صحافیوں کاعصرحاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونالازمی | ڈاک بنگلہ سمبل میں یک روزہ تربیتی ورکشاپ ،سینئر صحافیوں کی شرکت

 سرینگر//دورِ جدید میں صحافت کے بدلتے تقاضے عنوان کے تحت اتوار کو ڈاک بنگلہ سمبل میں یک روز تربیتی ورکشاپ منعقد ہوا ،جس کااہتمام انجمن اْردوصحافت جموں وکشمیر اوربانڈی پورہ ورکنگ جرنلسٹس ایسوسی ایشن نے باہمی اشتراک سے کیاتھا۔صبح ساڑھے دس شروع ہوئے اس تربیتی ورکشاپ میں پرنٹ والیکٹرانک میڈیاسے وابستہ 40سے زائد نامہ نگاروں نے شرکت کی جن کا تعلق بانڈی پورہ اورگاندربل اضلاع سے تھا ۔بانڈی پورہ ورکنگ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ساجد رسول نے خطبہ استقبالیہ کے فرائض انجام دئے جبکہ سینئر صحافی اور انجمن اردو صحافت کے ترجمان اعلیٰ زاہد مشتاق نے ورکشاپ کا مقصد اورانجمن کا تعارف پیش کیا۔افتتاحی تقریب کے فوراًبعدپہلی نشست میں ’دیہی نامہ نگاری ،تقاضے مسائل اور حل ‘کے موضوع پر سینئرصحافی اور بی بی سی اردو کے بیورو چیف برائے جموں وکشمیر ریاض مسرور نے اپنے تجربات اور مشاہدات کے مطابق مفصل روشنی ڈالی۔انہوںنے کہاکہ نامہ نگاری کودیہی یاشہری بنیادوں پرتقسیم کرناٹھیک نہیں ہے۔انہوں نے کہاکہ خبر زیادہ ترمضافاتی علاقوں سے ہی نکل کرآتی ہے۔انہوں نے کہاکہ ایک نامہ نگارکیلئے کسی خاص ڈگری یاسندکی اتنی ضرورت نہیں ،جتنی اسبات کی کہ ایک نامہ نگارکسی علاقہ میں پیش آئے کسی حادثے یاواقع کواصل حقائق کے ساتھ رپورٹ کرے۔ریاض مسرورکاکہناتھا کہ یہ کہنادرست نہیں کہ اْردوزبان کوکوئی خطرہ لاحق ہے یاکہ اْردوصحافت زوال پذیر ہے۔اس حوالے سے انہوں نے ملکی اوربین الااقوامی سطح کے کچھ اداروں کی تجزیاتی یاسروے رپورٹس کاحوالہ دیتے ہوئے کہاکہ اب بھی اْردوبہت سارے ممالک میں پڑھی،بولی اورلکھی جاتی ہے۔کشمیر میں اْردوصحافت کے ماضی اورحال کے تناظرمیں مستقبل کاذکر کرتے ہوئے ریاض مسرورکا کہناتھاکہ اْردوصحافت سے وابستہ صحافیوں کاعصرحاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونالازمی ہے۔انہوں نے کہاکہ آج سوشل میڈیاکادورہے ،کوئی حادثہ یاواقعہ پیش آتے ہی اس کوشیئرکیاجاتاہے لیکن خبرتب تک نامکمل رہتی ہے ،جب تک اس سے جڑے سبھی معاملات اورحقائق کورپورٹ نہ کیاجائے۔انہوںنے انجمن اردوصحافت کے رول اورمشن کواہم قراردیتے ہوئے کہاکہ اْردوصحافت کوجدیدتقاضوں اوربنیاد اصولوں سے روشناس ہوناپڑے گااوراس ضمن میں تربیتی ورکشاپ کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔انہوں نے کہاکہ کوئی صحافی یانامہ نگارچاہئے کتنے برسوں سے میدان عمل میں سرگرم کیوں نہ ہو،اْس میں سیکھنے کاجذبہ ہوناچاہئے ،تاکہ وہ خودکودورجدیدیاعصرحاضر کے نئے تقاضوں سے اپنے آپ کوآراستہ رکھ سکے۔ ورکشاپ میں شامل سبھی صحافیوں اورنامہ نگاروں کوتازہ دم رکھتے ہوئے معروف مزاحیہ نگار تاثیرافضل نے اپنے منفرداندازمیں کشمیری زبان میں اپنامزاحیہ کلام پیش کیا،جس سے حاضرین کافی محظوظ ہوئے۔دوسری نشست میں سینئرصحافی اور تجزیہ نگارہارون رشید نے ’صحافت کے ماعصرتقاضے‘عنوان کے تحت اپنے تجربات اورمشاہدا ت بیان کئے۔انہوں نے کہاکہ صحافیوںکو نئی تیکنیک اورنئے تقاضوں کے بارے میں جانکاری حاصل کرتے رہناپڑے گا۔ہارون ریشی کاکہناتھاکہ ہرصحافی کی اپنی اہمیت ہوتی ہے لیکن صحافت کے میدان میں ڈٹے رہناآسان نہیں۔انہوں نے کہاکہ ایک صحافی یانامہ نگارچاہئے کسی بھی زبان میں لکھے ،اْس کواْس زبان پراتنی حدتک عبورہوناچاہئے کہ وہ اپنی تحریریابات قارئین اورناظرین تک آسان لفظوں میں پہنچاسکے۔وقفہ ظہرانہ کے بعدتیسری نشست میں سینئر صحافی منوہر لالگامی نے ’خبر نگاری کا صحافتی اسلوب ‘ کے موضوع پر شرکائے ورکشاپ کو اپنے تجربات اور مشاہدات سے مستفید کیا جبکہ ’ملٹی میڈیا کی اہمیت اور تقاضے ‘ کے موضوع پربراڈ کاسٹ جرنلسٹ سید تجمل الاسلام نے روشنی ڈالی۔دو نشستوں اور چار الگ الگ موضوعات پرمشتمل پر ورکشاپ کے دوران زاہد مشاق ،اظہر رفیقی ،زبیر قریشی اور شوکت ساحل نے نظامت کے فرائض انجام دئیے۔ورکشاپ کی نظامت کے فرائض انجمن کے سینئررْکن وصدارتی مشیر ناظم نذیر نے انجام دیئے ۔ انجمن اردو صحافت کے صدر ریاض ملک نے صدارتی خطبہ دیا۔ انجمن اردو صحافت کے صوبائی صدر کشمیربلال برقانی نے تحریک شکرانہ پیش کی۔ورکشاپ کو منعقد کرنے میں انجمن اردو صحافت کے جنرل سیکریٹری امتیاز احمد خان ، آر گنائز فردوس رحمان اورسوشل میڈیاانچارج شوکت ساحل نے کلیدی کردار ادا کیا۔انجمن کے رْکن بلال مولوی اور بانڈی پورہ ورکنگ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلیٰ ساحل نذیرنے شرکاء کا استقبال اور رجسٹریشن کے فرایض انجام دئے۔ورکشاپ کے اختتام پر شرکاء میں توصیفی اسناد تقسیم کی گئیں۔