صاحب ِ میلاد ﷺ: امن و آشتی کے پیکر میلادالنبی ؐ

ڈاکٹر عاشق آکاش
خالق کائنات نے جب یہ دنیا بنائی ،تب سے ہی لوگوں کی ہدایت اور تربیت کے لئے برگزیدہ شخصیات کا انتخاب فرمایا ۔ ان شخصیات کو دنیا انبیاء اور رُسل کے نام سے جانتی ہے۔ ابتدا میں یہ فریضہ منصبی حضرت آدم ؑ کو سونپا گیا اور اس کے بعد صدیوں تک یہ کاروان چلتا گیا اور دنیا کو ان برگذیدہ بندوںکی شکل میںعلم و آگہی کا ایک کہکشاں نصیب ہوا ۔
بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ ایک ایسا وقت آن پڑا جب تہذیب و تمدن کا نام بھی باقی نہ رہا اور ظلم و استبداد کی زنجیروں میں جکڑی انسانیت ظلم و ستم کے دو پاٹوں میں بری طرح سے پسنے لگی ۔ جب ظلم و بربریت حد سے تجاوز کر گئی تو قانون فطرت کے مطابق جہالت اور ظلم و استبداد کے اندھیرے کو مٹانے کے لیے خورشید صحر نے جنم لیا جس کا اجالا قیامت تک غیر فانی بن گیا ۔ عرب کی مقدس ہوائیں معطر ہوکر نعرہ توحید کا پرچا ر کرنے لگیں۔ انبیاء کے اس کہکشاں میں ایک شخص نے خورشید جہاں تاب کا کردار نبھایا ۔ جس کے تولد پر معبود بر حق نے پوری انسانیت پر احسان جتلاتے ہوئے یہ کہا کہ
لَقَد مَنـَّ اللہ عَلَی المُومِنِینَ اِذ بَعَثَ فِیھِم رَسُولََا مَن اَنفُسِھِم یَتلُواعَلَیھِم اٰیٰتِہ وَ یُزَکِیھِم وَیُعَلِمُھُمُ الکِتَابَ وَالحِکمَۃَ وَ اِن
 کَا نُو مِن قَبلُ لَفِی ضَلالِِ مُبِین ۔( آل عمران:۱۶۴ )
آپؐ سے قبل پوری دنیا جہالت کے گھُپ اندھیرے میں پھنسی تھی۔ ہر طرف بے امنی اور بد نظامی کا دور دورا تھا۔ عداوت ، دشمنی، بغض و عناد کا چرچہ عام تھا۔ایسے حالات میں بھٹکی انسانیت کو راہ راست پر لانے کے لئے محبت، شفقت اور آپسی بھائی چارے کے نور سے لوگوں کو منور کرنے کی خاطر خالقِ کائنات نے محسن انسانیت ، رحمتََ للعالمینؐ کو آخری نبی بنا کر بھیجا۔
سرور دوعالم ﷺ کی ذات مقدس کے اوصاف حمیدہ نے اس کائنات کا مقدر ہی بدل ڈالا ، ان کی رحمت نے انسانی تہذیب و تمدن کے بے جان جسم میں روح پھونک دی اور اسطرح سے رنج و آلام سے بھری دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز ہوگیا۔
ٹوٹے وہ راگ سارے چرچے وہ بت کدوں کے
رکھے جو پائے اطہر جوں ہی وہ اس زمین پر
مہ رو وہ شاہ یثرب وارد ہوئے یہاں جب
مولا نے تب ہی بولا احسان میرا ہے تم پر
یہ وہ شخصیت ہے جن کی بدولت پوری دنیا کا کارواں ہی بدل گیا ۔ ان کی آمد سے علم و آگہی کے دریا بہنے لگے ،رحمت اور محبت کی برسات ہونے لگی، ہدایت کے چرچے عام ہوگئے ۔ ان سبھی اوصاف کے ساتھ حضرت محمد مصطفی ﷺ ،احمد مجتبیٰ ،خاتم النبیین، امام مرسلین دنیا میں وارد ہوئے۔ آپ ﷺ دائمی نبی اور رحمتہََ لللعالمین ہیں۔ آپ ﷺ محض ایک نبی نہ تھے بلکہ بیک وقت امیر مملکت ، سپہ سالار ،قاضی اور مصلح کے فرائض انجام دے رہے تھے۔آپ نے دنیا سے ظلم و ستم ، نا انصافی اور بربریت کو مٹانے کے لئے اور انسانیت کی تعظیم و تکریم کی خاطر ایک مکمل سیاسی، سماجی، معاشی اور معاشرتی نظام دیا۔
حُسنِ یوسف دمِ عیسیٰ یدِ بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
نبی اکرم ﷺ کی زندگی کا ہر لمحہ ان کی طرز زندگی اور ان کی تعلیمات امن پسندی کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔ان کی دور اندیشی ، بصیرت،صبر و برداشت، علم و استقلال جیسے اوصافِ حمیدہ نورِ نبوت سے مل کر دنیا میں امن و آشتی اور سلامتی کا باعث بنے ۔ اللہ تعالی کے بعد حضرت محمدﷺ ہی ایک ایسی ہستی ہے جو پورے عالم کے لیے ہدایت اور رہنمائی کا سر چشمہ ہے۔
حضور اقدس ﷺ نے کبھی بھی کسی بھی منصب میں زبانی دعویداری نہیں کی بلکہ انہوں نے ہر میدان میں عملی ثبوت پیش کرتے ہوئے لوگوں کو اپنی اور متوجہ کیا ۔ آپ ﷺ نے جس انداز میں معاشرے کے لوگوں کی رہنمائی کی ویسی رہنمائی سے معاشرا بالکل لا علم تھا۔ آپ ﷺ نے معاشرے میں رہ کر سماج کو نئے اقدار سے نوازا۔ اتنا ہی نہیں آپ ﷺ دنیا کوایک نئے افق پر لے گئے۔ بنی نوع انسان کو ایک الگ مقام عطا کیا۔ انہوں نے امن و سلامتی کا ایک اعلیٰ نمونہ بن کر لوگوں میں پیغام محبت کا پرچار کیا۔ پیارے نبی ﷺ نے رنگ و نسل ، ذات پات  اور اونچ نیچ کی روایات کو مسترد کرتے ہوئے انسان دوستی ، ملنساری اور سماجی برابری کی تعلیمات سے پوری کائنات کو نوازا۔
رنگ و نسل کا فرق مٹا کر
بندو کو تو نے حق سے ملا کر
ایک بنائے ابیض و اسود
صلی اللہ علیہ وسلم
آپ ﷺ کی صلہ رحمی اور محبت کا اندازہ سرزمین عرب کے ایک مشہور واقعے سے لگا یا جاسکتا ہے۔ جہاں ایک بوڑھی عورت آنحضرت ﷺ پر تب کوڑا پھینکا کرتی تھی جب آپ ﷺ ان کے گھر سے نماز کے لیے تشریف لے جاتے اور وہ بوڑھی عورت آپ پر چھت سے ہر روز کوڑا پھینک دیا کرتی تھی ۔ یہ سلسلہ یونہی کئی روز چلتا رہا اور ایک روز جب آپ ﷺ نماز کے لیے جارہے تھے تو آپ ﷺ پر کسی قسم کی غلاظت یا کوڑا نہ گرا  جس کی وجہ سے آپ ﷺ حیرت زدہ ہوگئے اور بوڑھی عورت کے حال کی فکر ہونے لگی۔ اس عورت کی خبر گیری کے لیے اس کے گھر تشریف لے گئے۔ جس پر بوڑھی عورت شرمندہ ہوکر ایمان لائی ۔
حضرت محمد ﷺ ، شافع محشر فخر موجودات کی محبت اور ملنساری نے عرب و عجم کو جہالت ، ظلم و بربریت کے گھپ اندھیرے سے بچالیا ۔ وہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ:’’وہ شخص ہم میں سے نہیں جس نے دوسرے لوگوں کو عصیبت کی طرف بلایااور وہ شخص بھی ہم میں سے نہیں جس نے محض عصیبت کی بنا پر کسی دوسرے کے ساتھ جنگ کی۔ اور وہ آدمی بھی ہم میں سے نہیں جو عصیبت کے جذبے پر مر گیا۔ ‘‘(مشکٰوتہ المصابیح ص:۴۱۸)
وہ مزید فرماتے ہیں کہ: ’’تم میں سے کوئی ایک اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ شاید شیطان اس کے ہاتھ میں کپکپی تاری کردے پھر وہ جہنم کی آگ میں جا گرے۔ ‘‘
حضرت نبی اکرم ﷺ دنیا کی وہ واحد ہستی ہے جن کے اوصاف حمیدہ پر دنیا کی کسی بھی شخصیت کو اعتراز نہیں ۔ہندوستان کے بابائے قوم مہاتما گاندھی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ:
’’مجھے پہلے سے زیادہ اس بات کا یقین ہوگیا ہے کہ میں نے اسلام کے بارے میں سمجھا یا سوچا تھا ۔ یہ اصل میں ویسا بلکل نہیں تھا ۔ میں آج لاکھوں انسانوں کے دلوں پر غیر متنازعہ اثر اٹھانے والی شخصیت کی زندگی کو جاننا چاہتا تھا۔۔۔۔۔ ‘‘
حضرت محمدﷺ کی سیرت مبارکہ قیام امن کی پیروکار ہی نہیں بلکہ یہ امن کی ضامن بھی ہے۔ آپ ﷺ نے فتنہ و فساد کو ختم کرکے امن و سلامتی کے ایک دائمی نظام کا پرچا ر بھی کیا۔
ان کی سیرت طیبہ ،محبت و شفقت ، احسان اور غمخواری کی علامت ہے۔ ان کی آمد سے عرش و فرش پر مسرت پھیل گئی۔ وہ نبی ہی نہیں رحمتہََ للعالمین ہیں، امام المرسلین ہیں۔ ان کی ذات اقدس میں نور خداوندی کا وجدان ہے۔ وہ رحمت ہی نہیں ممبئہ رحمت ہیں۔ وہ یتیموں کے والی ہیں، غریبوں کے ملجا ہیں ۔ عاشقوں کے دل کے قرار ہیں۔
غم زدوں دل حزینوں کی ہے عید یہ
عاشقوں پر یقینو ں کی ہے عید یہ
آج صحراوں کو ہوگیا گلستان
اس شہنشا کا میلادآنے کو ہے
نبی اکرم ﷺ دنیا میں ایک عالمی اور دائمی نبی کی حیثیت سے رحمتہ للعالمین بن کر تشریف لائے۔ ان کے دنیا وارد ہونے کا مقصد ہی دنیا کو امن و سلامتی کا گہواراہ بنانا تھا ۔ آپﷺ کی ذات گرامی اور تعلیمات امن و آشتی کا پیکر ہے ۔ آپﷺ کو امن و سلامتی کا جزیہ ودیعت ہوا ۔ اس کو آپﷺ نے من و عن خلق خداوندی تک بلا لحاظہ رنگ و نسل کے پہنچادیا ۔ آپ ﷺ نے معاشرے میں امن و سلامتی ، سماجی ہم آہنگی اور محبت و شفقت کے فروغ اور ہر انسان کی جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ اور سلامتی کے لیے انتھک کوششیں کی جن کی بدولت جزیر تہ العرب امن کا گہوارہ بن گیا۔
اک عرب نے آدمی کو بول بالا کردیا
خاک کے زروں کو ہمدوش ثریا کردیا
خود نہ تھے جو رہ پر اوروں کے ہادی بن گئے
کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا
چونکہ حضور اقدس ﷺ کی ولادت با سعادت سے پہلے دنیا فتنہ و فساد کی آما جگاہ بن چکی تھی۔ ہر طرف بے راہ روی ، ظلم و ستم اور بربریت کا ماحول چھایا ہوا تھا ۔ لوگوں کے جان و مال کے ساتھ ساتھ ان کی عزت بھی داو پر لگی تھی ۔ لیکن نور محمدی ﷺ نے جہالت، لاعلمی اور بے راہ روی کی گھٹاوں میں علم و آگہی کی ایسی روشنی پھیلائی جس کی بدولت ظلم و ستم اور سماجی بربریت کے تمام بت کدھے مسمار ہوگئے۔
دور حاضر میں ان تدبیروں اور نسخوں کی ضرورت  ہے جن کو ہمارے آقائے نام دار ، امت کے غمخوار ،خیر البشر ، شافع محشر نے پوری انسانیت کے لیے منتخب کرکے رکھا ہے۔ ان کی تعلیمات اور سیرت گھٹا ٹوپ تاریکیوں ، مایوسیوں ، سماجی بربریت اور ظلم و ستم میں پھنسی انسانیت کو روشن شاہراہ پر کھڑا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
آئیے ہم سب میلاد النبی ﷺ کی اصل تعلیمات کو عمل میں لاتے ہوئے اپنے معاشرے سے بے حیائی، بے راہ روی،بے چینی،بے سکونی، ظلم و استبداد کو نکال باہر پھینکیں اور آقائے نامدار ﷺ کا دامن تھامتے ہوئے ایک پر امن اور خوشحال زندگی کی راہ پر گامزن ہوجائیں۔
رابطہ۔برنٹی اننت ناگ ،کشمیر
فون نمبر۔9906705778