اور دنیا سے بھلائی کا صلہ کیا ملتا
آئینہ میں نے دکھایا تھا کہ پتھر برسے
شاعری قافیہ پیمائی کی ریاضت نہیںبلکہ معنی آفرینی کی سخاوت ہے۔حسن وعشق کا ماتمی واویلہ نہیں بلکہ حسن وعشق کا روحانی جنون ہے۔دماغ کا انتشار نہیں بلکہ دل کا سکون ہے۔ذوق وشوق کی سونامی ہے‘ دل و دماغ کا طوفان ہے۔ اگر شاعری کا یہ فنی نقار خانہ دیکھنا ہوتو دوسرے کئی اہم شعراء کے ساتھ ساتھ شکیب جلالی ( 1934-1966)کامجموعہ کلام’’ روشنی اے روشنی‘‘ یا کلیات پڑھیں۔اس میں آمدکی روشنی بھی نظر آئے گی اور معنی آفرینی کی سخاوت بھی۔ حسن وعشق کا روحانی جنون بھی رقص کرتا دکھائی دے گا اور ذوق و شوق کی سونامی کا محشر بھی۔ اور شعری جمالیات کے پیش نظر انسان شاعری کے جمالیاتی احساس (Aestheticfeeling) سے آگاہ ہونے کے ساتھ ساتھ محظوظ بھی ہوجائے گا ۔کیونکہ اس میں شاعر نے دل کے زہر سے الفاظ ومعنی کو رنگین بنا دیا ہے :
جو دل کا زہر تھا کاغذ پہ سب بکھیر دیا
پھر اپنے آپ طبیعت مری سنبھلنے لگی
شکیب جلالی بتیس برس کی عمر میں یکم اکتوبر ۱۹۶۶ء کو وفات پا گئے ۔اتنی کم عمر میں ‘یعنی جب کچھ لوگ لکھنا شروع کردیتے ہیں ‘بھی انہوں نے مشہور انگریزی شاعرجان کیٹس( عمرپچیس برس )کی طرح اتنی شاندار شاعری کی کہ کئی لوگوں کے درجنوں شعری مجموعے یا کلیات و دیوان بھی ایسی مقبولیت سے محروم رہے ہیں ۔اس کی وجہ کیا ہے ۔ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شاعری دماغ کا کھیل نہیں بلکہ دل کا رقص ہے اور یہ رقص شعرکے لفظی گھنگرو ںسے مل کر قاری یا سامع کے دل و دماغ پر وجدانی اثر(Intutional effect)ڈالتا ہے ‘پھر قاری یا سامع دیر تک شعر کے سحر میں آنکھیں بند کرکے سردھنتا رہتا ہے۔اسی لئے تخلیقی عمل کو خود کار عمل (Autonomous process) بھی کہا جاتا ہے۔جیسا کہ کیٹس(Keats) بھی تجربے کی بنیاد پر کہتا ہے:
''If poetry comes not as naturally as the leaves to a tree;it had better not come at all.''
’’ اگر شاعری پیڑ کی پتیوں کی طرح فطری طور پر اُگ نہ آئے تو پھر فضول قسم کی تُک بندی سے بچنا ہی چاہئے۔‘‘
شکیب جلالی بھی اپنے انداز میں کیٹس کی طرح تخلیقی عمل کو پیڑ کے زخم سے کونپلیں نکلنے کی مثل دلنشیں شعری پیرائیہ میں شعری اظہار کے تعلق سے فرماتے ہیں:
جہاںشجر پہ لگا تھا تبر کا زخم شکیبؔ
وہیں پہ دیکھ لے ‘ کونپل نئی نکلنے لگی
شعر کی معنوی گہرائی پر غور کریں تو دل کے شجر پر جب ستم حیات کا زخم لگتا ہے پھرحساس تخلیق کار کے دماغ سے غم انگیز خیالات کی کونپلیں پھوٹتی ہیں اور وہ تخلیقی پیکر میں بقول میر تقی میر ’’ جہاں سے دیکھے اک شعر شور انگیز نکلے ہے۔‘‘کی مثل لفظوں کی صورت اختیار کرجاتی ہیں۔ جب اس قسم کی کیفیت شاعر پر طاری ہوجاتی ہے توزبان کی خاموشی بھی سناٹے میں کہرام برپا کرتی ہے‘جیسے شکیب فرماتے ہیں:
خموشی بول اٹھے ہر نظر پیغام ہوجائے
یہ سناٹا اگر حد سے بڑھے کہرام ہوجائے
شکیب جلالی کے پسندیدہ شعروں میں ایک شعر باربار گنگنانے کو دل چاہتا ہے:
تونے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں
آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتے بھی دیکھ
موضوع کو چھوڑ کر یہ شعر یاد آتے ہی مراکش کے شاعر عبدالرحمن شاکری کا خوبصورت شعر بھی ذہن میں گردش کرتا رہتا ہے :
وماالدھرالاالبحرالموت
عاصف علیہ و اعمار الانام سفین
(زمانہ سمندر ہے ‘ موت طوفان ہے اور لوگوں کی عمر کشتیاں ہیں)
شکیب جلالی کی شاعری میں رنگ وآہنگ کا ایسا فطری جمال و جلال نظر آتا ہے کہ قاری یا سامع پڑھنے یا سننے کے دوران شعری لمس کی وجدانی کیفیت میں مسحور ہوکر سر دھننے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔سردست درج ذیل اشعار سے ہی لطف اندوز ہوجائیں باقی مضمون پورا ہونے کے بعد۔؎
پہلے تو میری یاد سے آئی حیا انہیں
پھر آئینے میں چوم لیا اپنے آپ کو
یہ ایک ابر کا ٹکڑا کہاں کہاں برسے
تمام دشت ہی پیاسا دکھائی دیتا ہے
شکیب اپنے تعارف کے لئے یہ بات کافی ہے
ہم اُس سے بچ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہوجائے
چو ما ہے میرا نام لبِ سرخ نے شکیب
یا پھول رکھ دیا ہے کسی نے کتاب میں
آج بھی شاید کوئی پھولوں کا تحفہ بھیج دے
تتلیاں منڈلا رہی ہیں کانچ کے گلدان پر
خوددار ہوں کیوں آئوں درِ اہلِ کرم پر
کھیتی کبھی خود چل کے گھٹا تک نہیں آتی
ضرب ِ خیال سے کہاں ٹوٹ سکیں گی بیڑیاں
فکرِ چمن کے ہم رکاب جوشِ جنوں بھی چاہئے
��
رابطہ؛وڈی پورہ، ہندوارہ، کشمیر
موبائل نمبر؛7006544358