شہر جو قہر بن رہا ہے؟

ریاست کے اندر آبادیوں کے بے ترتیب پھیلائو کے بہ سبب جو دنیا ترتیب پا رہی ہے ، آنے والے قتوں میں وہ لوگوں کےلئے نہایت تکلیف دہ مشکلات کا سب بن کر سامنےآ سکتی ہے، کیونکہ ان بستیوں کو کسی منصوبے سے ماوریٰ ہو کر آباد کیا جاتا ہے، جن میں نہ تو بنیادی شہری سہولیات موجودومیسر ہوتی ہیں اور نہ ہی انکے فروغ کی کوئی گنجائش ۔ریاست کا گرمائی دارالحکومت سرینگر جس سرعت لیکن بے ترتیبی کے ساتھ پھیل رہا ہے اس رفتار کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا غلط نہیں ہوگا کہ آنے والے ایام میں اس شہر ، جو کبھی اپنی خوبصورتی اور صاف و شفاف آب و ہوا کی وجہ سے دنیا کے خوبصورت ترین شہرو ں میں شمار ہوتا تھا، کا غلیظ ترین شہروں کی فہرست میں شامل ہونے کا اندیشہ ہے۔ایسا نہیں ہے کہ حکومت نے وقت وقت پر منصوبے مرتب نہیں کئے ہوں بلکہ سرینگر کےلئے ایک ماسٹر پلان ضرور موجود ہے ، لیکن جب عملی سطح پر دیکھا جاتا ہے تو یہ منصوبے کاغذی گھوڑوںکے سوا کچھ نہیںلگتے ، کیونکہ بے ترتیب بستیوں کے پھیلائو میں مفاد خصوصی  رکھنےوالے عناصر کو ان ہی سرکاری اداروں کی جانب سے تعاون اور اعانت میسر ہوتا ہے، جو ان منصوبوں کے نفاذ کےلئے ذمہ دار ہیں۔ خواہ وہ سرینگر میونسپل کارپوریشن ہو ، سرینگر ڈیولپمنٹ اتھارٹی ہو یا لاوڈا، سبھی ادارے کسی نہ کسی سطح پر اس کھلم کھلا جنگل راج کےلئے ذمہ دار ہیں۔ حکام شاید اس بات سے اختلاف نہیں کرینگے کہ دلالوں کے حلقوں، جو عرف عام میں اب لینڈ مافیا کے نام سے موسوم  ہیں، اور حکمرانوں کے مابین مضبوط رشتے اور تعلقات ہوتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر دونوں ایک دوسرے کےلئے پشتی بان ثابت ہوئے ہیں، لہٰذا اگر یہ کہا جائے کہ مشترکہ مفاد بروئے کار لا نے کےلئے منظور شدہ پالیسیوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے تو شاید غلط نہ ہوگا۔ترقی کے نام پر ایسے بے ہنگم تعمیری عمل سےکشمیر کو دوہرے نقصان سے دو چار ہونا پڑا ہے۔ ایک طرف اقتصادی خود کفالت کے بنیادی ذریعہ زرعی اراضی، جو صدیوں تک کشمیری عوام کی حریت فکر کا مسلمہ و  سیلہ رہی ہے، کو ان  بے ترتیب و گنجلگ بستیوں کے جنگل کی تشکیل کی بھینٹ چڑھا کر معیشی انحصار کے سیاہ ابواب تحریر کئے گئے تو دوسری جانب شہری منصوبہ بندی کے قواعد و اصولوں کو روند ھ کر ایک ایسے رجحان کو فروغ دیا گیا، جو لوگوں کے خون پسینے کی کمائی کو مٹی میں ملانے کا سبب بنا ہے۔ اس بات کا ذکر دلچسپی سے شاید خالی نہیں ہوگا کہ اس سیکٹر میں سرمایہ کاری کے مقامی سطح پر بہت ہی قلیل فوائد حاصل ہوتے ہیں کیونکہ تعمیری سرگرمیوں میں کام آنے والا بیش تر سازو سامان بیرون ریاست سے آتا ہے، حتاکہ اب اس میں کام آنے والے انسان وسائل کےلئے بھی ہمسایہ ریاستوں پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے۔ اس ساری صورتحال کےلئے اگر چہ عام لوگوں کو بری الزمہ قرار نہیں دیا  جاسکتا لیکن بہ  ایں ہمہ منصوبہ بندعمل آوری کےلئے حکومت ہی ذمہ دار ہے۔ شہر سرینگر گزشتہ چند دہائیوں سے جس تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے، اُس کے نتیجہ میں شہر کے مضافات میں واقع زیر یں سطح کی زمینیں، جو تاریخی اعتبار سے زائیدپانی کو سنبھالنے کا کام دے کر بالائی بستیوں کو سیلاب جیسی ایمر جنسیوں میں بچانے کا سبب بنتی تھیں، آج کنکریٹ کے جنگلوں میں تبدیل ہوگئی ہیں، یہی وجہ ہے کہ 2014کے تباہ کن سیلاب کے بعد کم و بیش ایک سال تک ان بستیوں کے اند رکسی نہ کسی طور پانی کی سطح بلند رہی، جس سے وہاں کے باسیوں کو بے بیان مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ ایسا کیوںہوا ہے، اس کا جواب سر کار اور سرکاری اداروں کو تلاش کرنا چاہئے ۔اب جبکہ مرکزی حکومت نےا س شہر کو سمارٹ سٹیوں کی فہرست میں شامل کرلیا ہے، لہٰذا اس کی ترتیب و تعمیر پرویسی ہی توجہ دینے کی ضرورت ہے، جو جدید ترقیاتی مواقع کے فقدان کے باوجود صدیوں قبل اسکی ترتیب کا سبب بنا ہے۔ وگرنہ اگر فکر و سوچ اور طریقۂ کا روہی رہا جو ماضی میں منتخب سیاسی حکومتوں کے دوران رہا ہے اور جن میں مختلف اقسام کے مافیا سیاسی سرپرستیوں کے توسط سے متوازن اور منضبط شہر کو تہہ و بالا کر کے رکھنے میںمصروف رہے ہیں، تو پھر کسی بہتری کی توقع رکھنا عبث ہے۔ آج کی تاریخ میں شہری تعمیرات سے متعلق سرکاری صیغوں کےلئے سرینگر ماسٹر پلان پر عمل آوری بنیادی ترجیح ہونی چاہئے۔ کیونکہ جس پیمانے پر تباہی ہو چکی ہے، اُسکا صد فی صد ازالہ تو ممکن نہیں ہے۔ لیکن مستقبل کو بربادی کے سیلاب بے پیکران سے محفوظ کرنے کی سنجیدہ کوشش کی جاسکتی ہے اور اسکی ضرورت ہے۔ ورنہ آنے والے ایام میں یہ شہر جونپڑپٹیوں کی ایک ایسی  بدنما د نیا میں تبدیل ہوگا، جہاں نہ سڑکیں ہونگی نہ نکاسی آب کا بندوبست ، نہ کھلی دھوپ اور نہ  ضرورت کے مطابق ہوا  اور نہ ہی ایمرجنسی کا سامنا کرنے کی صلاحیت میسر ہوگی اور ان بستیوں کے اندر انسانوں کے نام پر رینگتے سایوں کے مجموعے ہونگے۔لہٰذا گزری دہائیوں میں پیدا شدہ خامیوں کو  دور کرنے کی سنجیدہ کوشش کرنے کی ضرورت ہے، جس کے لئے دلالوں اور لینڈ مافیا کے اثر و نفوذ کو ذائیل کرنا بنیادی اہمیت کا حامل ہے ۔اگر حکام آوارہ لہروں پر تیر رہی اس بے سمت کشتی کوکو ئی سمت عطا کرکے کنارے لگانے میں کامیاب ہوتے ہیں تو یہ قوم کے تئیں انکی ایک ناقابل فراموش خدمت ہوگی اور ظاہر ہے سنجیدہ فکر اور مخلص عوام ایسے کام میں تعاون فراہم کرنے میں کبھی بھی بخل سے کام نہیں لیتے۔