طبی شعبہ میں معمولات کی بحالی خوش آئند

 یہ امر باعث اطمینان ہے کہ کورونا وائرس کی تیسری لہر پھیلنے کے بعد گزشتہ دو ماہ سے محکمہ طبی تعلیم اور نظامت صحت کشمیر و جموں کے تحت آنے والے ہسپتالوں میں بند پڑی او پی ڈی اور جراحیوں کا عمل دوبارہ شروع کیاگیاہے۔ہم نے انہی سطور میں کئی دفعہ اس سنگین مسئلہ کی جانب سے حکام کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی تھی ۔اب اگر حکام نے عوامی مشکلات کو دھیان میں رکھتے ہوئے ہسپتالوں میں اوپی ڈی خدمات کے بعد آپریشن تھیٹر خدمات بحال کرنے کا فیصلہ لیا ہے تو اس کا یقینی طور پر خیر مقدم کیاجانا چاہئے کیونکہ یہ براہ راست انسانی زندگیوںکے ساتھ جڑا ہوا معاملہ ہے ۔ہم نے جموں اور سرینگر کے میڈیکل کالجوں سے منسلک بڑے ہسپتالوں میں اور اضلاع میں قائم میڈیکل کالجوںسے جڑے ہسپتالوں اور دونوں صوبوں کے نظامت صحت کے تحت آنے والے ضلعی و سب ضلعی ہسپتالوں ،کمیونٹی ہیلتھ سینٹروںاور پرائمری ہیلتھ مراکز میں جراحیوں کا عمل بند کرنے کے نتیجہ میں حفظان صحت پر پڑنے والے مضر اثرات پر تفصیل سے بات کی تھی اور مثالیں دیکر یہ واضح کیا تھا کہ کورونا کے خلاف لڑتے لڑتے ہم عام مریضوںکو مرنے کیلئے چھوڑ رہے ہیں کیونکہ انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔
اس بات سے قطعی انکار کی گنجائش نہیںکہ جموں اور سرینگر کے دارالحکومتی شہروں میں قائم میڈیکل کالجوں سے منسلک ہسپتالوں پر دونوں صوبوں کے مریضوںکا بوجھ ہوتا ہے اور مختلف امراض کے ماہر معالجین سے طبی جانچ کرانے کیلئے لوگ ا ن ہسپتالوںکا رخ کرتے ہیں لیکن جب سے کورونا آیا،پہلا کام یہ کیاگیاتھا کہ ان ہسپتالوںمیںپہلے اوپی ڈی خدمات اور معمول کی جراحیاںبندکردی گئی تھیں ۔اس کے بعد واحد امید انکے نجی کلینک رہے تھے لیکن بعد ازاں انہیں بھی بند کرکے ایک عجیب قسم کی صورتحال پیدا کی گئی جہاں مریضوںکو ماہر معالجین ہی دستیاب نہیں تھے ۔گوکہ بڑے زور و شور کے ساتھ حکومتی سطح پر اور دونوں صوبوں میں قائم ڈاکٹروں کی مختلف انجمنوںنے ماہر ڈاکٹروںکے نمبرات مشتہر کرکے لوگوں کو ہسپتالوں سے دور رہنے کا مشورہ دیکر امید دلائی کہ یہ ڈاکٹر صاحبان فون پر ان کیلئے ہمہ وقت دستیاب رہیں گے لیکن سب کو پتہ ہے کہ پھر ان میںسے بیشتر ڈاکٹر صاحبان نے فون اٹھانے کی زحمت گوارا نہیں کی اور اگر فون اٹھے بھی تو کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملے ۔ملتے بھی کیسے ،یہ کوئی سودا تھا جو فون پر کیاجاسکتا تھا۔ڈاکٹر جب تک مریض کی حالت خود نہ دیکھے ،وہ کیسے فون پر اس کا علاج کرسکتا ہے ۔تاہم یہ امر کسی حد تک اطمینان بخش ہے کہ بعد میں سبھی ہسپتالوںمیں اوپی ڈی خدمات بحال کی گئی تھیں جبکہ جراحیوں کا عمل بھی شروع کیاجاچکا ہے ۔
بہر کیف ہمارا مقصد قطعی تنقید کرنا نہیںہے ۔ہم نے تب بھی وسیع تر عوامی مفاد میں یہ مسئلہ اجاگر کیاتھااور اب اگر حکومت کو عوامی مشکلات کا بالآخر احساس ہوگیا اور انہوںنے اوپی ڈی اورجراحیوں کا عمل شروع کرنے کا فیصلہ لیا تو ہم صدق دل سے اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔بے شک ایمر جنسی جراحیاں چل رہی ہیں لیکن معمول کی جراحیاں بھی کافی اہم ہیں اور ہم مریضوں کو مہینوںتک جراحیوں کے لئے انتظار کروانے کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں کیونکہ اس دوران ان میں مزید طبی پیچیدگیاں پیدا ہونے کا احتمال ہے بلکہ ان کے نتیجہ میں اموات کوبھی خارج ازامکان قرار نہیںدیاجاسکتا ہے ۔
مریضوںکی تعداد محدودرکھنا بھی صحیح ہے کیونکہ ہم فی الوقت بھیڑ بھاڑ کے متحمل نہیںہوسکتے ہیں ۔یہ تقاضا بھی صحیح ہے کہ معمول کی جراحیوں کے منتظر مریضوں کی پہلے کووڈ جانچ کی جائے تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ مریض کووڈ سے پاک ہو اور اُس کی وجہ سے آپریشن تھیٹر کے عملہ کو کووڈ کا خطرہ نہ رہے ۔حکام کی شرط بھی معقول لگ رہی ہے کہ آپریشن کے عمل سے گزر نے والے مریضوں کے ساتھ تیمارداروں کی تعداد محدود رکھی جائے کیونکہ ایسا کرنا ناگزیر ہے ۔جبھی ہم بھیڑ بھاڑ سے بچ سکتے ہیں اور نتیجہ کے طور پر جہاں اب مہینوں سے جراحیوں کے منتظر مریضوں کو نجی ہسپتالوں کی لوٹ کھوٹ سے چھٹکارا مل پائے گا وہیں انفیکشن پھیلنے کے امکانات کو بھی کم سے کم کیاجاسکتا ہے۔امید کی جاسکتی ہے کہ فوری طور پر طبی سہولیات کی مکمل بحالی کا انتظام کیاجائے گا تاکہ ہر مریض کو کم ازکم وہ طبی توجہ مل سکے جس کا وہ مستحق ہے۔