مظفر حسین بیگ ۔ گلمرگ
5ستمبر ملک بھر میں یوم اساتذہ منایا جاتا ہے اور اس دن استاد کی عظمت،رفعت اور اہمیت کو اجاگر کرکے مختلف تحائف سے انھیں نوازا جاتاہے تاکہ ہندوستان کے سابق صدر جمہوریہ اور ماہر تعلیم ڈاکٹر سروپلی رادھا کرشنن کی اس خواہش کو زندہ و جاوید رکھا جائے کہ میری یوم پیدائش کے بدلے یوم اساتذہ منایا جائے۔جی ہاں!1962ء میں جب وہ صدر ہند منتخب ہوئے تو ان کے شاگردوں اور دوستوں نے ان سے یوم پیدائش منانے کی درخواست کی تو انھوں نے کہا کہ میری پیدائش کے دن کو اگر یوم اساتذہ کے طور منایا جائے تو ان کو زیادہ خوشی ہوگی ۔ان کی اس خواہش کا احترام کرتے ہوئے 5 ستمبر کو یوم اساتذہ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے
سروپلی ڈاکٹر رادھا کرشنن نے 13 مئی 1962 سے 12 مئی 1967ء تک ہندوستان کے دوسرے صدر کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دئیے ۔وہ صرف ایک سیاستدان اور معلم ہی نہیں تھے بلکہ وہ ایک عظیم مفکر تعلیم بھی تھے وہ چالیس سال تک تعلیمی سرگرمیوں سے جُڑے رہے ۔غور کیجئے کہ کس طرح سے ایک معلم ملک کے سب سے اعلیٰ منصب پر فائز ہوئےاور بعد میں اساتذہ کی کارناموں سے یہ روایت آگے چلتی رہی، جس کا جیتا جاگتا ثبوت ہمیں ڈاکٹر ذاکر حسین ،ڈاکٹر سنکر دیال اور عبدالکلام جیسے اساتذہ کو بعد میں اُن ہی عہدوں پر مامور کیا گیا ۔ صاف ظاہر ہوتا ہےکہ اساتذہ نے ہمیشہ اپنا لوہا منوا کے سماج میں اپنی الگ ہی پہچان بناکے رکھی تھی، جس کی عظمت کا اعتراف دنیا کے مختلف مذاہب اور دانشوروں نے کیا ہے۔ رب ذوالجلال خود سب سے پہلے اور بڑے معلم ہیں ۔ارشاد ربانی ہے( ترجمہ و مفہوم )’’ پڑھ‘‘ ۔تیرا رب بہت بزرگی والا ہے جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا اور انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں حضوؐر کو بحیثیت معلم بیان کیا اور خود نبی کریمؐ نے بھی ارشاد فرمایا کہ ’’مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے‘‘۔ حضرت عمر فاروقؓ سے پوچھا گیا کہ اتنی بڑی اسلامی مملکت کے خلیفہ ہونے کے باوجود ان کے دل میں کوئی حسرت ہے، تو آپؓ نے فرمایا کہ ’’کاش میں ایک معلم ہوتا‘‘ استاد کی عظمت و اہمیت اور معاشرے میں اس کے کردار پر علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ کہتے ہیں کہ ’’ استاد دراصل قوم کے محافظ ہیں، آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک کی خدمت کے قابل بنانا انہیں کے سپرد ہے۔سکندر اعظم اپنے استاد ارسطو کی تعریف میں یہ الفاظ کہا کرتے تھے ۔’’ارسطو رہے گا تو ہزاروں سکندر تیار ہوجائیں گے مگر ہزاروں سکندر مل کر ایک ارسطو کو جنم نہیں دے سکتے،وہ مزید کہتا تھا کہ میرا باپ وہ بزرگ ہے جو مجھے آسمان سے زمین پر لایامگرمیرا استاد وہ عظیم بزرگ ہے جو مجھے زمین سے آسمان پر لے گیا۔‘‘اسی طرح سے حضرت علی ؓکا فرمان ہے کہ جس شخص سے میں نے ایک لفظ بھی پڑھا میں اس کا غلام ہوں چاہیے وہ مجھے بیج دے یا آزاد کردے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم نے بھی استاد کی قدر کی وہ دنیا بھر میں سرفراز ہوئی۔ امریکہ، برطانیہ، جاپان، فرانس، ملائیشیا، اٹلی چین ، سمیت تمام ترقی یافتہ ممالک میں جو عزت اور مرتبہ استاد کو حاصل ہے، وہ ان ممالک کے صدور اور وزرائے اعظم کو بھی نہیں دیا جاتا، کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ استاد مینارِ نور ہے، جو اندھیرے میں ہمیں راہ دکھلاتا ہے۔چین کا معاملہ یہ ہے کہ وہاں کی اکثریت اپنے بچوں کو مستقبل میں استاد کے روپ میں دیکھانا چاہتے ہیں مگر اس کے برعکس دور جدید میں اس پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے ،نظام تعلیم میں کسی اصلاح سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ استاد اور شاگرد کے رشتے میں آج بگاڑ کیوں پیدا ہوا ہے اور ایک معاشرے میں اس نے اپنا مقام کیوں کھویا ہے، شاید استاد آج کل کے نفاسا نفسی کے دور میں صرف اپنی ذات کے گرد گردش کرتا رہتا ہے جس سے دن بہ دن اس کے مقام اور وقار خود اپنے ہاتھوں سے تذلیل ہوتی جارہی ہے۔ آج کل نظام تعلیم خریدوفروخت اور تجارت کی صورت اختیار کرچکا ہے ۔ استاد معاشرہ کا وہ حصہ ہے جہاں اخلاقی اقدار کو بام عروج نصیب ہوتا ہے۔ مگر افسوس آج کا استاد (استثنیٰ کے ساتھ) مادیت میں اس قدر کھو چکا ہے کہ اس کے نزدیک پیشہ معلمی کا مطلب صرف نوکری، سکیل، ترقی، ٹیویشن، من پسند جگہ پر تعیناتی اور پیسہ ہی رہ گیا ہے۔ تعلیمی اداروں خاص طور پر سرکاری اداروں میں طلبہ کی تعلیم و تربیت اساتذہ کی ترجیح ہی نہیں رہی۔ سرکار کی پابندی سے پہلے بہت سارے اساتذہ کی تمام تر توجہ ٹیوشن سنٹرز کی جانب ہوتی تھی۔یہ سوچے بغیر کہ بہت سارے والدین اپنے بچوں کو ٹیوشن پڑھانے کی سکت ہی نہیں رکھتے۔ آج استاد طالب علم کو اپنی روحانی اولاد نہیں بلکہ صرف ایک بزنس پوائنٹ سمجھتا ہے۔ امام ابو حنیفہؒ سے ان کے عزیز شاگرد امام ابو یوسف نے پوچھا استاد کیسا ہوتا ہے؟ فرمایا ’’استاد جب بچوں کو پڑھا رہا ہو تو غور سے دیکھو، اگر ایسے پڑھا رہا ہو جیسے اپنے بچوں کو پڑھاتا ہے تو استاد ہے اگر لوگوں کے بچے سمجھ کر پڑھا رہا ہے تو استاد نہیں ہے‘‘۔
دور جدید میں اساتذہ میں مطالعے کا فقدان دیکھنے کو ملتا ہے جبکہ اس پیشے سے وابستہ افراد کو کتاب ہی وراثت میں ملی تھی ایک مثالی استاد کھبی یہ نہیں سمجھتا کہ اس نے بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کی ہے بلکہ وہ اپنا علمی سفر جاری رکھتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ انسان کو علم میں بہت کم حصہ ملا ہے یہی وجہ ہے کہ علم اور حصول علم کے لیے حضورؐ، ربّ سے دعا گو ہوتے تھے کہ’’ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا‘‘۔ اے اللہ میرے علم میں اضافہ فرما۔بقول یوسف القرضاوی ،جو دن اور رات میں 250 صفحات کا مطالعہ نہیں کرتا وہ جوان ہی نہیں۔آج کے اساتذہ صاحبان سکول میں کتنا وقت گپ شپ میں صرف کرتے ہیں اور کتنا وقت مطالعے میں ۔اس کا اندازہ بخوبی اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ چنار کتابی میلے میں سرکاری اساتذہ کی شرکت ایک فیصد بھی نہیں تھی۔ماناکہ اساتذہ کے کچھ مسائل ابھی تک سرکار کے پاس زیر التوا ہوسکتے ہیں اصولی طور جہاں مسائل ہوں ،وہاں کوئی نہ کوئی حل بھی لازماً ہوتا ہے ۔ مگر بحیثیت معمار قوم جو امانت ایک استاد کے ہاتھ میں سپرد کی گئی ہے اور جو امیدیں اور توقعات ان کے ساتھ وابستہ ہیں وہ متاثر ہوتی جارہی ہے ۔آئے روز اخباروں اور سوشل میڈیا میں تلخ حقائق سرخیوں سے بھی دل برداشتہ ہوتاہے۔ والدین کا دن بہ دن اعتبار سرکاری سکولوں سے کیوں اٹھتا جارہاہے اور ان کی ترجیحات نجی تعلیمی ادارے کیوں ٹھہرے۔ مانا کہ سرکاری سکولوں میں بچوں کے پاس وردی،قلم،کاپیوں اور دیگر ضروریات کا کسی حدتک فقدان ہوسکتا ہے لیکن سرکاری سکولوں میں اب وسائل کی کمی بھی نہیں ہے۔جبکہ ہمارے اساتذہ بھی آج اچھی خاصی تنخواہیں لے رہے ہیں مگر دل کی تنگ دامنی نے ان کے ضمیر کو قید وبند کرکے رکھا ہے،کاش وہ غریب طلبہ کو اپنا انگ سمجھ کر ان کے اخراجات پر اپنی آمدنی کا کچھ حصہ خرچ کرنے کو گوارہ کرتے۔ یہاں کے سرکاری سکولوں کی ابتر صورتحال باشعور اساتذہ کرام سے یہی تقاضا کرتی ہے کہ وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوے ہر ایک استاد نادار طلبہ وطالبات کے تعلیمی اخراجات پر کچھ نہ کچھ صرف کرنے کا کلچر اپنائیں ۔اس سے کسی حد تک اسکولوں کی صورت حال کو تبدیل کیا جاسکتا ہے اور طلباء اور اساتذہ میں بہترین رشتہ قائم ہوسکتا ہے، انہی انسانی کاوشوں کی وجہ سے سرکاری اساتذہ آج کے دور میں معماران قوم کہلاسکتے ہیں۔ ورنہ بقول اقبال
شکایت ہے مجھے یا رب! خداوندانِ مکتب سے
سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا
[email protected]