شیلٹر ہوم کا شرم ناک سانحہ

بہار کے مظفرپور میں ایک شیلٹر ہوم کے زیر کفالت 34؍ یتیم ویسیربچیوں کی آبروریزی کا واقعہ بی جے پی اور جے ڈی یو کی حکمرانی میں لگنے والاایک اور کلنک ہے۔اس لئے کہ جب سے بہار میں نئی مخلوط  حکومت اقتدار سنبھال چکی ہے ،وہاں درندگی اورآبروریزی کے شرم ناک واقعات بڑھ گئے ہیں۔ دس پندرہ سال آ بروریزی کے واقعات کبھی کبھار ہی سننے میں آتے تھے لیکن مجرموں کی دلیری اس قدر بڑھ گئی ہے کہ وہ نہ اس گھناؤنا واقعہ کو انجام دے رہے ہیں بلکہ اس کا ویڈیو بھی ڈال کر وائرل کر رہے ہیں۔بی جے پی۔ جے ڈی یو کی حکمرانی والی ریاست حکمران پارٹی کے کئی لیڈر مبینہ طور چکلے چلانے،لڑکیوں کی سپلائی کرنے،چھیڑ خانیاں کرنے اورآبروریزی کے الزامات میں گرفتارکئے گئے ہیں۔
مظفر پور بالیکا گھر(شیلٹر ہوم)میں رہنے والی 44 لڑکیوں میںسے 42 کی میڈیکل جانچ کرائے جانے پر ان میں سے 34 کے جنسی استحصال کی تصدیق ہوئی ہے۔ دو لڑکیوں کے بیمارہونے کی وجہ سے ٹیسٹ نہیں کرایا گیا ہے۔ مظفر پور بالیکا گھر کو چلانے والا اور سیوا سنکلپ سمیتی کا مالک برجیش ٹھاکر سمیت کل 10 ملزمان کرن کماری، منجو دیوی، اندو کماری، چندا دیوی، نیہا کماری، ہیما مسیح، وکاس کمار اور روی کمار روشن کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا ہے۔ ایک اورمفرور دلیپ کمار ورما کی گرفتاری کے لئے اشتہارات دئے گئے ہیں۔بہت شور شرابے کے بعد جب پولیس برجیش ٹھاکر سے پوچھ گچھ کے لئے ریمانڈ کی درخواست دیتی ہے لیکن کورٹ ریمانڈ کی اجازت نہیں دیتی۔ پولیس نے دوبارہ ریمانڈ کی درخواست کی تو عدالت نے کہا کہ جیل میں ہی پوچھ گچھ کیجیے۔ بعد میں پولیس کہتی ہے کہ جیل میں برجیش ٹھاکر پوچھ گچھ میں کوئی تعاون نہیں کرہاہے۔اس معاملہ کا انکشاف نہیں ہوتا اگر ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ برائے سماجی سائنس اس کی تفتیش نہیں کرتی۔اس نے تفتیش کرکے اپنی رپورٹ کو 23؍ اپریل کو بہار سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ میں پیش کی تھی لیکن کوئی خاص کارروائی نہیں ہوئی۔اگر’’ کشش نیوز‘‘ نے اس کا انکشاف نہیں کیا ہوتا تو کسی کے کان کو بھنک تک نہیں لگتی اور بچیوں کی عصمت دری مسلسل ہوتی رہتی۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ بچیوں کی آبروریزی ہوتی رہی ہے اور بہار سوتا رہا ہے۔ آبرویزی کا شکار ہونے والی اس شیلٹر ہوم میں لڑکیوں کی عمر 7 سے 15 سال کے درمیان ہے ۔ ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنس جیسے ادارے نے اس لڑکی کے گھر کی سماجی تفتیش کی جس میں کچھ لڑکیوں نے جنسی زیادتی کی شکایت کی ۔ اس کے بعد سے 28؍ مئی کو ایک ایف آئی آر رجسٹر کیا گیا۔ یہاں رہنے والی لڑکیوں کی عصمت دری اور مسلسل جنسی استحصال کی تصدیق کی گئی۔بچیوںکے انکشافاتی بیانات کو رپورٹ میں شامل کیا گیا ہے، تمام لڑکیوں نے شیلٹر ہوم کے روح رواں برجیش ٹھاکر کے جنسی استحصال اورظلم و ستم کی بات کہی ہے ۔ اس کے علاوہ، حیران کن چیز یہ ہے کہ ہر رات لڑکیوں کو دوائیاں کو دی جاتی تھیں تاکہ لڑکیوں کو نیندآجائے ،جب وہ صبح اٹھتی تھیںتو ان کے کپڑے بے ترتیب ، کھلے ہوتے تھے اور وہ شرم گاہوں میں درد محسوس کرتی تھیں۔لڑکیوں نے کہاکہ   شلیڑہوم کے درندے رات کو ان کی آبروریزی کرتے تھے اور چھت پر لے جاکر انہیں ننگا کردیتے تھے اور سگریٹ سے داغتے تھے۔ 16 صفحات کی تحقیقاتی رپورٹ میں، پولیس نے بچیوں کے گھر میں لڑکیوں کے ساتھ جنسی ہراسانی اور استحصال کے بارے میں تفصیلی رپورٹ پیش کی ہے۔بہت سی لڑکیوں نے کہا کہ تنظیم میں کام کرنے والی خاتون کرن ان کے ساتھ غلط کام کرتی تھی ۔ برجیش ٹھاکر کے بارے میں بات کرتے ہوئے بہت سی لڑکیوں نے ایک بڑا پیٹ والا یا ہنٹر والے انکل کہا۔ رپورٹ میں برجیش ٹھاکرکے بارے میں لکھا گیا تھا کہ اس کی سیاسی پہنچ بہت زیادہ تھی ۔ اس کے پاس سیاسی، انتظامی، پولیس، غنڈے ہر طرح کی طاقت موجود تھی اوریہاں تک کے میڈیا تک بھی رسائی تھی ۔ برجیش ٹھاکر ان بچیوں کے گھر کے علاوہ وہ بہت سے این جی او کا کرتا دھرتا ہے۔ برجیش ٹھاکر کے میڈیا تک رسائی کی وجہ سے میڈیا نے بھی اس معاملے کو صحیح طریقے سے پیش نہیں کیا۔
متاثرہ لڑکیوں نے یہ بھی کہا کہ ہنٹر والے انکل کے ساتھ مبینہ طور نیتاجی بھی آیا کرتے تھے اور ان کی آبروریزی کیا کرتے تھے۔ نیتاجی کی شناخت سوشل ویلفیئر کی وزیر منجو ورما کے شوہر چندریشور ورماکے طور پر ہوئی ہے۔ دراصل مظفر پور کے تحفظ اطفال افسر روی کمار اس معاملے میں ملزم ہیں اور 10 ملزمان میںروی کمار کو بھی گرفتار کیا گیا ہے لیکن اب روی کمار کی بیوی نے الزام لگایا ہے کہ سوشل ویلفیئر کی وزیر منجو ورما کے شوہر چندریشور ورما اکثربچیوں کے گھر (بالیکاگھر) میں آتے جاتے تھے۔ الزام یہ بھی لگایا گیا ہے کہ چندیشور ورما کئی بار یہاں آتے تھے۔ وہ اپنے افسران کے ساتھ وہاں آتے لیکن سب کو نیچے چھوڑ کر خود بالیکا گھر میں اوپرچلے جاتے تھے ۔ ایساانہوں نے کئی بار کیا۔ وہیںان کا ایک آڈیو ٹیپ بھی ہونے کی بات سامنے آئی ہے ۔تاہم اس معاملے میں چندریشور ورما نے میڈیا سے بات چیت میں اپنی صفائی میں کہا کہ وہ اپنی بیوی کے وزیر بننے کے بعدایک بار بچیوں کا گھر آئے تھے لیکن پھر بچیوں کا گھر تو چھوڑیںمظفر پوربھی کبھی نہیں آئے۔ بہار حکومت نے معاملہ کی تحقیقات سی بی آئی سے کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔حیرانی کی بات یہ ہے کہ تحفظ اطفال کمیشن کی صدر ہرپال کور نے 21ستمبر 2017کو مظفرپور کے اس لڑکیوں کا گھر کا معائنہ کیا تھااور اس پورے معاملے کی رپورٹ مظفر پور کے ڈی ایم کو دی تھی لیکن ڈی ایم نے اس رپورٹ پرخاطیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔2013 سے2018تک کئی ٹیمیں اس بالیکا گھر کی جانچ کے لئے آئیں لیکن کسی ٹیم نے یہاں ہونے والے انسانیت سوز اور پورے بہار کو شرم سار کرنے والے سانحہ کے بارے میں رپورٹ پیش نہیںکی۔ اس سے صرف اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ برجیش ٹھاکر کی کہاں تک اور کن لوگوں تک پہنچ تھی۔ملک میں جہاں بھی بی جے پی کی حکومت ہے یا حکومت رہ چکی ہے یا اثر رکھتی ہے، وہاں سنگین جرائم کی رپورٹیں زبان زد عام ہیں ،خاص طور پر ان ریاستوں میں خواتین کا استحصال عام سی بات ہوگی ہے۔اترپردیش کی ہی مثال لے لیں ،وہاں کاایک رکن اسمبلی آبروریزی کے معاملے میں جیل میں بند ہے جب کہ بتایا جاتاہے کہ 45فیصد وزراء مبینہ طور داغی ہیں۔ مخالفین کا الزام ہے کہ بی جے پی کے بیشتر لیڈران پر پولیس کیس درج نہیںکرتی اور متاثرین کو تھانے سے ڈرا دھمکا کریا مار پیٹ کر بھگا دیتی ہے ۔اگر دباؤ میں کرتی بھی ہے تو ان پر اتنی آسان دفعات کے تحت معاملہ درج کرتی ہے کہ ایک دو سماعت میں ہی ان کو ضمانت مل جاتی ہے اور بے چارے متاثرین انصاف کے لئے دربدر ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ مدھیہ پردیش میں خواتین اور بچیوں کے ساتھ آبروریزی کے واقعات سب سے زیادہ پیش آئے ہیں ۔ یہ قومی جرائم بیورو کے اعداد و شمار بتاتے ہیں۔ اترپردیش میں یوگی حکومت کے آنے کے بعد کس طرح خواتین اور لڑکیوں کے سلوک کیا گیا، غنڈے کھلے بندوں لڑکیوں کے ساتھ کس بے خوفی سے چھیڑخانی اور جسمانی استحصال کرتے ہیں، اس کے کئی ویڈیو وائرل ہیں۔اس وقت ماب لنچنگ ، چھیڑ خانی، اہدافی قتل، فرقہ وارنہ تشدد اور دیگر جرائم میں زیادہ تر پریوار سے وابستہ افراد ہی ملوث پائے جاتے رہے ہیں۔ اس سے ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ پریوار کو قانون اور حکومت کا قطعی کوئی خوف نہیں ہے کیوں کہ ان کو اطمینان ہے کہ جب اس پیارے ملک میں جرائم کرنے والے، قتل عام کرنے والے، عصمت دریوں میں ملوثین وزیر تک بنتے پھرتے ہیںتو ہم قانون سے کاہے کا خوف رکھیں ۔
مظفرپور شیلٹر ہوم آبروریزی معاملہ سامنے آنے کے بعد یہ ضروری ہوگیا ہے کہ سارے شیلٹر ہوم، تمام ناری نکیتن (عورتوں کی پناہ گاہیں)باباؤں کے تمام آ شرموں، منادر میں موجود دیوداسیوں کی حقیقت حال صورت جاننے اور ان مین جرائم کا سدباب کر نے کے لئے اعلی سطح کے بااعتبار اور حق شعار سماجی کارکنوں پر مشتمل کمیشن تشکیل دیاجائے تاکہ وہ پتہ لگاسکیں کہ حقیقت ان جگہوں پر خواتین کے ساتھ کس طرح کا سلوک کیا جاتا ہے،کیوں کہ کچھ عرصہ سے نقلی بابا خود کو بھگوان کہہ اور ڈھونگی خو د کو درویش کہلواکر خاص طور معصوم لڑکیوں اور بے سہارا عورتوں کا جنسی اور جسمانی استحصال کرتے ہیں۔ آسا رام اور رام رحیم سنگھ اس کی زندہ مثالی ہیں۔ اگر بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ نعرہ کوئی مطلب رکھتاہے تو لازم ہے کہ ملک و قوم کی ہر بیٹی کو عزت اور امان دی جانی چا ہیے لیکن جب اس کے برعکس ان کا کوئی حال احوال احوال جاننے ولا ہو نہ او مظلومین کو ظالموں کے چنگل سے چھڑا نے والا کوئی بااختیار ادارہ نہ ہو تو نعرہ ایک ڈھکوسلہ لگتا ہے۔ افسوس یہ کہ خواتین کی عزت اور آبرو بچانے میں جمہوریت کے چاروں ستونوں کا رویہ دیکھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کو ملک وقوم کی برباد ی پر رتی بھر افسوس نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب پوری دنیا میں ہندوستان کو ایک ریپستان اور لنچستان کے طور پر یاد کیا جانے لگاہے۔ حکومتوں کے غلط کرتوت دیکھنے کے باوجود میڈیا اپنے مفاد کے لئے ہر غلط واقعے پر لیپا پوتی کرکے قانون کے باغیوں ، شر وفساد پھیلانے والوں اور سیاسی پشت پناہی رکھنے والے غنڈوں کو بچانے کی آخری حد تک بھی پھلانگنے کی کوشش کرتاہے ۔اس لئے پوری دنیا ہندوستانی میڈیا کا وقار بھی گرگیا ہے۔ہندوستانی میڈیا وہی ہوگیا ہے جسے حالیہ ٹی وی مباحثے میںکانگریس کے ترجمان راجیو تیاگی نے اینکروں کے لئے استعمال کیا تھا۔ چند ایک کو چھوڑ کر پورا میڈیا حقیقی معنوں میں وہی ہے جو راجیو تیاگی نے اس پر چوٹ کر تے ہوئے کہا ہے۔ بہار میں شیلٹ ہوم آبروریزی کے واقعہ نے پوری دنیا میں اپنے پیارے دیش کی شبیہ ہی خراب نہیں کردی ہے بلکہ تمام شریف والدین کو اپنے بچیوں کے مستقبل کے تئیں اور زیادہ متفکر اور مغموم کردیا ہے ۔ اس پر جتنا افسوس اور ماتم کیاجئے کم ہے ۔ ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مر کز اور ریاستی حکومتیں بنت حوا کی حفاظت اور تعظیم کے لئے اپنی قانونی ا ور اخلاقی ذمہ داریاں جلدازجلد پوری کر نے کی سعی کریں ، تب جاکر حالات بدلنے کی توقع کی جاسکتی ہے ۔
D-64/10 Abul Fazal Enclave Jamia Nagar, New Delhi- 110025
Mob. 9810372335,