رخسانہ رخشی
کہا تو جارہا ہے کہ عالمی سطح پر نشے کے مسائل پر تشویش پائی جارہی ہے اور اس کے سدباب کے لیے ممکنہ کوششیں جاری ہیں، اب جبکہ دنیا بھر کے معاشروں میں یہ زہر پوری طرح سرایت کرچکا ہے تو اب اپنی تمام تر کوششوں سے دنیا کی باقی ماندہ نسل کو بچایا جاسکتا ہے۔ اگرچہ بہت دیر ہوچکی ہے، اس کا سدباب بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا، مگر کیا، کیا جائے کہ جب تک ہم خود کو پوری طرح تباہ نہیں کرلیتے یا تباہی کے دہانے پر نہیں پہنچ جاتے تب تک ہم بیدار نہیں ہوتے۔اب یہ بات بالکل بے سروپا ہے کہ بچہ گھریلو حالات یا والدین کی عدم بے توجہی کا شکار ہوکر نشے کی علت میں پڑ گیا، مگر پہلے ایسی مثالیں ملتی تھیں، اب نہیں۔ اب تو کہا جاتا ہے کہ طالب علمی میں بچہ خراب ہوگیا، دوستوں کے پریشر میں آکر نشے کی لت لگ گئی اور یہ ہی حقیقت ہے کہ دوستوں کے ساتھ اکثر بچے شوق فرمانے لگتے ہیں، پھر اسی شوق کے ہاتھوں یہ زہر علت بنالیتے ہیں۔ آج نشے جیسے معاملے نے تمام والدین کو فکر میں مبتلا کردیا ہے۔ خاص طور پر وہ نشہ جس میں نوجوانوں کی موت بھی ہورہی ہے اور وہ دوسروں کی جان بھی لے رہے ہیں۔ وہ نشہ آئس کا نشہ ہے۔ آئس کے نشی لوگ دیکھنے میں تو نارمل دکھائی دیتے ہیں مگر جب وہ آئس کے نشے میں ہوں تو وہم کا شکار رہتے ہیں کہ جیسے انہیں کوئی خاص مخلوق قتل کردے گی اور اسی وہم میں وہ اپنے سامنے والے کی جان لے لیتے ہیں۔ کئی کیس آپ کے سامنے ہیں۔ جہاںگہرے نشے کی حالت میں معصوم جانوں کو بربریت سے قتل کیا۔ ایک بیٹے نے اپنے باپ تک کو قتل کردیا، بیویوں کو قتل کرنا شک کی بنا پر تو عام نشی کی عادت بن چکا ہے۔ دوستوں اور رشتے داروں کو پیسے کے لالچ میں قتل کرنا بھی عام سی بات ہوگئی ہے۔حالیہ دنوں میں جب کئی نوجوان نشہ آور اشیا کے استعمال سے خود بھی جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں اور دوسروں کی بھی جان لے رہے ہیں تو یہ ہی وقت ہے کہ شدت اور نہایت سنجیدگی سے اس کے سدباب کے لیے عالمی سطح پر کوششیں کی جائیں۔ دنیا جس قدر بحران کا شکار ہورہی ہے اور غرباء و پسماندہ لوگ اس کی لپٹ میں ہیں تو وہاں بھی کھانے کو بے شک کچھ نہیں مگر غرباء کی بستیوں میں نشہ عام ہے مرد و خواتین تک اس کا شکار ہیں۔ کافی ممالک اس پریشانی کا سامنا کررہے ہیں۔ متعدد ممالک میں تو منشیات کا استعمال اور غیر قانونی اسمگلنگ عام ہوچکی ہے۔ منشیات اور سگریٹ ایسے نشے ہیں کہ اس کے استعمال کے ساتھ ہی دوسرے نشوں آئس وغیرہ تک آسانی سے جایا جاسکتا ہے۔ نوجوان ہوں یا دوسرے مرد و خواتین اس کا روگ پال لیں تو ان کی رگوں میں گھلتا زہر انہیں پھر دوسرے جرائم کرنے پر اُکساتا ہے، اسی لیے جرائم کا گراف بڑھتا ہی جارہا ہے۔ بات صرف آئس کے نشے سے ہونے والی اموات کی نہیں دیگر منشیات جو بھی انسانی شعور کو اور صلاحیتوں کو بری طرح متاثر کرن سے پیدا شدہ صورت حال کی ہے۔ سڑک حادثات، قتل و غارت، خاندانوں کا سکون تباہ ہونے سے لے کر ان کا خوف میں مبتلا رہنا بھی ہے۔عالمی سطح پر منشیات کی لعنت اور غیر قانونی اسمگلنگ کے خلاف26جون کو عالمی دن منایا جاتا ہے۔ یہ دن اس لعنت سے چھٹکارا پانے اور اس کی روک تھاک کے لیے وقف ہے۔ 7دسمبر1987ء کو قرارداد کو اپناتے ہوئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے26جون کو منشیات کے ناجائز استعمال اور غیر قانونی خریدو فروخت کے دن کو عالمی دن بنانے کا فیصلہ کیا تاکہ لوگوں کو آگہی اور شعور حاصل ہوسکے اور منشیات سے فری معاشرہ تشکیل دیا جاسکے۔ 2020ء کے مطابق ورلڈ ڈرگ رپورٹ میں بتایا گیا کہ عالمی سطح پر269ملین ایک اندازے کے مطابق35ملین افراد منشیات کے استعمال کی لت کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ کی متعدد شاخیں جیسے اینٹی ڈرگ ابیوز برانچ، اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم کے ذریعے آگاہی پھیلانے کے لیے کام کرتی ہیں۔ اس کےسے علاوہ یہ مشورہ دیتا ہے کہ منشیات یا منشیات کے کاروبار کو فروغ دینے سے گریز کریں۔ تازہ ترین عالمی تخمینوں کے مطابق15سے64سال کی عمر کے تقریباً5.5فیصد لوگوں نے کم از کم ایک بار نشہ آور چیزوں کا استعمال کیا ہے۔ گلوبل برڈن آف ڈیزیز 2017کے ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر قانونی منشیات اس سال دنیا بھر میں تقریباً7.5لاکھ افراد کی جان لی۔منشیات کی اسمگلنگ اور کاروبار سے متعلق رپورٹ کہتی ہے کہ ایشیائی ممالک پاکستان، بھارت، افغانستان، ایران، تھائی لینڈ، میانمار اور بھوٹان کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں۔ ان ممالک میں منشیات کا کاروبار خوب پھیل رہا ہے۔ ایران، نیپال، افغانستان جیسے بہت سے ممالک میں منشیات تیار ہوتی ہے۔ تمام ریاستوں کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں جہاں منشیات کے کاروباری سرگرم ہیں۔ جن کی کمائی عروج پر ہے۔ہم نے شروع میں بتایا تھا کہ بچوں کو یہ لت کسی برے حالات کی وجہ سے نہیں لگ رہی، بلکہ بچوں میں یہ عادت غلط لوگوں میں اٹھنے بیٹھنے کی وجہ سے بڑھ رہی ہے، وہ اپنے دوستوں، ساتھیوں کو نشہ کرتے دیکھتے ہیں تو انجواتے کرتے کرتے یہ عادت علت بن جاتی ہے، ذائقہ وقتی سرور دیتا ہے، پھر تباہ کردیتا ہے۔ دعا ہے کہ عالمی سطح پر اس کا سدباب ہو تو ہی معاشرہ پاک ہوگا۔