رمضان کا روزہ فرض قرار دیا گیا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ اور امت مسلمہ کے اجماع سے یہ ثابت ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے: (ترجمہ) اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیاہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے۔ تاکہ تم تقوی اختیار کرو۔گنتی کے چند ہی دن ہیں۔لیکن تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میںہو تو وہ اور دنوں میں گنتی کو پورا کرلے اور اس کی طاقت رکھنے والے، فدیہ میں ایک مسکین کو کھانا دیں، پھر جو شخص نیکی میں سبقت کرے وہ اسی کے لیے بہتر ہے لیکن تمہارے حق میں بہتر کام روزے رکھنا ہی ہے اگر تم باعلم ہو۔ ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا، جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اور جس میں ہدایت کی اور حق وباطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں۔تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو پائے اسے روزہ رکھنا چاہیے۔ ہاں جو بیمار ہو یا مسافر ہو اسے دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرنی چاہیے۔ اللہ تعالی کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے سختی کا نہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کرلو اور اللہ تعالی کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بڑائیاں بیان کرو اور اس کا شکر کرو‘‘ (سورۃ البقرہ آیت نمبر ۱۸۵-۱۸۳)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے (ترجمہ) اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر قائم ہے: اس بات کی شہادت دینا کہ صرف اور صرف اللہ ہی معبود برحق ہے۔ اور محمد( صلی اللہ علیہ وسلم)اس کے رسول ہیں۔ نماز قائم کرنا۔ زکوۃ دینا، بیت اللہ کا حج کرنا۔ رمضان کے روزے رکھنا (بخاری ومسلم)
رمضان کے روزوں کی فرضیت پر امت مسلمہ کا اجماع ہے۔ لہذا اس کی فرضیت کا انکار کرنے والا دائرۂ اسلام سے خارج ہوجائے گا۔رمضان کے روزے ۲ ہجری میں فرض کیے گئے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ۹ سال تک روزے رکھے۔روزہ ہر مسلم بالغ اور عاقل آدمی پر فرض ہے۔ کافر پر روزہ فرض نہیں۔ اور اس وقت تک اس کا روزہ قابل قبول نہیں جب تک کہ وہ مسلمان نہ ہوجائے۔
کمسن اور نابالغ پر بھی روزہ فرض نہیں تاآنکہ وہ بالغ ہوجائے۔ پندرہ سال کی عمر مکمل ہوجائے۔یا موئے زیر ناف آجائے۔ یا احتلام یا کسی اور ذریعے سے منی کے خروج سے بلوغت ثابت ہوتی ہے۔ عورت کی بلوغت مذکورہ بالا اشیاء کے علاوہ دم حیض کے خروج سے بھی ہوتی ہے۔ مذکورہ بالا چیزوں میں سے کوئی ایک بھی چیز اگر نابالغ کے لیے ثابت ہوجائے تو وہ بالغ تسلیم کیا جائے گا لیکن نابالغ اور چھوٹے بچے اور بچیاںبغیر کسی تکلیف اور ضرر کے اگر صیام کی طاقت رکھتے ہوں تو انہیں صیام کا حکم دیا جائے تاکہ انہیں روزے کی عادت پڑ جائے اور روزے سے وہ مانوس ہوجائیں۔
پاگل یا ذہنی توازن کھودینے والے شخص پر بھی روزہ واجب نہیں۔ چنانچہ اگر کوئی شخص دماغ کی خرابی کی وجہ سے ہذیان گوئی کرتا ہو اور اچھے برے کی تمیز نہ کرسکتا ہو تو اس پر روزہ رکھنا واجب نہیں
رابطہ :صدر شعبۂ عربی ، بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری