اس پانچویں باب کے دوسرے ذیلی عنوان میں درگاہ حضرت کا ذکر کیا گیا ہے۔ مصنفہ نے یہاں پر موئے مقدس ﷺ کی کشمیر آمد کا تاریخی حوالوں کے ساتھ تٖفصیل پیش کی ہے ۔ ۱۹۶۴ء میں پیش آئے موئے مقدس ﷺ کی گمشدگی کا واقعہ بھی شرح و بسط کے ساتھ قارئین کی نذر کیا ہے اوراس ضمن میں کچھ انکشافات بھی کئے ہیں۔ یہاں مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ان کی باریک بین نگاہوں سے ۱۹۹۲ء کا درگاہ سانحہ کیسے اوجھل ہوا؟
’’پرتاپ پارک کے آس پاس ‘‘ اس سفر نامہ کا چھٹا باب ہے ۔ یہاں پر بھی موصوفہ نے اس جگہ کا تاریخی پس منظر پیش کرتے ہوئے اس مغالطہ کو دور کردیا کہ یہ میواڑ کے مہارانا پرتاپ کے نام پر نہیں بلکہ ڈوگرہ سلطنت کے تیسرے حکمران مہاراجہ پرتاپ سنگھ کے نام معنون ہے ۔پرتاپ سنگھ کا نام لیتے ہی انہوں نے ڈوگرہ حکومت کا شانِ نزول مفصل بیان کیا ہے البتہ مہاراجہ پرتاپ سنگھ کے ضمن میں موصوفہ نے اس سلطنت کی مجموعی رعایا دشمنی کے باوجود ان کے عوام پرور اقدامات کا اجمالی جائزہ پیش کیا ہے۔ پرتاپ سنگھ کے اہم اقدامات کے بارے میں مصنفہ لکھتی ہیں:
’’ مہاراجہ پرتاپ سنگھ نے اپنے چالیس سالہ دورِ حکومت (1885-1925) میں کچھ اچھے کام بھی کئے تھے ۔ مثلاً ان کا سب سے بڑا کارنامہ جہلم ویلی کارٹ روڈ بنانا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ پھر اس راستے کو کھینچ کر سرینگر تک لایا گیا۔ 1922ء میں بانیہال کارٹ روڈ کے بن جانے سے سرینگر جموں سے جُڑ گیا ۔ گلگت اور لیہہ تک جانے والا راستہ بھی اسی راجہ نے بنایا تھا ۔راجہ نے جموں سے سیالکوٹ تک جانے کی بھی راہ نکالی تھی ۔ ایک اہم کام اپنے وقت میں مہاراجہ پرتاپ سنگھ نے زمینی بندوبست کا کیا تھا۔ اس نے بیگار یعنی جبری مزدوری بند کروادی تھی ۔ لگان کا نظام درست کیا تھا اور گوکہ یہ عوام پہ ایک دوسرے قسم کے جبرکاسبب تھا لیکن شاہی خزانہ میں اضافہ ہو رہا تھا ۔ ‘‘
مصنفہ نے یوں تو اس اقتباس میں مہاراجہ پرتاپ سنگھ کے ترقیاتی کاموں کا تذکرہ ان کے عوام دوست ہونے کی غرض سے کیا ہے لیکن انہیں شاید اس بات کا علم نہیں کہ ڈوگرہ حکومت بالعموم اور مہاراجہ پرتاپ سنگھ نے بالخصوص دوردراز علاقوں تک سڑکوں کا جال اس لیے بچھا یا تھا تاکہ کشمیر کے طول و عرض پر ڈوگرہ استبداد کو مزید تقویت پہنچائی جا سکے۔ آج جب ہم مابعد نوآبادیاتی طرزِ تحقیق اور تنقید کے تحت نوآبادکاروں کی علمی، ادبی ، سیاسی اور معاشرتی منصوبہ بندیوں کا جائزہ لیتے ہیں تو ڈوگرہ مہاراجہ پرتاپ سنگھ کی ان پیش رفتوں کے پس پردہ عزائم کما حقہ ذہن میں آتے ہیں۔ سڑکوں کی تعمیر دراصل اپنے نو آبادیاتی پروجیکٹ کے استحکام کی علامت ہوتے ہیں ،اس لیے پرتاپ سنگھ نے بھی اس سمت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا ۔ اس باب میں موصوفہ نے پرتاپ پارک کے اس تاریخی پس منظر کو بیان کرنے کے علاوہ اس سے منسلک مختلف بازاروں کی دیدہ زیب دکانوں اور اُن پر خریداری کے تجربات و مشاہدات پیش کیے ہیں۔ اپنے مشاہدات کی پیش کش میں قلم کار نے اپنی ذہنی بلوغت اور وسیع عملی تجربات کی لیل و نہار کا نظارہ کرایا ہے۔
زیر تجزیہ سفر نامے کا ساتواں باب’’ پہلگام‘‘کے نام سے درجِ کتاب ہے ۔ یوں تو سفر نامہ نگار نے اس باب میں کشمیر کے نہایت ہی خوب صورت سیاحتی مقامات میں سے معروف مقام پہلگام کی سیرو سیاحت کی روداد پیش کی ہے ۔پہلگام کے بازاروںکا ذکر نہایت ہی مخلصانہ انداز میں کیا گیا ہے اور خوانچہ فروشوں کی مجبوریاں اور محرومیاں بھی قلم کارکی ہمدردی حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ بیتاب ویلی، شیخ پورہ ، چندن واڑی ، آڑو ، عشمقام جیسے مقامات پہلگام کے قرب و جوار کے اجزائے ترکیبی ہیں۔ سفرنامہ نگار پر شوقِ سفر اس قدر غالب ہے کہ وہ ہر جا کو جہانِ دیگر کے طور پر بازیافت کرنے کا جنون رکھتی ہیں۔ جس سمت بھی نکلتے ہیں بس تاحد ِ نظر علاقے کو دیکھنے کی خواہش جنم لیتی ہے۔ پہلگام کے سفرکی روداد کے دوران چندن واڑی اور بیتاب ویلی کے الگ الگ عنوانات سے انہوں نے جوتفصیلات درج کی ہیںاُن سے ایک الگ کتاب ترتیب دی جاسکتی ہے۔ انہوں نے میوہ باغات سے لے کر گھوڑسواری تک ،ریستوران سے لے کر پُر شور دریاؤں تک ہر ایک کا ذکر مزے لے لے کر کیا ہے۔ جیسا کہ پہلے مذکور ہوا ہے کہ موصوفہ نے اپنے سفر کے دوران کشمیر کی موجودہ پُر آشوب صورتِ حال کا ادراک کیا ہے اس لیے اس سفرنامہ کے ہر باب میں ان کے یہاں شعوری یا غیر شعوری طور پرہندوستان اور پاکستان کے درمیان دہائیوں کی رسہ کشی ، سیاسی راہ نماؤں کی ناعاقبت اندیشی اور کشمیر کی مسلح جد و جہد میں جاری کشت و خون کے گرم بازارکا ذکر جستہ جستہ دیکھا جاسکتا ہے۔ امسال(۸/مارچ ۲۰۱۸) جموں میں آٹھ سال کی ایک مسلمان بچی آصفہ کی ہندو شر پسندوں کے ذریعے اجتماعی عصمت دری اور قتل نے جہاں دنیا بھر کے اہلِ دل خواتین و حضرات کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے وہیں شہناز نبی نے سفرنامہ کے اس باب میں اُس مظلوم بیٹی کا تذکرہ غمناک صورت میں کیا ہے۔ وہ اگر کسی بھی موضوع پر بات کرنا چاہتی ہیں لیکن تان مسئلہ کشمیر کے کسی نہ کسی پہلو پر ہی ٹوٹتی ہے ۔قومی اور بین الاقوامی حالات و واقعات پر ان کی نظر قابل ِذکر ہے:
’’ہندوستان اور پاکستان کے درمیان لگار جھڑپیں ہوتی رہیں اور آج تک جاری ہیں ۔ جموں و کشمیر لبریشن فرٹ اور اسلاموفوبیا میں گرفتار لوگوں نے 1980کے بعد سے وادی میں غیر مسلموں کا قیام نا ممکن بنادیا ۔ ہندوستان کے اطراف میں بسے پڑوسی ممالک کا خلفشار پیدا کرنے کی کوششیں شروع ہوئیں ۔ 1980میں سویت روس کے خلاف افغانوں کا جہاد ، ایران میں اسلامی قوانین کا نفاذ ، پنجاب میں علحٰیدگی پسند طاقتوں کا فروغ اور خالصتان کا مطالبہ وغیہ ایسے واقعات ہیں جنہیں تاریخ داں ہندوستان میں پیدا ہونے والے خلفشار کا سبب مانتے ہیں ۔ ‘‘
کشمیر میں جاری جدوجہد کے حوالے سے موصوفہ کے سارے بیانات کومن وعن قبول تو نہیں کیا جا سکتا ہے تاہم ان کی معلومات حیرت ناک حد تک وسیع ہیں۔ ان کے سفر نامے کا ہر باب اپنے آپ میں ایک تحقیقی مضمون کی حیثیت رکھتا ہے جو کشمیر اور کشمیریوں سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے کسی تحفے سے کم نہیں ہے۔ اس سفرنامہ کی تحریر کے دوران انہوں نے درجنوں کتابو ں سے استفادہ کیا ہے جس کا ثبوت مختلف ابواب میں درج اُن کتب کے حوالے ہیں۔
سفر نامہ کا آٹھواں باب ’’کشمیربند ہے ‘‘ ۔ یہاں پر مصنفہ کو کشمیر کے درد و کرب اور کشمیریوں کی اجتماعی بے بسی اورلاچاری کو دیکھنے اور محسوس کرنے کا اچھا موقع ملاہے ۔ یوں تو اس باب میں شہرِ سرینگر کے مختلف علاقوں کی سیاحت کا حال درج ہے، نیز شعبۂ اُردو مرکزی جامعہ کشمیر میں ایک ادبی نشست کی کارروائی بھی اسی باب کے تحت قلم بند کی گئی ہے ۔ دراصل یہ ۲۵؍ جون ۲۰۱۸ء کے دن کی روداد ہے اور اس دن کو اہالیانِ کشمیرنے مشترکہ مزاحمتی راہ نماؤں کی اپیل پر معصوم اور بے گناہوں کے قتل ناحق کے خلاف بطور احتجاج ہڑتال کال دی۔مصنفہ نے نہایت ہی دانشوارانہ انداز و اسلوب میں انسانی جانوں کے مسلسل اتلاف پر پُر درد لہجے میں افسوس اور حسرت کو ظاہر کیااور ہند و پاک کی سیاسی قیادت اور عالمی طاقتوں کے کردار پر اتنے اور ایسے سوالات قائم کیے جن کا تعلق برراہِ راست مسئلہ کشمیر کی پیچیدگی اور انسانی جانوں کے زیاں سے ہے۔ انہوں نے عالمی سطح پر لڑے گئے جنگوں کی مثالیںدیتے ہوئے غالب و مغلوب اور کم تر و بالاتر کے آپسی تصادمات کی فلسفیانہ طور پر توجیہات پیش کی ہیں ۔ ۔
’’دانشورانِ کشمیر کے درمیان‘‘ اس سفرنامے کا نواں باب ہے جو کشمیر یونیورسٹی اور شہنشاہ پیلس میں منعقد کی گئیں مجلسوں کی روداد ہے۔جناب وحشی سعید نے ان کے اعزاز میں ایک ادبی نشست کا شاندار طریقے پر انعقاد کیا تھا جس میں پروفیسر محمد زماں ، جناب غلام نبی خیال ، جناب بشیر کرمانی، جناب نور شاہ، ڈاکٹر اشرف آثاری کے علاوہ پروفیسر شفیقہ پروین بھی موجود تھیں اور موصوفہ کی کتاب’’نظمیں ہماریاں ‘‘کی رسم ِرونمائی انجام دی گئی۔ موصوفہ اس روز یعنی ۲۶؍ جون کو کشمیر یونیورسٹی راقم الحروف کی دعوت پر تشرلیف لائیں۔ ہمارے طلبہ امتحان کی تیاریوں میں مصروف تھے، اس لیے کسی توسیعی خطبے کا باضابطہ انعقاد نہیں کیا جا سکا جو عام طورپر ہر مہمان اُستاد یا ادیب کی تشریف آوری پر کیا جاتا ہے ،البتہ نظامت فاصلاتی تعلیم میں ایک سادہ مگر بارونق شعری نشست کا اہتمام کیاگیا جس میں اُردو اسکالروںکے علاوہ چند ایک مقامی شعرا ء نے شرکت کی۔ اس نشست میں میری اہلیہ ڈاکٹر نصرت جبین (شعبۂ اُردو ،سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر)بھی شریک رہیں ،نیز میری بیٹی فاطمہ محمد بھی محظوظ ہوئی۔موصوفہ نے نہایت ہی محبت سے اس باب میں ہمارا تذکرہ کرتے ہوئے دیرینہ تعلقات کا اظہارکیا ہے جو ان کی اعلیٰ ظرفی اور ذرہ نوازی پر دال ہے۔
دراصل پروفیسر شہناز نبی سے میری شناسائی زمانۂ طالبِ علمی سے ہی ہے ۔ انہیں مختلف رسائل و جرائد کے توسط سے پڑھتا رہا، بالخصوص ان کی آزاد نظمیں اکثر ہماری ضیافت طبع کا سامان فراہم کرتی رہی ہیں۔البتہ موصوفہ کو پہلی بار میں نے حیدر آبادکے ایک سمینار میں ۲۰۰۷ء میں دیکھا جو مشہور کامریڈ شاعر مخدوم محی الدین کی حیات اور شاعری پر منعقد کیا گیا تھا۔ اس سمینار کے مہمانِ خصوصی اُس وقت کے قومی اُردو کونسل کے ناظم ڈاکٹر علی جاوید تھے ۔ چوں کہ موخرالذکر بھی مخدوم کے ہم مذہب تھے، اس لیے اس سمینار میں ہم خیالوں کا ایک اجتماع نظر آیا ۔ میں ان دنوں مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی میں پی۔ایچ۔ ڈی پر کام کام کررہا تھا ،اس لیے حیدر آباد میں اپنی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس سمینار میں شرکت کی۔ میں نے اس سمینار سے بہت سال پہلے شہناز بنی کو پڑھا تھا ،اس لیے انہیں دیکھنے اور ان سے ملاقات کی خواہش سمینارکے دن قریب آنے کے ساتھ ہی بڑھ رہی تھی۔ سمینارکی پہلی نشست کے اختتام پر جب ظہرانے کی رسم ادا کرتے ہوئے موصوفہ نے ایک کرسی پر پلیٹ ہاتھ میں لے کر تشریف رکھا تو میں موقع غنیمت جان کر ان کی داہنی طرف والی کرسی پر بیٹھ گیااور آہستہ آہستہ بلکہ مرعوب کن انداز میںانہیں سلام پیش کی ۔ موصوفہ نے میری سلام تو نہیں سُنی البتہ مجھے اپنی طرف رجوع ہوتے دیکھ کر کچھ ہڑبڑائی اور میری طرف قہر آلود نظر ڈال کراچانک اس نشست سے اٹھ کھڑی ہوئیں اور چوتھی یا پانچویں نشست پر براجمان ہوئیں۔اور یوں مجھے ان سے ملاقات کرنے ، ان کی ادبی زندگی اور ادب کے حوالے سے مخصوص نظریات بالخصوص تانیثی نقطۂ نظر کے متعلق گفتگو کرنے کی حسرت دل میں ہی دبی رہی بلکہ الٹے مجھے اپنی نادانستہ مضحکہ خیزی پر افسوس ہوا۔ مجھے آج بھی اپنی اس ادبی بے ادبی پر شرمندگی ہو رہی ہے لیکن مجھے اپنی معصومیت پر ترس بھی آرہا ہے۔ ۲۰۱۲ء میں شعبۂ اُردو ممبئی یونیورسٹی نے سردار جعفری پر دو روزہ قومی سمینار کا انعقاد کیا جس میں راقم نے بھی ’’مارکسیت ، نومارکسیت اور سردار جعفری کی تنقید نگاری‘‘ کے عنوان سے مقالہ پیش کیا۔ اس سمینار کے دوسرے دن موصوفہ کہیں سے نمودار ہوئیں اور مجھ پر مخدوم والے سمینار کی ہیبت ناکی طاری ہونے لگی، میں ڈر ڈر کے اُن کی طرف دیکھنے لگا،بات کرنا یا بات کرنے کی خواہش کرنا تو درکنار، میں نے عافیت اسی میں سمجھی کہ ان سے نظریں نہ ملیں تو بہتر !موصوفہ نے اس نشست میں مارکسی نقطہ نظر کی حمایت اور سردار جعفری کی مارکسی زندگی پر دھواں دار تقریر کرکے صرف مجھے ہی نہیں جملہ شرکائے مجلس کو مبہوت کردیا۔ مجھے ان کی بارعب شخصیت سے دور رہنے میں ہی اطمنان ہو رہا تھا۔ شام کے وقت یونیورسٹی کے مہمان خانے میں کسی نے بتایا کہ موصوفہ بھی وہیں پر قیام پذیر ہیں تو میں کچھ کہہ نہیں سکتا ہوں کہ مجھ پر کس قدر ہیبت طاری ہوگئی۔دوسرے دن مہمان خانے سے ان کو اپنے دوسرے خواتین ساتھیوں کے ہمراہ رخصت ہوتے دیکھ کر ذرا سکونِ قلب میسر آیا۔ اس کے بعد مجھے مئی ۲۰۱۵ء میں کلکتہ میںایک سمیناربعنوان ’’کرشن چندر اور بھیشم ساہنی ‘‘ میں شرکت کا موقع ملا۔اس دوران میرے شریکِ سفر ڈاکٹر محی الدین زور نے شعبۂ اُردو کلکتہ یو نیورسٹی کی زیارت کا ڈول ڈالا۔ شعبۂ اُردو پہنچ کر ڈاکٹر ندیم نے شہاز نبی صاحبہ کے بارے میں بتایا کہ وہ شعبۂ میں فی الوقت تشریف رکھتی ہیں میرے ساتھ نے شد و مد سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیالیکن میں تو یہ سن کر اندر سے سہم ہی گیا اور قیاس کرنے لگا کہ حیدر آباد اور ممبئی میں انہوں نے گھاس نہیں ڈالی بلکہ الٹے ہمیں حیدرآباد میں اپنے غضب کا نشانہ بنایا تو یہاں کلکتہ ،جو کہ ان کا گھر ہے، میں ہماری کیا حالت ہوگی؟ ان کے کمرے میں داخل ہوکر سلام بجا لایا اور ڈرتے ہوئے اپنا تعارف کرایا تو موصوفہ نے خلافِ توقع نہایت ہی ملنساری اور اپنائیت کا مظاہرہ کیا اوریوںمیرے سارے خدشات کافور ہوگئے۔ مجھے رہ رہ کر ندا فاضلی کا یہ شعر ذہن کر دستک دے رہا تھا ؎
ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا
انہوںنے محبتوں کے ساتھ ہماری ہلکی پھلکی تواضع کی ، اپنی تصانیف بالخصوص ’’تانیثیت : نظریہ اور تنقید ‘‘ سے نوازا۔ میں ان کی مقناطیسی شخصیت سے متاثر ہونے لگا اور یوں اُن سے قلم و قرطاس کا سلسلہ جاری ہوا۔ سال ۲۰۱۶ء میں انہوں نے ’’رہروانِ ادب‘‘ میں ہندوستان کی مختلف زبانوں کے افسانوں کے تراجم اُردو زبان میں شائع کرنے کا ارداہ ظاہر کرتے ہوئے مجھے کشمیری زبان کی کسی کہانی کا ترجمہ ارسال کرنے کی ذمہ داری سونپ دی۔ میں نے حکم کی تعمیل میں معروف کشمیری اور اُردو افسانہ نگار مشتاق مہدی کا افسانہ ’’مچھلی شہری کا شکاری‘‘پیش کیا۔ حالاں کہ یہ ترجمہ میں نے ساہتیہ اکادمی کے لیے ایک پروجیکٹ کے تحت کیا تھا۔غرض ان کے ساتھ رسمی اور غیر رسمی ملاتیں ہوتی رہیں اور جب ان کے کشمیر دورے کے حوالے سے اپنے اسکالر جناب اقبال افروز نے مجھے اطلاع دی تو مجھے واقعی خوشی ہوئی اور ڈاکٹر عرفان عالم کے ساتھ اُن کے اعزاز میں نشست کے اہتمام کی تیاریاں شروع کردیں۔
(بقیہ سنیچر کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)
رابطہ :ڈاکٹر الطاف انجم، نظامت فاصلاتی تعلیم ، کشمیر یونیورسٹی ، حضرت بل ۔190006موبائل : 7006425827