طاعون میں خیر کے پہلو سے آشنائی

کورونا کی مہاماری سے پوری دنیا پریشانی کے عالم میں گرفتار ہو چکی ہے۔ لیکن یہاں بھی دین اسلام کی نمایاں راہنمائی خوب نظر آرہی ہے۔ اسلام کے سامنے آج تک کوئی بھی چیلنج زیادہ دیر تک ٹک نہ سکا۔ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو نہ ماضی میں نامراد ہو کر بے سہارا چھوڑا اور نہ مستقبل میں ایسا ہوگا۔ یہ چیلنج دراصل مسلمان کے سامنے ہے کہ وہ دنیا کے دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی رہنمائی قرآن کریم و احادیث مبارکہ سے کیسے کریں۔ 
لاک ڈاؤن کے دوران جہاں مسلمانوں میں مطالعہ کرنے کا رجحان کافی حد تک بڑھ چکا ہے۔ وہاں غیر مسلم ممالک میں بھی اسلام کا کافی بول بالا ہوگیا۔ ہر طرف سے اسلام کے علاوہ کردہ ہدایات کو اجاگر کیا گیا۔ تمام ممالک نے اللہ کے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے طاعون کے بارے میں ارشاد مبارک کے مطابق اپنی سرحدیں بند کیں۔ جس سے نہ وہاں سے کسی کو جانے دیا اور نہ آنے دیا۔ وہ الگ بات ہے کہ انہوں نے پھر اس پہ کتنا عمل کیا۔
مزید مسلمانوں میں قرآن کریم و ذخیرہ احادیث مبارکہ سے بھی شگفتگی پیدا ہوئی ہے۔ اکثر و بیشتر لوگ ایسی مہلک وبا سے غیر محروم تھے اور اس سے نئی بیماری سمجھ کر اسلام میں اس کی رہ نمائی سے نا آشنا تھے۔ اس وقت وبا کی صورتحال کے تناظر میں ترقی پذیر کی دنیا جن تدابیروں کو اختیار کرنے کی ہدایات دے رہی ہے ،وہ دراصل آج سے چودہ سو سال پہلے اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے صادر فرمائے گئے ہیں۔
سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر ۹۵ میں لفظ 'رجز' اسی طرح کی متنفر بیماری کے لئے استعمال ہوا ہے۔ جس سے اس وقت بنی اسرائیل قوم کے تقریباً اسی ہزار افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے تعدیہ کو تسلیم کیا ہے اور متعدی مرض میں مبتلا شخص سے دور رہنے کی تلقین کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے : "جذامی سے ایسے بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو۔" وبا کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کی خصوصی ہدایت ہے " اگر کسی جگہ طاعون پھیلا ہوا ہو توکوئی شخص وہاں سے باہر نہ نکلے اور دوسرے مقامات سے کوئی شخص وہاں نہ جائے۔" 
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں شام میں طاعون کی وبا پھیلی تو اس کا کامیابی کے ساتھ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے حکیمانہ انداز میں توڑ کیا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسلم فوج کو پہاڑی علاقوں میں منتشر کر کے سوشل ڈیسٹینسنگ (Social distancing) اور دور دور (Isolation) رہنے کا تصور دے دیا، جس سے چند روز میں اس کا زور ٹوٹ گیا۔ اس کے علاوہ وبائی امراض سے تحفّظ کے لیے آج کل اطبا جس قرنطینہ (Quarantine) پر عمل کررہے ہیں اس کا واضح تصور مشہور مسلم طبیب شیخ الرئیس ابن سینا کے یہاں ملتا ہے۔ انہوں نے مریض کو چالیس روز الگ تھلگ رکھنے کا نظریہ پیش کیا۔ اسی کو قرنطینہ یا کورنٹائن کا نام دے دیا گیا ہے۔
ہم نے کورونا کی صورت میں انسانی ترقی، موجودہ ٹیکنالوجی، طبعی سائنس بے بس ہوتے ہوئے دیکھا۔ قدرت الٰہی نے بہت ہی حقیر چھوٹا سا غیر مرئی جرثومہ پیدا فرمایا، کہ انسانیت لاچار، بے یارو مددگار، بے بسی کے عالم میں عاجز و مجبور نظر آرہی ہے۔ ملحدوں (Atheists) تک نے بھی ایک اللہ کے ہونے کا کھل کر اعتراف کیا ہے۔وضو جیسی مفت جراثیم کش دوائی پر اور زیادہ زور دیا جا رہا ہے۔ اب مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم اقوام نے بھی اس سے تسلیم کیا ہے۔ حلال کھانے کو ہی پاک و صاف کا تصور آچکا ہے۔ ان کے طبی فائدے اجاگر کئے جا رہے ہے۔ پردے کا خوب اہتمام ہو رہا ہے۔ جن علاقوں میں پردے پہ پابندی لگائی گئی تھی وہ بھی اب اس پابندی کو ہٹانے پر مجبور ہو گئے ہے۔
 دنیا کے تمام سینما گھر، تھیٹر، بار، فوڈکورٹ، ریستوران، نائٹ کلب اور جم کے مراکز اجڑ چکے ہیں۔ بازار، سماجی محفلیں، شاپنگ مال، موسیقی کے کلب، اسپورٹس کلب، سیر و تفریح کے باغ، صحت افزا مقامات سبھی سنسان و ویران پڑے ہیں۔فحاشی، عریانیت، بدچلن اور آوارگی میں کافی حد تک کمی محسوس ہوئی ہیں۔ رقص خانے، فیشن شوز، آلات و موسیقی کے اڈے ویران پڑنے سے بے داغ زندگی دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ ایک دوسرے سے جسمانی دوری بنائے رکھنے سے غیر قانونی جنسی خواہشات پر کافی حد تک قابو پایا گیا ہیں۔شراب کی خریداری بند ہونے سے شراب نوشی میں کافی حد تک کمی محسوس ہوگئی ہے۔لاک ڈاؤن کی وجہ سے بڑے بڑے صنعتی ادارے بند پڑے ہیں۔ فضائی آلودگی میں نمایاں کمی نظر آرہی ہے۔ کارخانہ جات و گاڑیوں کی آمد رفت بند ہونے سے صوتی آلودگی (Noise pollution) میں بھی واضع کمی آئی ہے۔ 
الغرض کورونا جیسے مہلک وبا نے عالم گیر تبدیلیاں پیدا کر کے عالم انسانیت پر منفی اثرات کے ساتھ ساتھ مثبت اثرات بھی ضرور مرتب کئے ہیں۔ اللہ کرے کہ یہ ہمارے لیے خیر کا باعث بن جائے اور ہمیں اس مہلک وبا سے نجات فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
رابطہ :ہاری پاری گام ترال، 9858109109
�����������