جغرافیائی اعتبار سے قصبہ شوپیان وادئ کشمیر کے جنوب مغربی گوشے میں آباد ہے۔ اس کی قدرتی اور تاریخی اہمیت مسلّمہ ہے۔ مگر یہ حقیت نہایت ہی افسوناک ہے کہ اس خوبصورت اور بارونق قصبے کی کوئی مستند تاریخ موجود نہیں ہے۔ البتہ آثار و قرائن سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ قصبہ زمانہ قدیم سے یہاں آباد ہے۔ اپنے محل و قوع کے لحاظ سے یہ قصبہ وادئ کشمیر کا دروازہ رہا ہے۔ کشمیر کو پنجاب سے ملانے والا واحد راستہ شوپیان سے ہو کر گزرتا تھا جو زمانہ دراز تک وادئ کشمیر کو بیرونی دنیا سے ملانے کا واحد ذریعہ تھا۔ اب اسی راستے کو متبادل شاہراہ کا درجہ دیا جا رہا ہے جو مغل روڑ کے نام سے موسوم ہے اور ابھی تعمیر و تکمیل کے مراحل میں ہے۔ یہ راستہ شوپیان سے آگے مغرب کی جانب درّہ پیر پنچال سے گذرتا ہوا ضلع پونچھ اور راجوری سے ہوتا ہوا جموں تک جاتا ہے۔ برصغیر کی تقسیم سے پہلے یہ راستہ علاقہ بھمبھر سے ہوکر لاہور تک جاتا تھا۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد اس شاہراہ کا رُخ بدل گیا۔ آزادی سے قبل یہ راستہ شاہراہ نمک کے نام سے بھی مشہور تھا۔ اسے مغل روڈ اس لیے کہا گیا کہ مغل بادشاہوں نے اس راستے کی طرف خاصی توجہ دی اور اسے عبورومرور کے لیے آسان تر بنا دیا۔ زمانہ قدیم سے کشمیر میں ضروریات کی ساری چیزیں خصوصاً نمک اور غلّہ اسی راستہ سے د ر آمد کیا جاتا تھا۔ بیرونی حملہ آور فوجیں بھی اسی راستے سے وادی میں داخل ہوتی تھیں۔ شوپیان سے منسلک وادی رنبی آرہ بڑی بڑی لڑائیوں اور جنگوں کا اکھاڑہ رہی ہے۔ تاریخ کے مطابق مغل شہنشاہ اکبر اسی راستے سے کشمیر میں داخل ہوا تھا۔ اس کے بعد اس کا جانشین شہنشاہ جہانگیر اسی راستے سے کشمیر آتا رہا۔ حتٰی کہ آخری بار کشمیر سے واپس لوٹتے ہوئے اسی راستے کے ایک مشہور پڑاو بہرام گلہّہ کے مقام پر اس کی موت واقع ہوئی۔ جہاں سے ملکہ نورجہاں نے اس کی لاش لاہور لیجا کر دفن کروائی۔ مغل بادشاہ شاہِ جہاں کے عہد کےسلطنت میں اس کے ایک صوبیدار ( گورنر) علی مردان خان نے شاہراہِ نمک کی مرن کروائی اور سرینگر سے لاہور تک ہر اہم پڑاؤ پر ایک پختہ سرائے تعمیر کروائی۔ ان میں سے اکثر سرائیں اب تک موجود اور قابل استعمال ہیں، جو عہد مغلیہ کی شان و شوکت اور ذوق تعمیر کی گواہی دے رہی ہیں۔ افسوس کہ ان میں سے بیشتر سرائیں اہل زمانہ کی ناقدری کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کر کھنڈربن چکی ہیں۔ مغلوں کی آمد سے بہت پہلے غالباً شہمیری سلاطین کے دور میں ( یا اس سے بھی پہلے؟) قصبہ شوپیان کے قلب میں ایک بلند جگہ پر ایک قلعہ تعمیر کیا گیا تھا۔ جس موجودگی کی شہادت اس بات سے ملتی ہے کہ اس قطعہ زمین کو آج بھی قلعہ باغ کے نام سے جاتا جاتا ہے۔ اگر چہ اس قلعہ کے کوئی آثار اب موجود نہیں ہیں تاہم اس جگہ کے محل وقوع کو دیکھتے ہوئے یہاں قلعہ کی موجودگی قرین قیاس معلوم ہوتی ہے۔ اس قطعہ زمین کے ایک حصہ میں گذشتہ ڈیڑھ دوسال سے ایک پولیس چوکی قائم ہے ۔ جو اب پولیس شٹیشن کا درجہ حاصل کرچکی ہے۔ اس کے متصل اسی رقبہ کے ایک حصے میں ٹاول ہال ایک پارک اور ہسپتال کمپلیکس کی عمارات موجود ہیں۔ تاریخ کے اوراق سے پتہ چلتا ہے کہ جب اکبر کی فوجیں راجہ بھگوان داس کی سربراہی میں کشمیر پر حملہ آور ہوئیں تو انہیں کشمیریوں کے مقابلہ میں ہزیمت اٹھانا پڑی۔ راجہ بھگوان داس نے سلطان یوسف شاہ چک ( کشمیر کے آخری تاجدار) اسے اس شرط پر صلح کرلی کہ وہ اکبر کے دربار میں حاضری دے اور اس کا باجگزار بن کر کشمیر کا حکمران بنا رہے۔ یوسف شاہ چک نے شرط مان لی اور دھوکہ کھا گیا۔ اکبر یوسف چک کو گرفتار کرکے جلاوطن کردیا اور اپنے ایک سپہ سالار قاسم خان میر بحر کو کشمیر پر قبضہ کرنے کے لیے بھیجا۔ قاسم خان جب کشمیر میں داخل ہو اتو اپنی فوجوں سمیت قلعہ شوپیان میں رات گزاری اور اگلے روز سرینگر روانہ ہوا۔ اس طرح کشمیر، جو ایک خود مختار ملک تھا۔ ہمیشہ کے لیے اپنی خودمختار آزادی اور انفرادی حیثیت سے محروم ہوکر برصغیر ہند کا ایک بے وقعت صوبہ بن گیا۔ یہ 1686ء کا واقعہ ہے
ماضی قریب میں علاقہ شوپیان شہرہ آفاق عنبری سیب کی پیداوار کے لیے دنیا بھرمیں مشہور تھا۔ عنبری سیب ایک نہایت ہی خوش رنگ، خوش ذائقہ اور خوشبودار میوہ ہے۔ غالباً اس کی خوشگوار مہک کی وجہ سے اس مُشک عنبر سے نسبت دی گئی ہے کہ اس کی خوشبو مُشکِ عنبر سے ملتی جلتی ہے۔ افسوس کہ افسوس کہ پیسے کی ہوس اور تاجرانہ ذہنیت کا ثبوت دیتے ہوئے اہل وطن نے اس بے بدل چیز کو فراموش کردیا، جس کے نتیجے میں یہ بے مثال نعمت اب ناپید ہوچکی ہے۔ خطہ شوپیان کی سرزمین اعلیٰ اقسام کے میوہ جات کی کاشت کے لیےانتہائی مناسب اور موزون ہے۔ اگر چہ نسبتاً سرد موسم کی وجہ سے یہاں کی فضا اناج کی پیدوار کے لیے سازگار نہیں ہے۔ اس موسمیاتی ناموافقت کی وجہ سے اب یہاں کے باشندوں نے اناج کی کاشت کو ترک کردیا ہے۔ اس طرح اب اس علاقہ کی ساری قابل کاشت زمین میوے کی پیداوار کے لیے وقف ہے۔ شوپیان کے سیب ، ناشپاتیاں، اخروٹ بادام اور آلوچے درجہ اوّل کے مانے جاتے ہیں۔ اس لیے شوپیان اور اسکے مضافات میں رہنے والے لوگوں کا خاص پیشہ میوے کی افزئش اور تجارت ہے۔ تقریباً اسی فیصد لوگ میوے کی کاشت یا اس کی تجارت سے وابستہ ہیں۔ باقی ماندہ آبادی ملازمت ، دکانداری اور دستکاری سے وابستہ ہے۔
اس پورے خطے کی 95 فیصد آبادی مسلمان ہے۔ غیر مسلم کشمیری پنڈتوں اور سکھوں پر مشتمل ہے۔ بالائی جنگلات اور کریوہ جات میں گوجر بستیاں آباد ہیں۔
نالہ رنبی آرہ یہاں کا مشہور دریا ہے جو دراصل ایک برساتی نالہ ہے مگر کہستان جھلیوں چشموں اور پہاڑوں پر دیر تک موجود رہنے والی برف کی بدولت اس نالے میں سال بھر پانی رہتا ہے۔ اس لیے آبیاشی کے لیے اس نالے سے بہت ساری نہریں نکالی گئی ہیں۔ لارکول ، سنگو، وِہج اور ناٹوؔ ایسی مشہور نہریں زین العابدین بڈشاہ کے زمانے سے لاکھوں ایکٹر زمین کو سیراب کرتی چلی آرہی ہیں۔
شوپیان کو اگر مسجدوں کا شہر کہا جائے تو بے جانہ ہوگا۔ اس قصبے کو باب الاِسلام بھی کہا گیا ہے۔ اس لئے کہ کشمیر میں اسلام کےعظیم مبلغ و موسس حضرات امیر کبیر سیدعلی ہمدانیؒ اسی راستے سے تشریف آور ہوئے تھے اور وادی میں بڑے پیمانہ پر اسلام کی تبلیغ و ترویج شروع کردی۔ انہیں کے حسب ارشاد پہلی مسجد چوگام شوپیان میں دوسری علیا لپورہ میں اور تیسری مسجد بٹہ پورہ میں تعمیر کی گئی تھی۔ یہ تینوں مساجد اب تک اپنی اصلی جگہوں پر موجود اور اُن کے نام نامی سے منسوب ہیں۔ اغلب ہے کہ جامع مسجد شوپیان کی اولین بنیاد بھی انہیں کے مبارک ہاتھوں ڈالی گئی تھی جو بعد میں سلطان زین العابدین بڈشاہ نے توسیع کے ساتھ تعمیر کروائی اور بعد کے ادوار میں باداؤد خاکیؒ نے بھی اس کی تعمیر و توسیع میں حصہ لیا تھا۔ اس جامع مسجد کی موجود تعمیر کا کام 1938ء میں رئیس دربگام خواجہ محمد اکبر ڈار کی تحریک پر شروع کیا گیا اور اس کار خیر میں مولانا حسن شاہ صاحب شوپیان مولوی عبداللہ شاہ صاحب شوپیان اور مولوی احد اللہ کے علاوہ قصبہ شوپیان کے تمام چھوٹے بڑے بزرگوں اور عوام نے حصہ لیا تھا۔ اب سے تیس پنتیس سال پہلے اس کی تعمیر مکمل ہوئی۔ یہ مسجد کشمیری طرز تعمیر کا ایک دلاویز نمونہ ہے۔ رقبے اور حجم کے اعتبار سے یہ مسجد ریاست جموں و کشمیر میں دوسرے نمبر پر پے۔ پہلا نمبر جامع مسجد سرینگر کا ہے۔
شوپیان کے مقامات مقدسہ میں ان مساجد کے علاوہ آستانہ عالیہ حضرت بہاءالدین گنج بخش آراہامہ اور آثار شریف حضرتبل پنجورہ مرجع خلائق ہیں۔ شوپیان کے نواح میں ہندوؤں کا قدیم تاریخ تیرتھ استھان کپالموچن دیگام ناگہ بل کے مقام پر موجود ہے جو سارے شمالی ہندوستان میں شِواستھاپن ک طورپر مشہور ہے۔ اس کا ذکر قدیم تاریخ کے اواراق میں ملتا ہے۔ ان تواریخی کتب میں نیل مت پران، راج ترنگنی ، تاریخ حسن اور گلدستہ کشمیر ایسی کتابیں ہیں جن میں کپالموچن استھاپن کا ذکر موجود ہے۔ کشمیر زبان کی قدیم لوک کہانی " ہی مال ناگراے" کے دو اہم اور مشہور کرداروں ماؔل اور ناگراے دونوں کے نام سے منسوب دو چشمے شوپیان کے نواح میں موجود ہیں۔ چشمہ ہی مال بلہ پورہ کے مقام پر نالہ رنبی آرہ کے مغربی کنارے پر ہے اور ناگراے کا چشمہ رنبی آرہ کے مشرقی کنارے پر سوفن نامن کے مقام پر ہے۔ دونوں چشمے ایک دوسرے کے مد مقابل واقع ہیں۔
شوپیان کے مضافات میں بے شمار صحت افزا اور قابل دید مقامات ہیں۔ ان میں سب سے مشہور جگہ آبشار اہرہ بل ہے جو شمالی بھارت کا واحد بڑا آبشار ہے اور امریکہ کے عظیم آبشار نیا گرا کی یاد تازہ کرتا ہے۔ اس سے آگے ایک حسین چراگاہ راے نیرہ ہے۔ اور اس سے آگے رُوپڑی ، نندن سر اور پیر مرگ جیسی حسین چراگاہ ہیں اور قدرتی جھلیں ہیں۔ درّہ سیم کورے دامن میں دوبجن کا کوہستانی چشمہ آب شفاء کے لیے وادی بھر میں مشہور ہے۔ یہ تمام مقامات قدرتی حسن سے مالامال جنت کا منظر پیش کرتے ہیں۔
یہ تما م صحت افزا مقامات جو گلمرگ اور پہلاگام پر فوقیت رکھتے ہیں۔ اب تک حکومت اور محکمہ سیاحت کو توجہ کے منتظر ہیں۔ اب تک کسی بھی حکومت نے ان مقامات کی ترقی کی طرف توجہ نہیں دی ہے اور نہ ان مقامات کی افادیت کو محسوس کیا ہے۔
فون نمبر 9070931709