکھتی ہے اور ہر اس ذہن کے لیے جو حقیقت اور خواب کے درمیان ایک ان دیکھی لکیر تلاش کرنا چاہتا ہے۔
[email protected]