دنیا میں زندگی گزارنے کے مختلف راستے ہیں مگر زندگی گزارنے کا صحیح راستہ وہی ہے جسے خالق نے اپنی مخلوق کے لئے ہدایت کیا ہے۔ اس سیدھے راستے (صراط المستقیم ) کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مبین میں صراطِ کہا ہے اور اپنے بندوں کو بار بار صراط مستقیم پر چلنے کی دعاکا حکم دیا ہے۔ اسی ’’صراط مستقیم‘‘ کو مولانا حکیم غلام نبی قاسمی مرحوم نے اپنی زیر مطالعہ کتاب کا موضوع بنایا ہے۔
مولانا مرحوم نے’’ صراط مستقیم‘‘ کی نشاندہی کی ہے اور اسلام سے ہٹے ہوئے سبھی راہوں کا تعاقب کر کے ان سے بچے رہنے کی تلقین کی ہے۔فاضل مصنف مولانا حکیم غلام نبی مرحوم کا تعارف کتاب میںا ن الفاظ میں درج ہے:’’مولانا حکیم غلام نبی‘‘ کی ولادت ۱۹۱۷میں مولو چتراگام( شوپیان ) کے ایک علمی خانوادہ میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی اور۱۹۲۸ء میں اعلیٰ تعلیم کے لئے ریاست سے باہر تشریف لے گئے اور امرتسر سے فراغت کے بعد دیوبند میں علوم دینیہ میں اختصاص پیدا کیا۔ جہاں اُس وقت برصغیر کے بڑے بڑے علمائے کرام علوم نبویہ ؐسے طالبین علم کو فیض یاب کر رہے تھے، جن میں مولانا اعزاز علیؒ، مولانا حسین احمد مدنیؒ، قاری محمد طیبؒ، مولوی عبدالکریمؒ قابل ذکر ہیں۔ دیوبند سے فراغت کے بعد مولانا نے دہلی جا کر علم طب اور علم جراحی میں اختصاص پیدا کیا۔ مولانا علوم دینیہ اور علوم طب سے ۱۹۴۴ء میں فارغ ہوئے اور بعد ازاں دہلی میں ہی مطب کا قیام عمل میں لایا۔ ۱۹۴۷ء میں واپس وطن وارد ہوئے اور یہاں بھی مطب قائم کر کے خدمت خلق کا باقاعدہ آغاز کیا۔ مولانا غلام احمد احرارؒ صاحب کی دعوت پر ۱۹۴۹ء میں جماعت اسلامی میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی۔۱۹۵۲ء تک آرونی میں دینی درسگاہ میں درس وتدریس اور قرب و جوار کی بستیوں میں اشاعت دین کے فرائض انجام دیتے رہے۔ یہاں تک کہ مرکز جماعت نے ہمہ وقتی کارکن کی حیثیت سے موصوف کو مرکز منتقل ہونے کی ہدایت کی۔ ۱۹۷۸ء تک موصوف مرکز جماعت میں یکسوئی کے ساتھ مختلف مناصب پر اپنی خدمت انجام دیتے رہے۔ اس دوران موصوف نے پارلیمانی انتخاب کے علاوہ اسمبلی انتخابات میں بحیثیت امید وار حصہ لیا۔ کئی مرتبہ (۱۹۶۲، ۱۹۷۰،۱۹۷۵ میں) دعوت حق کی پاداش میں زینت ِزندان بھی بنے۔
۱۹۹۷ء بوجہ علالت موصوف نے ہمہ وقتی ذمہ داریوں سے فراغت حاصل کی اور اپنے وطن واپس تشریف لائے۔ ۱۹۸۸ء سے ۱۹۹۷ء تک لگاتار تین میقات تک امیر جماعت اسلامی جموں وکشمیر منتخب ہوتے رہے اور یہ دورانیہ تحریک کے لیے انتہائی کشیدہ تھا۔ موصوف نے انتہائی عزم وہمت اور حکمت کے ساتھ حالات کا مقابلہ کیا اور سرفراز ہوئے۔ بحیثیت امیر جماعت دو بار گرفتار ہوئے۔ بحیثیت امیر یا مامور موصوف کو جماعت میں ایک مثال کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے۔ مولانا درس وخطابت میں اپنی مثال آپ تھے۔ موصوف کو تحریکی مصروفیات نے لکھنے کا موقعہ فراہم نہیں کیا البتہ ’’اذان‘‘کی ادارت کے دوران موصوف کے جو اداریہ پڑھنے کو ملتے ہیں وہ انتہائی مدبرانہ، عالمانہ اور جہاں دیدہ انسان کی عکاسی کرتے ہیں۔ ہمہ وقت مصروفیات کے باوجود موصوف نے ’’اوراد فتحیہ‘‘ کی ایک تفصیلی عالمانہ شرح لکھی، جواہل علم کے ہاںخراج تحسین حاصل کرچکی ہے۔ موصوف ۶ فروری ۲۰۰۲ء کواس دار فانی سے رخصت ہوئے۔‘‘ کتاب ’ ’صراط مستقیم‘‘ کی ترتیب وتحقیق مولانا مفتی مجاہد شبیر احمد فلاحی
نے انجام دی ہے۔ مولانا مفتی مجاہد شبیر احمد فلاحی صاحب جامعۃ الفلاح اعظم گڑھ یوپی کے فارغ تحصیل دارالعلوم دیوبند سے افتاء کرنے کے علاوہ ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی علی گڑھ سے تصنیف وتالیف کے ریسرچ اسکالر رہے ہیں۔ آپ نے درجن بھر کتابیں تصنیف کر کے شائقین علوم سے دادِ تحسین حاصل کرلی ہے۔ آپ جماعت اسلامی جموں وکشمیر کے فعال کارکن ہونے کے ساتھ ساتھ اس وقت جماعت کے ادارہ جامع سراج العلوم ، شوپیان کے ناظم الامور ہیں۔ آج سے قریباً آٹھ سال پہلے راقم نے جماعت کے ایک ضلعی اجتماعی میں غازی معین الاسلام ندوی (فرزند ِارجمند حکیم غلام نبی مرحوم) کی زبانی ایک تقریر میں کتاب ’’صراط مستقیم‘ ‘کا تذکرہ سنا تھا اور یہ بھی پتہ چلا تھا کہ کتاب مستقبل میں شائع کی جارہی ہے۔ تبھی سے راقم کو اس کتاب کا شدت سے انتظار تھا۔ بہر حال حکیم غلام نبی مرحوم کے فرزندان مولانا شہزادہ اورنگ زیب ندوی مکی اور غازی معین الاسلام ندوی کی خصوصی کا وشوں سے اور ڈاکٹر عبدالحمید فیاض صاحب سابق قیم جماعت اسلامی جموں وکشمیر کی کوششوں سے کتاب کا مسودہ مفتی شبیر احمدفلاحی وقاسمی کو سونپا گیا جس سے کتاب کی اشاعت ممکن ہوسکی اور یہ آج کتاب ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ کتاب ’’صراط مستقیم‘ ‘تقریظ از مولانا شہزادہ اورنگ زیب ندوی مکی ( فرزند ارجمند حکیم صاحب)اور مقدمہ از مجاہد شبیر احمد فلاحی (صاحب تحقیق وترتیب کتاب) کے علاوہ چار بڑے بڑے ابواب پر مشتمل ہے۔ یہ چار ابواب کچھ یوں ہیں: (۱) تمہیدی باب (۲) ایمان بالغیب (۳)توحید (۴)تصوف ، پھر ان چار ابواب کو چھوٹے چھوٹے ذیلی عنوان کے تحت تقسیم کیا گیا ہے۔ تقریظ میں مولانا شہزادہ اورنگ زیب ندوی مکی صاحب لکھتے ہیں: ’’انہوں نے (محترم المقام شیخ محمد حسن سابق امیر جماعت اسلامی جموں وکشمیر ) بھی اپنے دور امارت میں گوناگوں مصروفیات کے باوصف کتاب کے بعض اجزاء پر نظر ثانی کی اور اس کے نوک وپلک کو سنوارا اور مفید مشوروں سے نوازا‘‘۔ کتاب کے موضوع کے حوالے سے مفتی مجاہد شبیر احمد فلاحی کتاب کے مقدمہ میں لکھتے ہیں: ’’اس کتاب کا اصل موضوع توحید اور تصوف ہے جس کے تحت انہوں نے نہ صرف توحید کی قرآن وسنت کی روشنی میں بالتفصیل وضاحت کی بلکہ تصوف اور دوسرے غیر اسلامی نظریات کی حقیقت بھی کھول کر بیان کردی ہے۔ مرحوم محترم نے کہیں پر بھی مدانیت سے کام نہیں لیا ہے بلکہ ’لا یخافون لومۃ لائمہ‘‘ کی اسپرٹ کے ساتھ حق کو حق کہہ دیا اور باطل کو باطل، اگر چہ اس کی زد میں بظاہر کوئی بڑی سے بڑی شخصیت کیوں نہ آئی ہو۔‘‘ صراط مستقیم ہونے کا حق قرآن مقدس کے بغیر دنیا کی کسی بھی کتاب کو حاصل نہیں۔ کتاب ’’صراط مستقیم‘‘ ایک بندہ ٔ خدا کے ہاتھ سے اللہ کے صراط مستقیم کی تشریح وتوضیح ہے اور بس۔ ایک جگہ مصنف کتاب رقم طراز ہیں ’’ہمارا یقین ہے اور اسی یقین کےساتھ روز محشر میں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونے کی اُمید ہے کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے، جس کی تعلیمات میں کمی بیشی نہیں کی جاسکتی ہے۔ جو بھی اس کی کوشش کرے گا وہ صراط مستقیم سے ہٹ جائے گا۔ ‘‘ کتاب ’’صراط مستقیم‘‘ مثالوں اور واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں پر صراط مستقیم سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے اور اس سیدھے راستے ہٹی ہوئی راہوں سے بچنے کی تدابیر بھی بتلائی گئی ہیں۔ اولیاء کرامؒ کی تعلیمات کو کیسے تحریف کر کے پیش کیاگیا اور باطل نظریات کی کس طرح ترویج کی گئی ، تاکہ امت کا سوادِ اعظم راہِ حق پر قائم نہ رہ سکے، اس کی مدلل ومفصل انداز میں نشاندہی کی گئی ہے۔
’’مدوجزر اسلام وادی ٔ گلپوش میں‘‘ عنوان کے تحت مولانا محترم لکھتے ہیں ’’حضرت میر سید علی ہمدانی ؒ قدس سرہ کی تشریف آوری سے قبل ہی یہاں کی آبادی کا بڑا حصہ مشرف بہ اسلام ہوچکا تھا لیکن یہ اسلام رسمی قسم کا اسلام تھا۔ لوگ شرک کی آلودگیوں سے چھٹکارا نہ پاسکے تھے۔ مندروں میں آنا جانا جاری تھا۔ مشرکانہ لباس اور وضع قطع میں کوئی فرق نہ آیاتھا۔ زنّار ابھی تک گلے کا ہار بنا ہوا تھا۔ یہ سب کچھ اس بات کا نتیجہ تھا کہ لوگ اسلام کے اساسی عقائد خاص کر اسلام کے عقیدہ ٔ توحید سے نا آشنا تھے‘‘ ایک اور جگہ مولانا موصوف نے حیران کردینے والے واقعات بھی نقل کیے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح لوگوں کو راہِ است سے ہٹانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے اور بدستور جاری ہے۔ لکھتے ہیں :’’ایک صاحب ہماری مسجد میں تشریف لائے۔ نماز مغرب سے فارغ ہوتے ہی منبر پر کھڑے ہوئے اور درود واذکار کے بعد سورۃ العادیات کی تلاوت فرما کر تفسیر شروع کر دی اور بتایا کہ حق تعالیٰ ان آیات میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے گھوڑوں کی قسم کھاتا ہے۔‘‘ العیاذ باللہ‘دوسرا واقعہ یہ ہے : ’’ ایک قریبی گاؤں میں ایک صاحب اپنے احباب میں تشرف فرماتھے اور دین کی بات چلی، قرآن کریم کا کچھ تذکرہ ہوا ،وہ فخراً بول اُٹھے کہ میں نے اپنے بچوں کو صرف والضحیٰ سے الناس تک ترجمہ پڑھایا ہے۔ زیادہ پڑھانے سے بچے بگڑ جاتے ہیں اور ان کا عقیدہ خراب ہوجاتا ہے۔ العیاذ باللہ ‘‘ اولیاء کرامؒ کی تعلیمات کے سلسلے میں غلط انتساب کے متعلق مولانا مرحوم لکھتے ہیں: ’’اولیاء کرامؒ کی طرف منسوب بہت سی کتابیں موجود ہیں جن کا حوالہ دے کر قبرپرست طبقہ استمداد اور استعانت کا جواز پیش کرتا ہے۔ اس طبقے کو بھی آگاہ کرتے ہیں کہ یہ سب کتابیں محرف ہیں۔ اور اولیائے کرام ؒ کی طرف ان کی نسبت غلط ہے۔ اسی طرح کچھ منظوم کلام کو بھی غلط طور پر اولیائے کرامؒ کا نتیجہ فکر قرار دیا جاتا ہے۔ وہ منظوم کلام بھی آوارہ شعراء کی طبع آزمائی ہے کیونکہ اولیائے کرامؒ کی ذاتی تالیفات کا سارا مواد توحید پر مشتمل ہے اور و ہ کفر کے لئے شمشیر براں کی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘ طوالت کی وجہ سے مزید نمونے پیش کرنے سے قاصر ہوں، ورنہ کتاب میں ایسے بہت سے واقعات او ربعض سبق آمو ز لطیفے پیش کیے گئے ہیں جس سے راہ حق کی صحیح راہنمائی اور گمراہی کی وجوہات اور نشاندہی کی گئی ہے۔ کتاب کی تحقیق وتربیت میں مفتی مجاہد شبیر احمد فلاحی نے کمال کی محنت کی ہے۔ جہاں کہیں بھی کوئی قرآن کی آیت، حدیث، تاریخی واقعہ وغیرہ پیش کیا گیا ہے تو مفتی صاحب نے عرق ریزی سے کام لے کر حوالہ پیش فرمایا ہے۔ اتنا ہی نہیں جس کسی بھی شخصیت کا علمائے کرام، اولیائے کرامؒ یا تاریخی شخصیات کا ذکر صاحب کتاب نے تذکرہ کیا ہے تو مفتی مجاہد شبیر صاحب نے ان کی بہت مختصر مگر جامع سوانح حیات حواشی میں پیش کی ہے۔ اس طرح احوال وواقعات کا صحیح تناظر سمجھنے میں بہت مدد ملتی ہے اور معلومات میں بھی بیش بہا اضافہ ہوتا ہے۔ یہ عرق ریزی مفتی مجاہد فلاحی صاحب ہی کا حصہ ہے اور ان کی محنت شاقہ کا نتیجہ۔ ۲۷۲ صفحات کی یہ کتاب پروف کی غلطیوں سے پاک ہے سوائے چند ایک جگہ جن کا حوالہ پیش خدمت ہے۔صفحہ ۱۲۲ حواشی کے تحت قرآنی اصطلاحات اور علمائے سلف وخلف میں لفظ علمائے کو ’’عماء‘ لکھا ہے۔ صفحہ ۱۴۴ پر لفظ مہاتما کی جگہ ’’ماہتما‘‘ لکھا ہے اور صفحہ نمبر ۲۶۹ ۲۷۰ پر حاشیہ ۵۸ اور ۵۹ کاپھیر بدل ہوا ہے۔ حالانکہ ابوبکر شبلی کی حاشیہ نمبر ۵۸ اورجنید بغدادی کی حاشیہ نمبر ۵۹ہے جو کہ الٹ ہوگیا ہے۔ باقی کتاب ، پروف کی غلطیوں سے مبرا ہے۔ کتاب میں تصوف کے رد میں کافی وشافی دلائل موجود ہیں مگر لفظ تصوف کا استعمال کر کے اندیشہ ہوتا ہے کہ تصوف کی ہر ایک قسم باطل ہی ہوگی، جس سے بچنے کی ہر جگہ تو نہیں چند ایک مقام پر ’’اسلامی تصوف‘‘ اور ’’غیر اسلامی تصوف‘‘ کی نشاندہی ہونی چاہئے تھی، کیونکہ بہت سے صلحاء اور مجددین نے قرآن کے تزکیہ اور احسان کو ہی تصوف سمجھا ہے مگر عام لوگوں کو سمجھانے کے لئے لفظ ’’تصوف‘‘ استعمال میں لایا ہے۔ جیسے مولانا سید عروج قادری ؒکی کتاب ’’اسلامی تصوف‘‘ یوسف سلیم چستی ؒکی کتاب ’’اسلامی تصوف میں غیر اسلامی تصوف کی آمیزش" میں دیکھا جاسکتا ہے۔ مولانا مودودیؒ نے بھی رسالہ ٔ دینیات میں تصوف کو تین اقسام میں تقسیم کر کے ایک کو کلی طور ترک کرنے، دوسرے کی اصلاح کرنے اور تیسرے کو اپنانے کا مشورہ دیا ہے۔ بہرحال کتاب کو بہترین گیٹ اپ، خوبصورت ٹائٹل اور عمدہ طباعت کے ساتھ سید مودودی ؒریسرچ فاونڈیشن کشمیر نے شائع کیا ہے۔ کتاب ہر گھر اور لائبریری کی زینت ہونی چاہئے خاص طورپر تحریک اسلامی کے وابستگان کے لئے اس کا مطالعہ از بس ضروری ہے کیونکہ کتاب مرحوم مولانا حکیم غلام نبی قاسمیؒ صاحب کا ہدیہ تبریک بھی ہے۔ اُمید ہے کتاب کو ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا اور بھر پور راستفادہ کیا جائے گا اس مقصد کے ساتھ جو مقصد خود مصنف کتاب نے بیان کیا ہے۔ موصوفؒ لکھتے ہیں:پیش نظر کتاب ’’صراط مستقیم کی تالیف واشاعت کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اسلام کے بنیادی حقائق کو اس طرح پیش کیا جائے کہ ہمیں پتہ چلے کہ اسلام کا دوسرا نام ’’صراطِ مستقیم‘‘ ہے، دین حق کا واضح تصور قلب وذہن میں رچ بس جائے ، طالب ِحق براہ راست سلف ِصالحین کی طرح قرآن وحدیث کی طرف متوجہ ہو۔ اُسے اتنا علم دین حاصل ہوکہ اس کے بغیر کسی اور صراط مستقیم سے خدا نخواستہ ہٹنے کا تصورتک ذہن میں نہ آئے اورزندگی کے ہر شعبے میں وہ کتاب وسنت سے ہی ہمیشہ ہمیش رہنمائی حاصل کرتا رہے اور ایک اور جگہ یہ کہ ’’دین ودنیا کی کامیابی کا واحد راستہ احکام الٰہی کی بجاآوری ہے۔ یہی راستہ صراط مستقیم کہلاتا ہے۔‘‘اللہ تعالیٰ ہمیں علم دین حاصل کرنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
نوٹ مضمون نگارسابق ناظم اعلیٰ اسلامی جمعیت طلبہ، جموں وکشمیر