محمد سعدان
ہندوستان کے سابق صدر اور میزائل مین (Missile Man) کے نام سے معروف و مشہور اے ، پی ، جے عبدالکلام نے ناکامی (Failure) کی تعریف کچھ اس انداز میں کی ہے ۔” First Attempt in Learning” (سیکھنے کی پہلی کوشش)
اگر آپ بظاہر کسی میدان میں ناکامی سے دو چار ہورہے ہیں تو یقین جانیں کہ آپ کامیابی کی جانب بڑی تیزی سے جارہے ہیں ، صحیح لفظوں میں کہیں تو منزل آپ کی منتظر ہے ۔ کیونکہ جب ہم تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو جتنی بڑی بڑی شخصیات ہمیں تاریخ کی کتابوں میں زندہ و تابندہ نظر آتی ہیں ان میں سے اکثر کو پہلے پہل ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور بعض کو تو پاگل ، دیوانہ اور مجنون سمجھا گیا مگر بعد میں دنیا نے ان کی قابلیت و صلاحیت کا اعتراف کیا۔اس کامیابی کے حصول کی اولین شرط یہ ہے کہ ہمیں استقامت ، خود اعتمادی اور محنت (Patience, Confidence and Hard work) سے کام لیں۔ کیونکہ خود اعتمادی ، استقامت ، محنت اور جد و جہد اتنی عظیم دولت ہے جو ناممکن کو بھی ممکن بنا سکتی ہے ۔بقول ایک شاعر ؎
حوصلوں کو اپنے تول کر دیکھ
پروں کو اپنے کھول کر دیکھ
آسماں بھی آجائے گا مٹھی میں
آجا مٹھی میں ! بول کر دیکھ
موجودہ صورتحال میں طلبہ کے لئے خاص طور سے ان طلبہ کے لئے جو اپنے ماں ، باپ ، بھائی ، بہن ، خویش و اقارب اور دوست و احباب سے دور ہیں تاکہ اپنے خواب کی تکمیل کرسکیں ، ان کے سامنے کئی طرح کے مسائل ہوتے ہیں ، جیسے کم وقت میں اچھی نوکری (Job) پیسے کا خود ہی بندو بست کرنا اور اگر خدانخواستہ کسی امتحان میں ناکامی سے دوچار ہوگئے تو ناکامی کے بعد پورے خاندان کا سامنا کرنا اور ان کی بے تکی باتوں کو سہنا وغیرہ وغیرہ ۔
یہ چند ایسے اہم ترین مسائل ہیں جن سے موجودہ دور میں 90 فیصدی طلبہ سامنا کررہے ہیں اور دوسری طرف اس وقت وطن عزیز میں نوکری (Job) کی جو صورتحال ہے، وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے ۔طلبہ کا طالبانہ زندگی میں جو سب سے بڑا مسئلہ ہوتاہے وہ ان کے معاش کا ہوتا ہے ، یہ اتنا نازک اور حساس مسئلہ ہے کہ شاید قلم میں وہ طاقت نہیں جو اس حساسیت کو بیان کرسکے ، اسے بس طلبہ ہی محسوس کرسکتے ہیں یا وہ حضرات جو اس مسئلہ سے کبھی دوچار ہوئے ہیں ، یہ بالکل اسی طرح کا مسئلہ ہے کہ بچہ کھونے کا درد وہی ماں محسوس کرسکتی ہے جس نے اپنے لخت جگر کو کھویا ہو ۔
اسی طرح طلبہ کی ایک پریشانی (Stress) کی وجہ یہ بھی ہوتی ہے، جب وہ داخلہ امتحان (Entrance Exam)یا کسی بھی امتحان (Common Exam) میں ناکام ہوتے ہیں تو اس کے بعد خاندان اور سماج سے جو ان پر دباؤ ہوتاہے اور جس طرح کے وہ تیکھی گھونٹ پی کر چہرے پر ایک مسکراہٹ پھیلاتے ہیں ،وہ بس وہی سمجھتاہے جو اس صورت حال سے دوچار ہورہا ہوتا ہے ۔
مذکورہ بالا چیزوں کو ذہن میں رکھ کر ان طلبہ کے بارے میں سوچیں جو ان ہی سب وجوہات کی بنیاد پر خود کشی (Suicide) جیسے خطرناک اقدام کرنے پر مجبور ہورہے ہیں ۔
ایک رپورٹ کے مطابق سینکڑوں کی تعداد میں طلبہ ہرسال خودکشی (Suicide) کررہے ہیں ۔ایسے میں والدین ، رشتہ داروں اور دوست و احباب کو چاہیے کہ اپنے بچوں اور دوستوں کی ناکامی کے وقت بھی ان کے ساتھ ایسے ہی کھڑے رہیں جیسے کامیابی کے وقت ہوتے ہیں ، ان کی حوصلہ افزائی کریں ۔اور بتائیں کہ ؎
گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں
وہ طفل کیا گرے جو گھٹنوں کے بل چلے
ان کو ہر طرح سے سپورٹ کریں ، یقین مانیں کل یہی طالب علم ایک نئی امنگ اور نئے جوش کے ساتھ اُڑان بھرے گا اور اقبال کہ اس شعر کا مصداق ہوگا ۔؎
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
(طالب علم، جامعہ ملیہ اسلامیہ۔نئی دہلی)
رابطہ۔9472783918
[email protected]