راجہ ارشاد احمد
گاندربل//ضلع گاندربل کے علاقہ شیر پتھری میں نسل در نسل صدیوں پرانی روایتی بید کی دستکاری سرکار کی عدم توجہی سے ختم ہونے کے دہانے پر پہنچ گئی ہے۔نئی نسل کا صدیوں پرانی دستکاری کی جانب کم رحجان ہونے کے سبب یہ دستکاری آنے والے برسوں میں مکمل طور پر ختم ہونے کے دہانے پر پہنچ گئی ہے۔شیر پتھری گاندربل کے درجنوں علاقوں جن میں ہرن،پیر پورہ، کچھن، شالہ بگ،سہ پورہ، ژھندنہ ،کورگ،سندھ بل ،ملک پورہ سمیت دیگر علاقوں میں نسل در نسل بید کی ٹہنیوں سے تیار کی جانے والی کئی اقسام کی ٹوکریاں، کانگڑی، مجمے،ٹیبل کرسیاں، صوفہ، سمیت شادی بیاہ میں استعمال ہونے والی خوبصورت اور منفرد ٹوکریاں بنائی جاتی ہیں تاہم اس دستکاری سے وابستہ ہنر مندوں اور کاریگروں کی شکایت ہے کہ صدیوں پرانی روایتی دستکاری اس وقت زوال پذیر ہے کیونکہ سابق اور موجودہ حکومتوں کی جانب سے اس صنعت کو مسلسل نظر انداز کرنے سے نئی نسل اس کام سے دوری بنا رہی ہے۔
بید کی ٹہنیوں سے بنائی جانے والی چیزوں کو جہاں کشمیر میں پسند کیا جارہا ہے وہیں ملک کی تمام ریاستوں کے علاوہ بیرون ممالک میں بھی مانگ بڑھ رہی ہے۔شالہ بگ،ژھندنہ ،ہرن، کڑھن، ملک پور کورگ علاقوں میں 70 فیصد سے زیادہ آبادی بشمول مرد اور خواتین اس دستکاری سے وابستہ ہیں تاہم اس ورثے کے کاریگروں نے شکایت کی کہ وہ انتہائی غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔کچھن کے مقامی ہنر مند غلام محمد ماگرے ،جسے سال 2016 میں محکمہ صنعت کی جانب سے سٹیٹ ایوارڈ سے نوازا گیا تھا، نے کشمیر عظمیٰ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’گاندربل کے شیر پتھری میں موجود درجنوں علاقوں کچھن ،پیر پورہ، سندھ بل، کورگ، شالہ بگ، ژندنہ ،ہرن ملک پورہ سمیت دیگر علاقوں میں بید کی ٹہنیوں کی کاشت لگ بھگ 4ہزار سے زائدکنال اراضی پر کی جاتی ہے جس کے بعد اس کی کٹائی مارچ، اپریل یا اکتوبر نومبر کے مہینوں میں کی جاتی ہے ۔
بعد ازاں ایک دو روز تک ان ٹہنیوں کو پانی میں بھگونے کے لئے رکھا جاتا ہے جس کے بعد بوائلر کی ٹینکیوں میں 24 گھنٹوں تک اُبالا جاتا ہے۔ ابالنے کے بعد ان ٹہنیوں سے چھلکا اتار کر تین چار روز تک دھوپ میں سوکھنے کے لئے رکھا جاتا ہے جس کے بعد کاریگر اور ہنر مند اس سے متعدد چیزیں جیسے کرسیاں، میز، شادی بیاہ میں استعمال کی جانے والی مختلف اقسام کی ٹوکریاں بنائی جاتی ہیں‘‘۔انکا کہناتھا کہ گاندربل کے ملک پورہ، کژھن،حضرت بل سمیت دیگر علاقوں میں خوبصورت اور دلکش کانگڑیاں بنائی جاتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ” ہم نسل در نسل اس صدیوں پرانی روایتی دستکاری سے وابستہ ہیں تاہم کئی دہائیوں کے دوران سرکار کی عدم توجہی کی وجہ سے بہت سے لوگ اپنے خاندانوں کا پیٹ پالنے کیلئے اس ہنر کو خیر باد کہہ رہے ہیں۔میں اس کام سے پچھلے 26 سالسے منسلک ہو جبکہ میرا باپ بھی اس ہنر سے وابستہ رہے لیکن اب میرے بچے اس کام کی جانب توجہ نہیں دے رہے ہیں‘‘۔انکا مزید کہناتھا’’ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس کام میں ہمیں کسی سرکاری محکمے سے مالی مدد نہیں ملتی ہے ،نہ بہتر طریقے سے مارکیٹنگ کی جاتی ہے اور نہ ہی ہمیں جدید ٹیکنالوجی کی مشین جن میں بید کی ٹہنیوں کو چھلنے والی مشین اور بوائلر ہی فراہم کئے جارہے ہیں جس کی وجہ سے نئی نسل اس کام سے دوری بناتی جارہی ہے نتیجتاً یہ ہنر اور دستکاری زوال پذیر ہوتی جارہی ہے ‘‘۔60 سالہ کاریگر عبدالاحد نے اس بارے میں بتایا ’’ بید کی مصنوعات کی قیمت اچھی ہوتی ہے اور وہ خریداروں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں لیکن کاریگروں کو بہت کم معاوضہ ملتا ہے کیونکہ درمیان میں موجود بیوپاری ہمیں اس حساب سے محنتانہ فراہم نہیں کرتے جس حساب سے ہم محنت مزدوری کرتے ہیں۔ سرکاری مراعات کی کمی کی وجہ سے کاریگر اپنا ہنر نہایت کم دام میں ٹھیکیدار کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں‘‘۔انکا مزید کہناتھاجموں و کشمیر کے دوسرے اضلاع کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں اور بیرون ممالک میں ان چیزوں کی زبردست مانگ ہے لیکن سرکار کی جانب سے بہتر مارکیٹنگ نہ ہونے سے ہمیں بھرپور معاوضہ نہیں ملتا جس وجہ سے نئی نسل کے کاریگر اور ہنر مند اس کام کو خیر باد کرنے پر مجبور ہیں‘‘۔