ریاض میں منعقدہ جی۔20ورچول چوٹی کانفرنس سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان (ایم وی ایس) کی راست نگرانی میں منعقد کیا گیا جس کا مقصد عالمی اسٹیج پر سعودی عرب کی قائدانہ صلاحیتوں کو پیش کرنا تھا۔ توقع کے مطابق دو روزہ کانفرنس کے ایجنڈے میں کورونا وائرس کی وبا چھائی رہی۔ دنیا کی 20بڑی معیشتوں نے کورونا ویکسین کی دنیا بھر میں کفایتی اور مساویانہ رسائی کو یقینی بنانے اور مستقبل میں صحت کے بحران سے نمٹنے کے لیے تیاری کا عہد کیا۔
بین الاقوامی وبائی معاہدہ:
چارلس مائیکل صدر نشین یوروپین کونسل نے مستقبل میں وباؤں کو پھیلنے سے روکنے کے لیے ایک بین الاقوامی معاہدے کی تجویز پیش کی۔ مائیکل نے کہا : ’’تمام ممالک، اقوام متحدہ کے تمام اداروں اور تنظیموں کے درمیان خاص طور سے عالمی صحت تنظیم کے ساتھ مذاکرات ہونے چاہئیں۔ ڈبلیو ایچ او کو صحت سے متعلق ہنگامی حالات میں عالمی تعاون کو یقینی بنانے کے لیے اہم رول ادا کرنا ہوگا۔ جی۔20قیادت نے عہد کیا کہ عالمی سطح پر صحت کے مسائل سے نمٹنے کے لیے 21ارب ڈالر کی فنڈنگ کی جائے گی۔ جی۔20کے اعلامیہ کے مطابق رکن ممالک معیشت اور روزگار کے تحفظ کے لیے 11کھرب ڈالر کی مدد کرچکے ہیں۔ بین الاقوامی قائدین نے کوویڈ۔19ٹیکہ کی تیاری اور تقسیم کے نظام کو مضبوط اور مربوط بنانے کے لیے جامع عہد کا اظہار کرتے ہوئے کم آمدنی والے ممالک کے لیے سماجی تحفظ کی ضمانت کو وسعت دینے، قرض کی راحت کو توسیع دینے اور پیرس معاہدہ کے تحت انتہائی ممکنہ ارادوں کا عہد کیا۔
سعودی عرب کا بیان:
سعودی عرب کے شاہ بن عبدالعزیز السعود نے اپنے اختتامی ریمارکس میں اس بات پر زور دیا کہ کوویڈ-19کے اثرات کا سامنا کرنے اور دنیا کے عوام کے لیے ایک خوشحال مستقبل تعمیر کرنے کے لیے باہمی تعاون کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔انھوں نے کہا : ’’ہم نے کئی اہم پالیسیوں کو اختیار کیا، جو معیشت کے لیے ہر طرح سے بحالی حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہوں گی جو کہ لچکدار، مستحکم، غیر مختتم اور متوازن رہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ پالیسیاں عالمی تجارت کو سب کے لیے کارگر بنانے اور مستحکم ترقی کے حصول کے لیے حالات کو سازگار بنانے میں رفتار برقرار رکھیں گی۔
اس کانفرنس کے ذریعہ سعودی عرب حکومت، ملک میں ہونے والی تبدیلیوں اور اصلاحات کے تعلق سے ایک مثبت تاثر دینا چاہتی تھی اور یہ بھی دکھانا چاہتی تھی کہ ملک میں مستقبل کے لیے کئی شاندار پراجیکٹس جیسے نیوم سٹی تیار کیے جارہے ہیں لیکن وہ جاریہ وبا کی وجہ سے اس میں ناکام رہے۔ البتہ اس ویڈیو کانفرنس کے ذریعہ نقائص سے پاک چوٹی کانفرنس منعقد کرنے کے ذریعہ وہ ملک کی ٹکنالوجی میں مختلف پیمانے پر ہوئی پیش رفت کو بھی ظاہر کرنے میں کامیاب رہے۔
ہندوستان کا موقف:
وزیر اعظم نریندر مودی نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعہ اس چوٹی کانفرنس سے خطاب کیا اور دنیا بھر میں کوویڈ سے مؤثر طور پر نمٹنے کے لیے اصلاح پسند ہمہ گیریت کی اہمیت کا اعادہ کیا۔وزیر اعظم مودی نے اپنے خطاب کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ہماری توجہ وبا سے متاثر عام شہریوں اور معیشت کو بچانے پر مرکوز ہے اورساتھ ہی ہم بدلتے ماحولیاتی حالات کی سمت ہر ایک کی توجہ مبذول کروانا چاہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے یکطرفہ طور پر نہیں بلکہ ایک مربوط جامع اور منجملہ طریقہ سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ خود مکتفی ہندوستان کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ انھوںنے خواتین کی خوداختیاری کے بارے میں بھی بتایا کہ کس طرح یہ ملکی ہمہ جہت ترقی کا ایک ستون بن سکتا ہے۔
امریکہ کا ردِ عمل:
چوں کہ چوٹی کانفرنس کے موقع پر امریکہ میں صدارتی انتخابات چل رہے تھے۔ ایم ایس بی سعودی عرب کے قریبی ساتھی امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو کسی اہم رول میں شامل کرنے میں ناکام رہے۔ ٹرمپ زوم ایپ کے ذریعہ مختصر وقت کے لیے کانفرنس میں حاضر ہوئے اور وبا سے نمٹنے کے لیے اپنے انتظامیہ کی کوششوں پر روشنی ڈالنے کے بعد گولف کھیلنے کے لیے روانہ ہوئے۔ منتخب صدر جوبائیڈن نے سعودی عرب کو 2019ء میں ایک اچھوت ریاست قرار دیا تھا اور اکتوبر میں کہا تھا کہ ان کا انتظامیہ مملکت کے ساتھ اپنے تعلقات کا از سر نو جائزہ لے گا۔ یمن میں سعودی عرب کی جنگ کے لیے اپنی تائید ختم کرے گا اور اس بات کو یقینی بنائے گا کہ امریکہ اپنے اقدار کو ، ہتھیار فروخت کرنے یا تیل خریدنے کی بنیاد پر فروغ نہیں دے گا۔ تاہم سعودیوں کو امیدہے کہ یہ صرف انتخابات کی باتیں تھیں۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ پرنس فیصل بن فرحان السعود نے رائٹر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ بائیڈن انتظامیہ علاقائی استحکام کے مفاد میں اختیار کی گئی پالیسیوں کو برقرار رکھے گا۔ امید کی جاسکتی ہے کہ وزیر خارجہ کااندازہ درست ثابت ہوگا، لیکن اس بات کا بھی امکان کم ہے کہ جن اصلاحات اور تبدیلیوں کو سعودی عرب اختیار کررہا ہے اسے بائیڈن کی قیادت میں وہائٹ ہاؤس مثبت طور پر نہ لے۔
مستقبل کے لیے مشترکہ اقدامات:
وبا سے مشترکہ طور پر نمٹنے کے سوال پر جی۔20 نے درست اشارہ دیا ہے کہ کوویڈ۔19سے متعلق صحت، معیشت اور سماجی حالات جو اس وقت ترقی پذیر ممالک کو درپیش ہیں آئندہ مستقبل میں مالیاتی و انسانی قیمت پر غیر معمولی چیلنج بن سکتے ہیں۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے کہا کہ اس سال جی۔20کانفرنس میں جو فیصلے لیے گئے ہیں وہ کوویڈ۔19 وبا کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے عالمی کوششوں اور اس بلاک سے دنیا کی توقعات کو پورا کرنے میں فیصلہ کن موقف کو ثابت کریں گے۔
معاشی ترقی میں استحکام:
اپنی تقریر میں روس کے صدر ولادیمیر پوٹین نے عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) میں جدید چیلنجز کے مطابق اصلاحات کے لیے مشترکہ کوششوں کا مشورہ دیا۔ اپنے ریمارکس میں جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے بھی اس بات پر زور دیا کہ وبا نے حکومتوں کو معیشت کے تعلق سے مزید محتاط بنادیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ وبا سے ہمیں سبق سیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ معیشت کو مزید مستحکم بنایا جاسکے۔معیشت کی بحالی ڈبلیو ٹی او میں اصلاحات، ڈیجیٹل معیشت کو ٹیکس کے تحت لانا اور کم آمدنی والے ممالک کی مدد کے لیے راستے تلاش کرنے جیسے مسائل بھی چوٹی کانفرنس میں زیر بحث آئے۔
دنیا بھر میں کئی ممالک معاشی بحران سے دوچار ہیں۔ زائد از 48ممالک نے قرض خدمات کی معطلی اقدامات (ڈی ایس ایس آئی) کے تحت قرض سے راحت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ صرف اس ایک سال کے لیے قرض کا یہ بحران 5.7 ارب ڈالر کے مساوی ہے۔
جی-20 قائدین نے قرض خدمات کی معطلی کے اقدامات (ڈی ایس ایس آئی) پر عمل کرنے کا عہد کیا جس میں جون 2021کے ذریعہ اس کی توسیع شامل ہے۔ انھوں نے ڈبلیو ٹی او کے اصلاحات کے لیے اپنی تائید کا اعلان کیا جس پر بارہویں ڈبلیو ٹی او وزارتی کانفرنس میں تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ گروپ نے 2021کے وسط تک عالمی طور پر ایک منصفانہ، مستحکم اور جدید بین الاقوامی ٹیکس نظام کے لیے اتفاق رائے پر مبنی حل تلاش کرنے کی کوششوں سے اتفاق کیا۔
ایک خیر مقدمی اقدام کے تحت تمام 20مملکتوں کے فینانس کے عہدیدار آئندہ سال میں بھی عالمی معاشی صورتحال پر نظر رکھیں گے۔ اور اس بات کا بھی عہد کیا گیا کہ ڈی ایس ایس آئی کے تحت قرض کو منجمد کرنے کے معیار پر غور کو مزید وسعت دی جائے۔ چنانچہ جی -20نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ معاشی بحالی کے پہلوؤں کو اپنے علاقوں تک اور خود تک محدود رکھنے کے بجائے بین الاقوامی سطح پر لایا جائے۔ اس سے عالمی معیشت کی بحالی میں اس کے عہد کی عکاسی ہوتی ہے۔
جی-20نے صحت کے میدان میں بہتری لانے کے لیے نئے قائم کردہ عالمی اختراعی مرکز کا جائزہ لیا جو کہ صحیح سمت میں ایک مثبت قدم ہے۔ یہ مرکز معلومات کے تبادلہ کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پر کام کرے گا۔ یہ مرکز باخبر ماہرین کے ذریعہ طے کرے گا کہ کس ملک کو صحت کی کن پالیسیوں کے لیے فنڈس مہیا کرائے جائیں۔اور کیا یہ اقدامات ملک کی حقیقی ضرورت کی عکاسی کررہے ہیں اور اس میں کس طرح مالیاتی جوکھم کو کم سے کم کیا جاسکتا ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف کارروائی:
ماحولیاتی اقدامات کے تئیں جی۔20نے اس ارادے کا اظہار کیا کہ ماحولیاتی معاہدات پر پیش رفت کے لیے بیرو نی اقدامات بھی ضروری ہیں۔ ماحولیاتی مسئلہ پر بات کرتے ہوئے انجیلا میرکل نے کہا کہ تمام مملکتیں سوائے امریکہ کے پیرس ماحولیاتی معاہدہ کے نشانوں پر عمل کرنے کا عہد کرچکی ہیں۔جی-20اتحاد نے اپنی ترجیحات کی واضح طور پر نشاندہی کردی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کوویڈ۔19کے بعد کی صورتحال میں ایک مضبوط، مستحکم، متوازن اور غیر مختتم معیشت کو تیز رفتار بنانے کے لیے اس عہد کو کس طرح با اثراور مثبت اقدامات میں تبدیل کیا جائے گا۔
(کالم نگاردہلی میں مقیم ہیں، اس سے پہلے وہ بی بی سی اردو اور خلیج ٹائمز ،دبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں)
ای میل۔[email protected]