بے شک اسلام مکمل ضابطۂ حیات اور دین ِفطرت ہےاور قرآن مجید کا بنیادی موضوع انسان ہے،جو رُوحانیت کا سرچشمہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہماری مادّی فلاح اور بدنی صحت کے لئے بھی ایک بہترین ذریعہ ہے۔ اس پر عمل پیرا ہونے سے نہ صرف ہم اخلاقی و رُوحانی اور سیاسی و معاشی زندگی میں عروج حاصل کر سکتے ہیں بلکہ جسمانی سطح پر صحت و توانائی کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو سکتے ہیںاور اسی لئے اللہ نے انسان کو غور و فکر اور تدبّر سے کام لینے کی ہدایت کی ہے۔چنانچہ دینی تعلیمات اور جدید علمی تحقیقات کی روشنی میں فطرت کے ساتھ ہم آہنگ رہنے کی جو اہمیت اور افادیت بیان ہوئی ہے، اُس کی رُو سے جب ہم اپنی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم نہ صرف انفرادی طور پر بلکہ اجتماعی طور پر فطرت کے اُصولوں سے متصادم ہیں ۔ گرد و پیش کے ماحول کے بارے میں فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ اسے صاف رکھا جائے اور اس میں پیدا ہونے والے بگاڑ کو روکا جائے۔لیکن ہم محض اپنے ارد گرد کے ماحول پر بھی نظر ڈالنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ ہم جہاں رہتے ہیں، وہاں کے چیزوں کے مجموعے کا نام ہی ماحول ہے۔ ہمارے گھر،آنگن،گلی کوچے،سڑکیں، ندی نالے، دریا، کھیت، پہاڑ، فضا وغیرہ، یہ سب چیزیں مل کر ماحول تشکیل دیتی ہیں،جنہیں صاف و شفاف رکھنا ہماری اہم ذمہ داری ہے۔ظاہر ہے کہ ماحولیاتی صفائی کا اسلامی تصور دیگر تصورات سے مختلف ہے ، اس تصور میں ہماری زندگی کے تمام اجزاء شامل ہیںجو ہماری زندگی کے تمام معمولات کا احاطہ کرتی ہے۔ جب ہم اپنے اردگرد کے ماحول پر نظر ڈالتے ہیں تو صفائی اور پاکیزگی کا زبردست فقدان نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت ہمیں زمینی آلودگی اور فضائی آلودگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ظاہر ہے کہ ماحول میں بگاڑ آلودگی کا سبب ہے، اس لئے آج کے دور میں حفظانِ صحت و ماحولیاتی تحفظ کے لئے شجرکاری ضروری بن گئی ہے جبکہ شجر کاری نہ صرف سنتِ رسولؐ ہے بلکہ صدقۂ جاریہ اور بہترین عبادت بھی ہے۔ اگر ہم ماحول کو صاف و پاک رکھنے کے لئے درخت لگائیں گے تو اس سے محض ہمیں ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کو فائدہ پہنچے گا۔ موجودہ سائنس شجرکاری کی جس اہمیت و افادیت کی تحقیق کر رہی ہے، اُس سے ہمیںقرآن و احادیث نے چودہ سو سال قبل ہی آگاہ کر دیا تھا۔ قرآن کریم میں مختلف حوالے سے شجر (درخت) کا ذکر آیا ہے،جبکہ احادیث میں بھی شجرکاری کے حوالے سے صریح ہدایات موجود ہیں۔ بخاری شریف کی ایک روایت میں شجرکاری کو صدقہ قرار دیتے ہوئے ہمارے پیارے نبی ؐ نے فرمایا ہے کہ جو انسان درخت لگائے یا کھیتی باڑی کرے اور اس میں پرندے، انسان اور جانور کھا لیں تو وہ اس کے لئے صدقہ ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ ہمارا دین صفائی ستھرائی اور نظافت پر زور دیتا ہے تاکہ نجاست اور گندگی کے سبب ماحول آلودہ ہونے سے محفوظ رہےاور آب و ہوا متاثر نہ ہوجائے، آلودگی ، انسانی صحت کے لئے انتہائی مضر ہے۔ ماحولیاتی آلودگی سے تحفظ کا ایک ذریعہ شجرکاری ہے،جوماحول کو خوبصورت اور دلکش بنانے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ قدرت کا نظام ہے کہ اس کائنات میں جہاں ماحول کو آلودہ کرنے والے قدرتی وسائل پائے جاتے ہیں، وہیں ماحولیاتی کثافت کو جذب کرنے والے ذرائع بھی موجودہیں، اس کی بہترین مثال درخت ہیں۔ اگر ہم اطمینان چاہتے ہیں تو پودے اور درخت لگا کر صدقہ جاریہ کا اہتمام کریں۔ شجرکاری کے ساتھ جڑے معیشت اور خوشحالی کے گہرے تعلق ہیں،جن میں حسن فطرت کی رعنائیاں اور دلکش مناظر بھی شامل ہیںجو ہماری آنکھوںکو ٹھنڈک اور دل کو سکون فراہم کرتے ہیں۔ ہمارے لئے اچھا موقع ہے کہ اپنی نیکیوں میں اضافہ کریں، اپنے ماحول کو خوش گوار بنائیں،اپنا قومی فریضہ نبھائیں اور اسکے ساتھ ساتھ شہر اور دیہات کے ندی نالوں،چشموں اور دریائوںکو غلاظت اور کوڑے کرکٹ سے صاف و پاک رکھنے میں اہم کردار ادا کریںتاکہ ہمارے اس طرزِ عمل سے نہ صرف ان میں موجود آبی حیات کی بقاء قائم رہے بلکہ آلودگی میں بھی کمی ہوجائے ۔