’’شیطان کا وکیل‘‘: کرن تھاپر کی کتاب کے دلچسپ اوراق

کتابیں  پڑھنا ہمارا شوق، مشغلہ اور اب تو پیشہ ورانہ ضرورت بھی ہے۔ کتاب پڑھنے کا عمل کسی موسم کا محتاج نہیں، ہر رُت میں بھلا لگتا ہے۔ دل میں بہار کا موسم چل رہا ہو تو مطالعہ کی سرشاری اور لذت سَوا ہوجاتی ہے۔ خزاں کی حزن آلود، اُداس رُت کچھ اور انداز کی چیزیں پڑھنے پر اُکساتی ہے، دھیمی موسیقی کے ساتھ جس کے سُر دل کی تاروں کو چھیڑیں اور اُداسی دُھل جائے۔ یہ سب اپنی جگہ مگر سردیوں کی گلابی شامیں اور یخ بستہ راتوں میں کتابیں پڑھنے کا کچھ اپنا ہی لطف ہے۔ کسی ایسی یخ بستہ شب کا تصور کریں، آپ کمبل اوڑھے کتاب پڑھ رہے ہیں، بھاپ اُڑاتی چائے یا کافی کا کپ قریب دھرا ہے، اگر باہر تیز ہوا چل رہی ہے تو بند کھڑکیوں سے آتی اس کی خاصrhythem والی پُرشور آواز ماحول کو مزید فسوں خیز بنا رہی ہے۔ اگر خوش قسمتی سے بھیگے دسمبر سے آپ کا واسطہ پڑا تو پھر ان حسین لمحات کو کون بھلا پائے گا؟ کتابیں خریدنے کا موقع ہم کبھی ضائع نہیں جانے دیتے، یہ اور بات ہے کہ ان میں سے بعض نہیں پڑھ پاتا۔ سردیوں میں میری جمع شدہ کتابوں اور (کسی حد تک) پڑھے جانے کا تناسب زیادہ ہو جاتا ہے۔
ویسے شاپنگ میرے نزدیک کتابوں کی خریداری کا نام ہے۔ کپڑے، جوتے تو ضرورت کے مطابق آ ہی جاتے ہیں، ایک ہی دکان سے آدھے گھنٹے میں سیزن بھر کے لیے جو درکار ہو، لے لیا۔ کتابوں کی دکانوں پر البتہ گزرتے وقت کا پتہ ہی نہیں چلتا، ڈیڑھ دو گھنٹے بعد جب پیر شل ہونے لگیں، تب خبر ہوتی ہے۔ مغرب میں کتابوں کے ایسے عظیم الشان سٹور عام ہیں، جہاں گھنٹوں گزارے جاسکیں بلکہ وہاں بیٹھ کر کتاب پڑھتے رہو، کوئی نہیں ٹوکے گا۔ کافی شاپ بھی وہیں ہے، اپنی من پسند کافی خریدو اور کسی کونے میں مورچہ جما کر بیٹھ جاؤ۔ ہمارے ہاں اس طرح کا رواج نہیں، اپنے شہر میں البتہ ریڈنگز والوں نے کسی حد تک کوشش کی ہے۔ان کا کتاب دوست رویہ غنیمت ہے۔ بات کسی اور طرف نکل گئی، پچھلے دنوں اہلیہ کے ساتھ ایک بڑے شاپنگ مال جانا ہوا، وہاں لبرٹی بکس کے سٹال پر انگریزی کی کئی عمدہ کتابیں دیکھیں۔ ان میں سے دو تین اُٹھا لایا۔ ان میں معروف بھارتی صحافی کَرن تھاپر کی کتاب Devil's Advocate (شیطان کا وکیل )ہے۔ کَرن تھاپر اپنے تیکھے اور کٹیلے سوالات کی وجہ سے بڑے مشہور ہیں ، وہ برسوں بی بی سی کے لیے ہارڈ ٹاک انڈیا کرتے رہے، مختلف ناموں سے اور بھی کئی پروگرام کئے۔ ’’ڈیولز ایڈووکیٹ‘‘ ان کے ٹاک شو کا نام ہی ہے۔
’’ڈیولز ایڈووکیٹ ‘‘کا لفظی مفہوم تو شاید ’’شیطان کا وکیل‘‘ بنتا ہے، مگر یہ اصطلاح اس آدمی کے لئے استعمال کی جاتی ہے جو بحث کو وسیع کرنے اور مختلف پہلوؤں کو سامنے لانے کے لیے ’’متبادل‘‘ نقطہ نظر یا وہ سوچ بیان کرتا ہے ،جو ضروری نہیں حقیقت میں اس کی اپنی ہو۔ ایسے سخت یا تیکھے سوالات جو محض اس لیے اٹھائے جارہے ہیں تاکہ ان کے جوابات آ سکیں، ضروری نہیں کہ سوال کرنے والے کی اپنی رائے ویسی ہو۔ ’’ڈیولز ایڈووکیٹ‘‘ کے حوالے سے نیٹ پر کچھ سرچ کیا تو معلوم ہوا کہ یہ اصطلاح کیتھولک چرچ سے آئی۔ کیتھولک عیسائی بعض اوقات کسی بڑے پادری یا کسی اوربزرگ شخصیت کو ’’سینٹ‘‘ یعنی ولی کا درجہ دے دیتے ہیں۔ پچھلی کئی صدیوں سے یہ کام ایک باقاعدہ عمل کے ذریعے انجام پاتا ہے۔ روایت کے مطابق ایک شخص اس بزرگ کی خوبیاں بیان کرتا ہے جب کہ دوسرا اُس کی خامیاں یا برائیاں سامنے لائے گا تاکہ پوری جانچ پڑتال کے بعد سینٹ (Saint) بنایا جائے۔ خامیاں تلاش کر کے سامنے لانے والے کو Devil,s Advocate کہا جاتا ہے۔
کَرن تھاپر کی کتاب تیزی سے پڑھ ڈالی، لکھنے میں بھی عجلت کی۔کَرن تھاپرکی کتاب میں زیادہ تر بھارتی شخصیات کا تذکرہ ہے، ان میں سے کچھ یہاں بھی مشہور اور معروف ہیں۔ راجیو گاندھی،اٹل بہاری واجپائی، ایل کے ایڈوانی، وی پی سنگھ، نرسمہا راؤ، نریندر مودی، امیتابھ بچن، کپل دیو، سچن ٹنڈولکر وغیرہ۔ پاکستانی سیاست دانوں میں بےنظیر بھٹو کے حوالے سے کَرن تھاپر نے ایک پورا باب تحریر کیا۔ وہ برطانیہ میں تعلیم کے دوران بےنظیر بھٹو کا دوست بنا۔ کَرن نے ان دنوں کے کئی دلچسپ واقعات رقم کیے۔ بی بی کی حاضرجوابی، شگفتہ مزاجی اور نوجوانی میں بھی محتاط طرزعمل کی جھلک ان میں ملتی ہے۔ کَرن تھاپر کی کتاب سے پہلی بار پتہ چلا کہ بےنظیر بھٹو نے معروف کشمیری لیڈر مقبول بٹ کی پھانسی رُکوانے کے لیے اس وقت کی بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کو خط لکھا، جس میں کشمیری حریت پسند کو پھانسی نہ دینے کی اپیل کی تھی، تاہم اندراگاندھی نے اس کا جواب نہیں دیا۔ کرن تھاپر نے بے نظیر بھٹو کی 1986ء میں وطن واپسی اور لاہور میں ان کے شاندار استقبال کا تذکرہ بھی کیا، وہ بی بی کی شادی میں شریک ہوا اور ان کے وزیراعظم بننے کے بعد کے دو عشروں میں کئی انٹرویو بھی کیے۔ کَرن تھاپر کا کہنا ہے کہ نوجوان وزیراعظم کے طور پر بی بی کا رویہ مختلف تھا، مگر وقت گزرنے کے ساتھ وہ زیادہ معتدل اور بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات کی بھرپور حامی بن گئیں۔ آخری ایام میں تو بےنظیر بھٹو نے یہ اشارہ بھی کیا کہ تیسری بار وزیراعظم بنیں تو نہ صر ف داؤد ابراہیم کو بھارت کے حوالے کر دیں گی بلکہ حافظ سعید اور مسعود اظہرتک رسائی کے امکان کو بھی رد نہ کیا۔
مجھے حیرت ہوئی کہ کَرن تھاپر نے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کا قطعی کوئی تذکرہ نہیں کیا، معلوم نہیں تھاپر کو میاں صاحب کا انٹرویو کرنے کا موقع نہیں مل سکا یا پھر سابق پاکستانی وزیراعظم نے بھارتی تیزدھار صحافی کو متاثر نہیں کیا۔موجودہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کے بارے میں بھی کتاب میں کچھ موجود نہیں۔میاں صاحب کے شروع کے سیاسی سرپرست جنرل ضیا الحق کے بارے میں البتہ ایک دلچسپ واقعہ موجود ہے۔ جنرل ضیا الحق کا انٹرویو کرنے کَرن تھاپر پاکستان آیا۔ بےنظیر بھٹو کے ایک قریبی دوست اور روایتی طور پر جمہوری ذہن رکھنے والے صحافی کی حیثیت سے اس نے پاکستانی ڈکٹیٹر سے بہت سخت اور تیکھے سوال پوچھے۔ جنرل نے جواب دئے، شروع میں ان کے چہرے پر تناؤ نمایاں تھا، مگر انٹرویو کے دوران ہی پورچ میں گاڑی آ کر رُکی اور ضیاء نے بتایا کہ میری فیملی باہر تھی، وہ آ گئی ہے، جانے سے پہلے ان سے مل کر جانا۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کا فوجی صدر ریلیکس ہوگیا اور تحمل سے سب سوالات کے جواب دیے۔ انٹرویو کے بعد جنرل ضیا کَرن تھاپر کو باہر گاڑی تک چھوڑنے گئے۔ بھارتی صحافی الوداعی مصافحہ کر کے گاڑی میں ضیا کے اے ڈی سی کے ساتھ بیٹھ گیا۔ گاڑی روانہ ہوگئی، کچھ دیر بعد گیٹ سے نکلنے سے پہلے اے ڈی سی نے کہا کہ آپ پیچھے مڑ کر دیکھیں۔ کَرن تھاپر نے دیکھا تو حیرت زدہ رہ گیا کہ جنرل ضیا الحق اسی جگہ کھڑے الوداع کے لیے ہاتھ ہلا رہے تھے۔ کرن تھاپر نے لکھا کہ یہ مصنوعی اخلاق ہوگا، مگر اس انٹرویو سے پہلے اور اس کے بعد کے بیس تیس برسوں میں کسی حکومتی سربراہ کی جانب سے ایسا خلیق اور گرمجوشی کا رویہ دیکھنے کو نہیں ملا۔ ضیاء کے اس عمل کو کرن تھاپر کبھی نہیں بھلا پایا۔
کرن تھاپر نے جنرل پرویز مشرف کا بھی ذکر کیا ہےاور لکھا کہ وہ میڈیا کو بڑے اچھے طریقے سے ڈیل کر تے تھے۔ اُسامہ بن لادن کو قتل کرنے کے امریکی آپریشن کے حوالے سے اس نے جنرل مشرف کا انٹرویو کیا۔ مشرف کو اقتدار چھوڑے تین سال گزر چکے تھے، دبئی میں یہ انٹرویو ہوا۔ کرن تھاپر نے ڈائریکٹ سوال کیا کہ پاکستانی پریمئیر ایجنسی اس میں شامل تھی یا یہ اس کی نااہلی ہے؟ جنرل مشرف نے خوبصورتی سے اس حملے کو پسپا کیا۔ کرن بار بار یہ پوچھتا رہا مگر پرویز مشرف نے عمدگی سے اسے ڈیل کیا۔بھارت میں سفیر رہنے والے سابق پاکستانی سفارت کار جہانگیر اشرف قاضی کا کَرن تھاپر نے اچھے لفظوں میں ذکر کیا ہے۔ ملیحہ لودھی کے لیے کَرن سب سے زیادہ رطب اللسان رہا۔ اس نے ملیحہ لودھی کو انسائیکلو پیڈیا قرار دیا کہ ہر معاملے میں ان کے پاس زبردست بیک گراؤنڈ معلومات ہوتی ہیں اور پاکستان میں ہونے والے کسی بھی واقعے کو سمجھنے کے لیے وہ ان کی مدد لیتا ہے۔ نریندر مودی کا اس نے گجرات فسادات کے بعد انٹرویو کیا اور صرف تین منٹ بعد مودی نے انٹرویو ادھورا چھوڑ دیا۔ مودی نے اس کے بعد پچھلے سولہ برس میں کَرن تھاپر کو نہ صرف کوئی انٹرویو نہیں دیا بلکہ وزیراعظم بننے کے بعد بی جے پی کے ہر اہم لیڈر کو کرن کو انٹرویو دینے یا اس کے شو میں جانے سے روک دیا۔ اوباما امریکی صدارت چھوڑنے کے بعد بھارت آئے تو کرن تھاپر نے ان کا انٹرویو کیا۔ بھارتی صحافی کو مایوسی ہوئی جب اوباما کی ٹیم نے پہلے سوالات کی فہرست طلب کی اور پھر اس میں سے بعض سوالات کو ڈراپ کرنے کوکہا۔ تھاپر نے اوباما جیسے لیڈر کے اس رویے پر افسوس کا اظہار کیا۔ امیتابھ بچن کے انٹرویو کے حوالے سے کَرن تھاپر نے لیجنڈری بھارتی اداکار کے ایسے منفی رُخ سے روشناس کرایا، جس سے ان کے مداحوں کو خاصی مایوسی ہوگی۔ 