جموں وکشمیر کے لیفٹنٹ گور نر منوج سنہا نے 11ستمبر کو اپنی پہلی پریس کانفرنس میں جموںوکشمیر کے مرکزی زیرانتظام علاقہ کے 15لاکھ کنبوں کیلئے ہیلتھ انشورنس سکیم متعارف کرانے کا اعلان کیا تھاجس سے ستر لاکھ کی آبادی کو فائدہ ملے گا۔اس سکیم پر سالانہ 123کروڑ روپے خرچ ہونے کی بات کی گئی تھی۔سکیم کے ذریعے جموں و کشمیر کے تمام لوگوں کو مفت ہیلتھ انشورنس فراہم کرنے کا اہتما م ہے اور اس میں سبکدوش سرکاری ملازمین اور انکے اہل خانہ بھی شامل ہونگے۔یہ سکیم بالکل مرکزی حکومت کی سکیم ’آیوش مان بھارت سکیم‘کے طرز پر ہی ہے اور اس سکیم کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اس میں وہ سبھی لوگ بھی آجاتے جو آیوش مان بھارت سکیم میں رہ گئے تھے۔آیوش مان بھارت سکیم کے دائرے میںجموں کشمیر میں قریب 6لاکھ کنبوں کو پہلے سے لایا گیا ہے ، جو 30 لاکھ نفوس پر مشتمل ہیں، جنہیں فی سال 5 لاکھ روپے کا صحت بیمہ حاصل ہے۔ اب نئی سکیم کے تحت مزید 15 لاکھ کنبوں کے70لاکھ نفوس کواس نئی سکیم کے تحت راحت دئے جانے کا منصوبہ تھا اور انہیں بھی سالانہ پانچ لاکھ روپے کا صحت بیمہ حاصل ہوتا تاہم اس سکیم کی عمل آوری میں مسلسل تاخیر ہورہی ہے۔
گوکہ سرکاری طور پر تب کہاگیاتھا کہبجاج ایلیانز جنرل انشورنس کمپنی کے ذریعے چلائی جانے والی اس سکیم کو حتمی شکل دی جارہی ہے اور ایک مناسب نام عطا کرکے عنقریب اس سکیم کو رائج کیاجائے گا تاہم دو ماہ گزرجانے کے باجوود بھی جموںوکشمیر کا ایک بھی شہری تاحال اس سکیم سے مستفید نہیں ہوپارہا ہے۔ سکیم کا اعلان واقعی اُن مریضوں کیلئے ہوا کے ایک خوشگوار جھونکے کی طرح تھا جو دائمی امراض کے شکار ہیںاور ان میں یہ امید جاگ گئی تھی کہ اب کم از کم وہ علاج کو نہیں ترسیں گے لیکن انتظار ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے ۔چونکہ آیوش مان بھارت سکیم کے تحت صرف 2011میں کی گئی سماجی و معیشی مردم شماری میں خطہ افلاس سے نیچے گزر بسر کرنے والے کنبے ہی مستفید ہورہے تھے جبکہ جموںوکشمیر کی آبادی کا ایک بڑا حصہ اس مردم شماری میں زمینی سطح پر ہوئی دھاندلیوں کی وجہ سے اس فہرست میں جگہ نہیں بناپایا تھا جس کے نتیجہ میں ایسے کنبوں کیلئے علاج و معالجہ کی سہولت انتہائی کٹھن بن چکی تھی تاہم اب اس نئی سکیم کے تحت چونکہ پوری آبادی کا احاطہ کیاجاناتھا تو اب وہ سارے مریض ،جو سرطان یاناکارہ گردوں کے امراض کے علاوہ دیگر جان لیوا امراض میں مبتلا ہیں،انہیں ایک بڑی پریشانی سے نجات مل سکتی تھی کیونکہ اب وہ نامزد سرکاری و نجی ہسپتالوں میں گولڈ ن کارڈ کی طرز پر اس سکیم کے تحت دئے جانے والے ایک ہیلتھ کارڈ کے ذریعے اپنا مفت علاج کراپا تے اور اُنہیں ہسپتالوں میںکوئی پیسہ جمع نہیں کرنا پڑ تالیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ زمینی سطح پر کنبوں کی رجسٹریشن کا عمل مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے ۔گوکہ حکومت کے پاس سبھی کنبوںکا ڈیٹا بیس موجود ہے اور صرف آدھار لنک کے ذریعے افراد کنبہ کی تصدیق کا عمل مکمل کرنا تھا تاہم جس رفتار سے یہ سلسلہ چل رہا ہے ،اُس کو دیکھتے ہوئے اس سکیم کی عمل آوری میں ابھی بھی مہینوں لگ سکتے ہیں۔
حکومت کو بخوبی عوامی مشکلات کا ادراک ہے اور شاید اسی وجہ سے لیفٹنٹ گورنر نے اس سکیم کا اعلان تھا اور یوں مہاراشٹرا کے بعد جموںوکشمیر ملک کی دوسری ریاست یا یوٹی بنی تھی جہاں ایسی آفاقی صحت بیمہ سکیم رائج کی جا تی تاہم انتظامی سست روی کی وجہ سے لیفٹنٹ گورنر کے اس انقلابی قدم کے فوائد فوری طور مستحقین تک نہیں پہنچ پارہے ہیں۔دوسری جانب عالم یہ ہے کہ بیماریاں عام ہوچکی ہیںاور اب ہر گھر میں مریض موجود ہیں۔ ہسپتالوں اور نجی کلینکوں و تشخیصی مراکز پر لوگوں کا جم غفیر دیکھ کر ہی اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ یہاں بیماروں کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے اور اب تو ایسے بیماروں کی ایک فوج بھی یہاں تیار ہوچکی ہے جنہیں علاج و معالجہ پر ماہانہ فی کس 20سے50ہزار روپے خرچ کرناپڑ رہے ہیں جو اُن کے بس کی بات نہیں ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ایسے بیشتر مریضوں کو اب رضاکار فلاحی اداروں کے دفاتر کے باہر دیکھا جاسکتا ہے جہاں وہ زکواۃ کی رقم کے منتظر ہوتے ہیں تاکہ وہ اپنا علاج جاری رکھ سکیں لیکن چونکہ مریضوںکی تعداد بہت زیادہ بڑھ چکی ہے تو ایسے فلاحی اداروں کیلئے مریضوں کی اتنی بڑی تعداد کی طبی ضروریات کو پورا کرنا مشکل بن چکا ہے ۔
تاہم اس نئی سکیم کے تحت نہ صرف ان فلاحی اورخیراتی اداروں کا بوجھ کم ہوجاتا بلکہ مریض بھی بہتر علاج و معالجہ یقینی بناسکتے تھے کیونکہ ہر کنبہ سالانہ پانچ لاکھ روپے تک علاج و معالجہ پر خرچ کرسکتا ہے اور اس کیلئے یہ شرط بھی نہیں رکھی گئی تھی کہ اس سکیم کے تحت اندراج ہونے والے لوگ پہلے توانا ہوں بلکہ پہلے سے بیمار لوگوں کو بھی اس کا فائدہ مل سکتا ہے۔ اب لوگ اس انتظار میں ہیں کہ یہ سکیم عملی طور کب رائج ہو کیونکہ ضرورتمندوں کی کمی نہیں ہے اور وہ اب اسی سکیم سے آس لگائے بیٹھے ہیں۔اس لئے حکومت کو مزید تاخیر کئے بغیر لیفٹنٹ گورنر کے اعلان کو عملی جامہ پہنانے کی سعی کرنی چاہئے ۔یہ سکیم یقینی طور پر جموںوکشمیر کے لاکھوں مریضوں کیلئے جینے کا سہارا بن سکتی ہے ۔کہتے ہیں کہ نیک کام میں دیر نہیں کرنی چاہئے اور یوٹی انتظامیہ کو بھی چاہئے کہ وہ اس کار خیر میں مزید تاخیر نہ کرے اور جلد سے جلد اس سکیم کو شروع کرے تاکہ اس یوٹی کا کوئی بھی مریض مالی تنگدستی کی وجہ سے اپنا علاج کرنے سے نہ رہ سکے۔