مولانا سیّد سلیمان
عید الفطر کے دن جو صدقۂ فطر ادا کیا جاتا ہے یہ واجب صدقہ ہے اور حدیثِ مبارک میں اس کی دو حکمتیں ذکر کی گئی ہیں: (1) یہ صدقہ روزوں میں ہونے والی کوتاہیوں سے پاکی (2) اور مساکین کے کھانے کے بندوبست کا ذریعہ ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزوں میں ہونے والی لغو (یعنی فضول ولایعنی) اور فحش باتوں کے اثرات سے روزوں کو پاک کرنے کے لیے اور مسکینوں کے کھانے کا بندوبست کرنے کے لیے صدقۂ فطر واجب قرار دیا ۔ (سنن ابو داؤد)یعنی مسلمانوں کے جشن و مسرت کے اس دن میں صدقہ فطر کے ذریعے محتاجوں اور مسکینوں کی ضرورت پوری کرکے انہیں بھی خوشی میں شریک کیا جائے اور دوسرا یہ کہ زبان کی بے احتیاطیوں اور بے باکیوں سے روزے پر جوبُرے اثرات پڑے ہوں گے، ان کی طرف سے کفارہ ہوجائے۔
جو مسلمان (مرد یا عورت ) اتنا مال دار ہے کہ اس پر زکوٰۃ واجب ہے یا اس پر زکوٰۃ تو واجب نہیں، لیکن قرض اور ضروری اسباب اور استعمال کی اشیاء سے زائد اتنی قیمت کا مال یا اسباب اس کی ملکیت میں عید الفطر کی صبح صادق کے وقت موجود ہیں، جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو اس پر عیدالفطر کے دن صدقہ دینا واجب ہے، چاہے وہ تجارت کا مال ہو یا تجارت کا مال نہ ہو، چاہے اس پر سال گزر چکا ہو یا نہ گزرا ہو۔ اس صدقے کو صدقۂ فطر کہتے ہیں۔
نیز مال دار آدمی کے لیے صدقۂ فطر اپنی طرف سے بھی ادا کرنا واجب ہے، اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے بھی، نابالغ اولاد اگر مال دار ہو تو ان کے مال سے ادا کرسکتا ہے اور اگر مال دار نہیں ہے تو اپنے مال سے ادا کرے۔ بالغ اولاد اگر مال دار ہے تو ان کی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرنا والد پر واجب نہیں، ہاں !اگر والد اپنی خوشی ورضا سے ان کی اجازت سے ان کی طرف سے ادا کردے گا تو صدقۂ فطر ادا ہوجائے گا، جب کہ مال دار عورت پر اپنا صدقۂ فطر ادا کرنا تو واجب ہے، لیکن اس پر کسی اور کی طرف سے ادا کرنا واجب نہیں، نہ بچوں کی طرف سے، نہ ماں باپ کی طرف سے، نہ شوہر کی طرف سے۔
صدقۂ فطر، عیدالفطر کے دن جس وقت فجر کا وقت آتا ہے (یعنی جب سحری کا وقت ختم ہوتا ہے) اسی وقت واجب ہوتا ہے۔ البتہ صدقۂ فطر رمضان المبارک میں بھی ادا کرنا درست ہے۔ عید الفطر کے دن عید کی نماز سے پہلے پہلے صدقۂ فطر ادا کردینا چاہیے، یہ بہت زیادہ فضیلت کی بات ہے۔ اگر عید کی نماز سے پہلے ادا نہیں کیا تو بعد میں ادا کرنا ہوگا، لیکن اس سے ثواب میں کمی ہوگی، اور عید کے دن سے زیادہ تاخیر کرنا خلافِ سنت اور مکروہ ہے، لیکن پھر بھی ادا کرنا ضروری ہوگا۔ صدقۂ فطر ان ہی لوگوں کو دینا جائز ہے جنہیں زکوٰۃ دینا جائز ہے۔