جموںوکشمیر میں مختلف محکموں میں تعینات عارضی ملازمین پھر ہڑتال پر ہیں جس کی وجہ سے بیشتر محکموں کا کام کاج متاثر ہوچکا ہے ۔ یہ کوئی پہلا موقعہ نہیں ہے جب یہ عارضی ملازمین ہڑتال پر چلے گئے ہیں بلکہ اب تک یہ ملازمین کئی دفعہ اپنے مطالبات منوانے کیلئے احتجاج کا راستہ اختیار کرچکے ہیںاور ہر بار سرکار کی یقین دہانیوں پر ہڑتال ختم کرکے کام پر لوٹ آئے تاہم مسائل جوں کے توں ہیں اور یقین دہانیاں زبانی جمع خرچ سے آگے نہ بڑھ سکیں۔
اس بات سے قطعی انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ حکومت کے مسائل ہیں اور مالی پوزیشن پتلی ہے ۔یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ جموںوکشمیر کے بجٹ کا بیشتر حصہ ملازمین کی تنخواہوں پر صرف ہوتا ہے جس کی وجہ سے ترقیاتی عمل بھی متاثر ہوتا ہے تاہم اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ یہ عارضی ملازمین ہی اصل میں ان اہم محکموں کو چلارہے ہیں ۔آج سرکار کو ان ملازمین کی مستقلی بار ِ گراں لگتی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ یہی ملازمین سرکاری کام کاج چلا رہے ہیں۔ماضی کی بیشتر حکومتوں نے اپنے دور میں ان کو بھرتی کیا ۔اس عمل میں کسی حکومت کو استثنیٰ حاصل نہیںہے ۔نیشنل کانفرنس سے لیکر پی ڈی پی اور کانگریس سے لیکر بی جے پی تک سبھی نے اپنے دور اقتدار میں ووٹ بنک سیاست کے لئے لوگوں کو سبز باغ دکھانے کی خاطر سرکاری محکموںمیں کیجول لیبروں کی حیثیت سے بھرتی کرنے کا عمل جاری رکھا اور اُس دوران یہ نہیں دیکھا گیا کہ اگر آج ہم ان ملازمین کی بھرتی عمل میں لارہے ہیں تو ان کی تنخواہوں کا انتظام کہاں سے ہوگا اور ان کی مستقلی کا کیا میکا نزم رہے گا۔بنا کسی ٹھوس پالیسی کے بے ہنگم بھرتیوں کا سلسلہ جاری رہا اور اب یہ تعداد60ہزار کو پار کرچکی ہے ۔آج جب سرکار ساٹھ ہزار عارضی ملازمین کی مستقلی کے بارے میں سوچتی ہے تو ان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کیونکہ مستقلی کے عمل سے خزانہ عامرہ پر جو بوجھ پڑ سکتا ہے ،شاید ہی خزانہ اُتنا بوجھ سہنے کی سکت رکھتا ہے تاہم اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ان نادار ملازمین کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔
ان ساٹھ ہزار سے زائد کیجول لیبروں میں ہزاروں کی تعداد عمر کی بالائی حد پار کرچکی ہے اور اب کچھ کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں۔اتنا ہی نہیں ،ان ملازمین کی تنخواہیں برسہا برس سے ہی واجب الادا ہیں اور انہیں سال میں کبھی عیدوں تو کبھی دیگر تہواروں کے مواقع پر ایک آدھ مہینہ کی تنخواہ دیکر خوش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ان ملازمین کے اب بال بچے ہیں جو سکولوں میں زیر تعلیم ہیں اور اب سرکار کی سرد مہری کی سزا یہ اکیلے ہی نہیں بھگت رہے ہیں بلکہ ان کے بیوی بچے بھی متاثر ہورہے ہیں۔مانا کہ ان کی تقرری کا طریقہ درست نہیں تھا اور انہیں ایک بے ترتیب انداز میں سرکاری محکموں میں کھپانے کی کوشش کی گئی لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اپنی عمر عزیز کے 10سے20سال سرکار کو دینے کے بعد انہیں فارغ کیاجائے یا ان کے مسائل کے تئیں یوں چشم پوشی کا سلسلہ جاری رکھاجائے ۔سرکار عوامی فلاح وبہبود کی ذمہ دار ہوتی ہے ۔یہ بھی اسی سماج کا حصہ ہیں اور انہوں نے اپنی زندگی کے قیمتی سال سرکار کو دئے ہیں ،لہٰذا ان کے تئیں سرکار کی ذمہ داری بھی دوچند ہوجاتی ہے کہ وہ ان کی بہبود کا بھی خیال رکھے ۔
اگر سرکار آج اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ یکمشت ان ساٹھ ہزار ملازمین کی مستقلی عمل میں لائے لیکن اتنا تو ہوسکتا ہے کہ ایک ہی دفعہ ان ملازمین کی مستقلی کیلئے کوئی جامع اور ٹھوس پالیسی مرتب کی جائے تاکہ مرحلہ وار بنیادوں پر انہیں مستقل کیاجاسکے ۔اس کے نتیجہ میں نہ صرف آئے روز کے دھرنوں سے سرکار کو نجات ملے گی بلکہ ان غریب ملازمین کو بھی بار بار سڑکوں پر آکر اپنا تماشانہیںبنانا پڑے گا۔آج جبکہ ان ملازمین کے مسائل زیر بحث ہیں ،تو حکومت کو اب بالآخر ان کے معاملات کے تئیں مزید حساس ہونا پڑے گا اور یہ بھول جانا پڑے گا کہ یہ کس کے دور میں کس طرح کے لگے ہیں بلکہ یہ جا ن کر چلنا ہوگا کہ اب سرکاری مشینری کے کل پرزے ہیں اور کسی بھی طرح ان کا مستقبل محفوظ بنانا ہے۔ایک دفعہ اگر سرکار میں ایسی سوچ پیدا ہوجاتی ہے تو ان کے مسائل حل ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی کیونکہ پھر پالیسی بھی بنے گی اور اُس پر عملدرآمد بھی شروع ہوگا اور یوں اس رستے ناسور کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ بھی ممکن ہوپائے گا ورنہ یہ درد سر ،درد جگر بھی بن سکتا ہے جس کی شاید ہی سرکار متحمل ہوسکتی ہے۔