آجکل اگرچہ دنیا سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں زبردست کارنامے انجام دیتی ہیں اورہر وہ چیز ایجاد کرتی رہتی ہےجس سے اس تیز رفتار دور کےانسان کو راحت و سکون میسر ہوسکےلیکن جب یہی انسان، انسانیت اورانسانی بقا کا دشمن بن کر مہلک سے مہلک ترین ہتھیار تیار کرتا ہے تب اس ترقی اور ایسے سہولیات کا کیا معنیٰ رہ جاتا ہےاور پھر انسان یہی سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کی آسمانوں پر کمندیں ڈالناوالا اور سمندروں کی تہہ تک پہنچنے والا اس دور کا انسان ابھی تک حقیقی انسان نہیں بن پایا ہے اور نہ ہی انسان ہونے کے ناطے انسانیت کے لئے وہ کام کرتا ہے،جس پر اُسے اشرف المخلوقات کا درجہ عطا ہواہے۔بغور دیکھا جائےتو کیا فائدہ اس ترقی کا جو نہ صرف اس زمین پر رہنے والے انسان بلکہ زمین پر موجود دیگر جانداروںکیلئے بھی وبالِ جان بن جائے۔ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تعلیم دی ہےکہ اپنی زندگی اللہ تعالیٰ اُن احکامات اور ہدایات کے مطابق گذاریں،جس میں کسی بھی قسم کے شَر کا کوئی شائبہ تک نہ ہو۔جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ ہمارے لیےمشعلِ راہ ہے۔ لیکن افسوس !اس دورکا مسلمان دنیائے فانی میںبد مست ہوکر اپنی اصل زندگی اور انسانیت سے بے خبر ہوچکا ہے،وہ معاشرے میں ایسے کام انجام دینے لگا ہے کہ انسانیت ہی شرمسار ہورہی ہے۔جس قوم کی بھلائی اور ترقی کا راز عورت کی عزت و احترام میں مضمر ہے، اُسی قوم کے بے رحم معاشرے میں عورت کی توقیرتار تار ہورہی ہے۔ ظاہر ہے کہ جس قوم نے اپنی عورتوں کی عزت نہیں کی وہ کبھی بھی ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوا۔ انسان خود کو چاہے کتنا ہی دانشمند اور چالاک سمجھے لیکن اللہ کی نظروں میں تب تک ذلیل و خوارہے جب تک نہ وہ عورتوں کی توقیر کرے ۔چنانچہ اُن لوگوںپر لعنت کی گئ ہے جو اپنی عورتوں کو مارتے ،پیٹتے اور گالیاں دیتے ہیں۔ اس بدفعلی اور حیوانیت کی وجہ سے معاشرے کے بیشتر گھرانےطرح طرح کی پریشانیوں میں مبتلا ہوچکے ہیںاور ایسے گھرانوں کےبچے بھی زبردست ذہنی تنائو کے شکار ہوئے ہیں۔ کیونکہ انکی مائیں دوران حمل سے ہی اپنے سسرالیوںکے ہاتھوں ظلم کے شکار ہورہی ہیں۔جسکا بُرااثر اُس بچے پر پڑتا ہےجس نے ابھی جنم بھی نہیں لیا ہوتاہے۔۔ایک عورت گھر کے لئے خوشی وسکون اور مرد کیلئے راحت ہوتی ہےجوبدستور ظلم کا نشانہ بنائی جارہی ہے۔افسوس ایسے مردوں پر جو عورت ذات کو نہیں سمجھ پاتااور اس صنف نازک کے ساتھ غیر انسانی حرکات کا مرتکب ہوکر ازسرِ نو دورِ جہالت کو جنم دیتا ہے ۔اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ آج کل خواتین کے ساتھ وہی سلوک کیا جاتا ہےجیسے دورِ جہالت میں کیا جاتا تھا۔ مرد عورت کو کم تر سمجھ کر اسپر اپنی مردانگی کا دبدبہ چلا کر اسکے ساتھ غیر انسانی رویہ اپنایا ہوا ہے۔مرد کو کسی بھی طرح کی کوئی پریشانی ہو تو وہ اپناسارا غصہ عورت پر نکالتا ہے۔ کیا اسلام ہمیں اسکی اجازت دیتا ہے کہ ہم اپنی عورت پربد زبانی سے یا مار پیٹ کر اسکو ذلیل کریں۔ بہرحال اسکی پرواہ کوئی مرد نہیں کرتا۔ ایک مرد جسکے آنے کا ذریعہ اس دنیا میں ایک عورت ہی ہوتی ہے ،وہی مرد اس عورت کو ذلیل وخوار کرتا رہتا ہے۔
ہماری نوجوان نسل فحش گوئی ،بدکاری اور بےہودہ فلموں میں ملوث ہوکر انسانی حقوق سے بےخبر ہے ،جسکے اُس کی نتائج شادی کے بعد ہی نظر آتےہیں۔جب اس نوجوان کو بحیثیت بیوی ایک عورت ملتی ہے،جو کہ اسکی رفیق حیات ہوتی ہے ۔یہ بدبخت مرد اسپر اتنے ظلم ڈھاتا ہے کہ عورت کو زندگی سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے ،ایسے بہت سے واقعات ہمارے معاشرے میں وقفہ وقفہ کے پیش آرہے ہیں۔اگر ایک مرد کی بدکاری پہ عورت شکایت کرے تو اسکو دھمکایا جاتا ہے ،راز افشا کرنے پر اُس کی جان تک لی جاتی ہے۔ ۔ایک امیر آدمی غریب باپ کی بیٹی پراپنی بڑھائی جتاکر اس پر ظلم کرتا رہتاہے ۔سسرال میں بھی ایک غریب باپ کی بیٹی کوجہیز کم لانے پر طعنے دےدے کر مارا جاتا ہے۔کھبی ساس ، کبھی سسراور کبھی ننداسکی زندگی اجیرن بنادیتےہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کتنی عورتوں کو سسرال میں جہیز کی بنا پر قتل کر دیا گیا،کتنوں پر شوہروں نےاپنی بیویوں پر بدچلنی کا الزام لگایا اور انہیں طلاق دینے کے بجائے اُن کا قتل کردیا ہے ۔ ہمارا معاشرہ مکمل طور پر بگڑ چکا ہے ۔مائیں اپنے بچوں کو اپنی لاعلمی میں دینی تعلیم سے محروم رکھ کر غلط کاموںکو فروغ د ے رہی ہیں ۔ ایسی ایسی خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ دل کانپ اٹھتا ہے۔ ایک مرد اپنی مردانگی پر فخر کرکے جتنی شادیاں کرنا چاہے کرلیتا ہے ،خواہ وہ جائزہوں یا ناجائز، اسکی کون پرواہ کرتا ہے ۔پھر ان بیویوں میں وہ انصاف کر پائے یا نہیں، اس بات پر بھی کوئی غور فکر نہیں کرتا ہے۔جو مرد عورت کو صرف اپنی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ سمجھتا ہے، وہ ذلیل و خوار ہوکر رہ جاتاہے ۔ یاد رکھیں دو کمزوروں کے بارے میں اللہ سے ڈرنے کی تلقین کی ہے۔ ایک عورت اور دوسرا غلام، کیونکہ یہ کہیں بھاک نہیں سکتے ۔ حضرت علی ؓ فرماتے ہیںکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سےسُنا کہ مرد اپنی بیوی کو جب کم تر سمجھے اور اسکو ذلیل کرے تو عورت کی دل سے نکلی ہوئی بددعا مرد کی خوشحال زندگی کو ختم کر دیتی ہے اور وہ مرد ہر معاملے میںناکام ہو جاتا ہے اور مایوسی اسکا مقدر بن جاتی ہے۔ تو ایک شخص نے حضرت علی ؓسے کہنے لگا کہ عورت کی بد دعا مرد کے نصیب کو کیسے خراب کر دے گی ،توحضرت علی ؓ نے فرمایا کہ عورت کو اللہ نے ایسی مٹی سے بنایا تاکہ وہ دل سے اپنے گھر والوں کا خیال رکھے اور جو مرد اسکے اس احساسِ جذبہ اور خلوص ومحبت کےبدلے اس کی تذلیل کرتا ہے، پھر چاہے عورت زبان سے کہے یا نہ کہے لیکن اسکے دل میں تواس کی خلش ضروررہتی ہے۔عورت کی تذلیل کرنا مرد کا بدترین عمل ہےاور جس گھر میں عورت کی تذلیل ہو، وہاں اللہ تعالیٰ رزق کے دروازے بند کرتا ہے۔
عورت مرد کیلئے ایک رحمت ہے ۔مرد عورت کی بدولت اپنے اخلاق و کردار کی حفاظت کرتا ہے ۔ جو مرد اپنی بیوی پر رحم نہیں کرتا اللہ تعالی بھی اسپر رحم نہیں کرتا ۔ لہٰذا مرد کواپنے اندر کی غلاظتوں کو دور کرکے انسان بننا چاہئے۔عورتوں کے ساتھ نرمی و رحم دلی سے پیش آنا چاہیے، یہی تعلیم نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عورتوں کے ساتھ بہترین انداز اور پیار و محبت سے پیش آتے تھے ۔اس کے برعکس آج کا مرد جسکو ازدواجی زندگی سے نفرت اور نکاح کوبحیثیت عار سمجھتا ہے ۔ غیرمحرم عورتوں کے ساتھ ہنسی مزاق کرنے کو ثواب سمجھتا ہے ۔حرام کاری میں تو اُسے لذت محسوس ہوتی ہے لیکن جب اپنی بیوی کے سامنے پیش ہوتا ہے تو اس پر غضب ڈھاتا ہے ۔ گویا اس کی کوئی وقعت ہی نہیں۔ یہ ہمارے قوم کی حالت ہے ۔
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مظلوم کی بددعا جو ظالم کے حق میں ہو، بادلوں کے اوپر اٹھائی جاتی ہے۔ آسمانوں کے دروازے اس دعا کیلئے کھول دیئے جاتے ہیں اور اللہ تعالی فرماتے ہیں: میں تیری امدار ضرور کرؤں گا اگرچہ کچھ تاخیر ہی ہو ۔ یہاں مظلوم کی بددعا کرنے سے بچنے کی تلقین کی گئی ،خواہ بددعا کرنے والا کافر ہو یا مشرک، یہودی ہو یا نصرانی، اُسوقت اسکے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا ۔ اگراللہ ظلم کرنے والے کو دنیا میں سزا نہیںدیتا لیکن آخرت میں اسکو ضرورسزا دی جائے گی کیونکہ اللہ اپنے بندے کو کبھی نظر انداز نہیں کرتا ۔ اللہ کی عدالت انصاف پر قائم ہے وہاں ظلم نہیں ہوتا۔ ایک عورت جو رات بھر اپنے بچوں کو سبنھال لیتی ہے ،مرد کی ہر سختی کو برداشت کرتی ہے اور مرد کی بدکرداری پر بھی صبر و تحمل سے کام لیتی ہے کہ شاید سدھر جائے ۔اسکے برعکس بیوی اگر شوہر کو اسکی بدکرداری سے روک دے تو مرد اُلٹا اُسی پر بدکرداری کے الزم لگاکر طلاق دیتا ہے ۔پھر یہ بیچاری گھر کی رہ جاتی نہ گھاٹ کی اور نتیجتا ً معاشرے میں مزید برائیاں جنم لیتی ہیں۔ کئی مطلقہ عورتیں گھروں سے بے گھر ہوکر طوائف بننے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔نکاح جو کہ اللہ نے ہمارے لیے حلال رکھا ہے،بدکردارمرد اس سے دوری اختیار کرکے حرام کاری کرنا کرنے لگتے ہیں۔ بے حیائی کو ہمارے معاشرہ میں ایسے فروغ دیا جاتا ہے کہ لوگ اب حرام کو بھی حلال سمجھنے لگے ہیں ۔
سماجی بگاڑ کی وجہ سے ہی عورتوں پہ ظلم اور ازدواجی زندگیوں میں کھوٹ پڑچکاہے ۔ جس نکاح سے حسن معاشرت کی بنیاد پڑتی تھی، اسکو ہم بھول گئے ہیں۔ عورت جو کہ نصف انسانیت ہے ،مرد اسی کو ذلت کا جام پہنا کر اسکی زندگی خراب کر دیتا ہے ۔ اللہ منصف ہے اور وہ ضرور ایسے مردوں کو سزا دے گا جو اس صنف نازک پر ظلم کرتے ہیں ۔ اگرچہ کوئی مرد مسجد کا امام ہو، نماز کا پاپند بھی ہو لیکن اگر ان معاملات میں کھوٹ رکھتا ہو تو اسکا سب کچھ ضائع ہو کر رہے گا ۔ مرد کو یہ حق کبھی حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی بڑھائی عورت پہ جتا کر اسکے ساتھ ظلم کرے۔ جتنا حق ایک مرد کو دنیا میں رہنے کیلئے دیا گیا ہے اتنا ہی ایک عورت کو بھی حاصل ہے ، اسکو یہ حق اسلام نے دیا ہے۔،جو اُ سے کوئی چھین نہیں سکتا ۔
اب اس امت کے نوجوانوں کی ذمہ داری ہیں کہ وہ اس ظلم و ستم کے خلاف قدم اٹھائیں جو عورتوں کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ کیونکہ ہم خیر امت ہے، ہمیں لوگوں کو اچھائیوں کا حکم دے کر برائیوں سے روکناہے تاکہ ایسے حرکات سے معاشرے پاک ہوجائے۔ اگر ہم اس کام سے جی چرائیںگے تو اللہ کے ہاں اسکی بازپرس ہوگی ۔جہاں بھی انسانیت کی بات آتی ہو، اسکو نظرانداز نہیں کیاجانا چاہئے۔ مرد کو اگر قوامیت حاصل ہے، اگر اسلام نے اسکو حکومت پر فائز کیا تو جتنا حق ایک مرد کو حکومت چلانے اور تخت پر بیٹھنے کا ہوتا ہے ،اتنا ہی حق اسکو کو یہ بھی ہے کہ اگر ایک عورت پہ ناانصافی ہورہی ہو تو وہ اس کے خلاف آواز اٹھائےاور ملوث لوگوں کو سزا دلوائے ۔ اسلام میں قانونی لحاظ سے مرد و عورت یکساں ہیں ۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ سب خاتین کو اس ظلم سے بچائے اور سب مردوں کو ہدایت دے اور اُنہیں عورتوں کی عزت و توقیر کرنے کی توفیق بخشے۔ ( آمین)
(آونیرہ شوپیان ۔طالبہ:جامعت البنات سرینگر)