اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کو انفرادی یا اجتماعی طور اپنی خداداد صلاحیتوں سے فض یاب کیا ہے اُنہیں عقل ِ سلیم ،دانائی ،سوچ و سمجھ ،تفکر و تدبر ،صبر و شکر،حُسنِ اخلاق ،نیکی و بدی اور حق و باطل میں تمیز کرنے کی صلاحیت اور شعور کی پُختگی کے ساتھ فیصلے لینے کی قوت ارادی سے نوازا ہے ،ان لوگوں کی طرزِ زندگی سلام و کلام ،نشست و برخاست ،بھائی چارہ ،محبت و اخوت ،عدل و انصاف ،دوستی کا حق ادا کرنا ،دوسروں کے لئے خود کو مشقت میں ڈالنا ،ظلم کے خلاف جہاد کرنا ،یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے نعمت ِ خاصہ ہوتا ہے اور یہ اوصاف ِ حمیدہ دوسروں کے لئے مشعل راہ کے کام آتے ہیں۔
کسی قوم کے لئے سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ و ہ صحیح شعور سے خالی ہو۔ایک ایسی قوم جو ہر طرح کی صلاحیتیں رکھتی ہو اور دینی و دنیاوی دولتوں سے مالا مال ہولیکن انہیں نیک و بد کی تمیز نہ ہو،وہ اپنے دوست دشمن کو نہ پہچانتے ہوں ،سابقہ تجربوں سے فائدہ اٹھانے کی ان میں صلاحیت نہ ہو،اپنے رہنمائوں کا احتساب کرنے اور قومی مجرموں کو سزا دینے کی ان میں جرأت نہ ہو، خود غرض ،چرب زبان لیڈروں کے جال میں جلدی پھنسنے والے ہوں، پیشہ ور ،خود غرض ،منافق قائدین کا کھلونا بن جانے والے ہوں،اُس قوم کے رہنما ئوںکو لوگوں کی سادہ لوحی اور بے شعوری کی بنا پر من مانی کاروائیاں کرنے کاہر وقت موقع ملتا ہے اور انہیں اس چیز کا اطمینان ہوتا ے کہ کبھی بھی ان کا محاسبہ یا باز پُرس نہیں کی جائے گی ۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسلم ممالک شعور کی بیداری سے بالکل محروم ہیں ۔وہ خیرخواہ اور بد خواہ کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں بعض اوقات بدخواہ لوگ مسلمانوں میں زیادہ ہر دل عزیز اور معتمد سمجھے جاتے ہیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پاک ارشاد ہے کہ ’’مومن سانپ کے ایک سوراخ سے دو بار ڈسا نہیں جاتا ‘‘۔لیکن المیہ یہ ہے کہ مسلمان ممالک کے لوگ سینکڑوں بار ڈَسے جانے کے لئے تیار رہتے ہیں ۔ان کا حافظہ اتنا کمزور ہے کہ وہ اپنے قائدین اور رہنمائوں کے ماضی کے واقعات کو فوراً بھول جاتے ہیں ۔ان کا دینی اور سیاسی شعور تقریباً ناپید ہوچکا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ غالب قوموں اور خود غرض رہنمائوں کے کھلونے بنے ہوئے ہیں اور آسانی کے ساتھ ان کا استحصال کیا جاتاا ہے اور حکومتیں ان کے خلاف من پسند فیصلے کرتی رہتی ہیں (ہمارے یہاں بھی یہی ہورہا ہے)۔
قطع نظر اس کے کہ مغربی اقوام میں تمام اخلاقی بُرائیاں موجود ہیں مگر وہ سیاسی شعور کے مالک ہیں ۔وہ اپنے نفع و نقصان کو پہچانتی ہیں ۔وہ مخلص و منافق کے فرق کو جانتی ہیں ۔وہ اپنی قیادت اُن کے سپُرد نہیں کرتیں جو نااہل اور خائن ہیں۔وہ اپنے معاملات پورے احتیاط کے ساتھ دوسروں کے سپرُد کرتے ہیں جو ان کی نظر میں قابل اور امانت دار ہوں۔یہی وجہ ہے کہ وہ قومیں سیاسی پیشہ وروں اور نااہل و خائن رہنمائوں سے محفوظ رہتی ہیں ۔چنانچہ قوم کی سر زنش ،عوام کے عتاب و احتساب اور رائے عامہ کی قہر ناکی سے وہ لوگ لرزہ براندام رہتے ہیں۔آج جس چیز کو یورپ نے مضبوطی سے پکڑ رکھا ہے وہ ان کی شہری زندگی کی ذمہ داریوں کا احساس اور سیاسی شعور ہے ۔ابھی تک انگریز وں اور امریکیوں میں ایسے لوگوں کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں جو قومی امانت کے خیانت کا ارتکاب کرتے ہوں یا اپنے ملک کو سستے داموں میں فروخت کر ڈالتے ہوںیا حکومت کے اسرار فاش کردیتے ہوں یا خراب و ناکارہ اسلحہ و سامانِ جنگ کی خریداری میں مجرم قرار دئے گئے ہوں ۔اس حوالے سے یورپ کا اخلاقی بگاڑ محدود ہے۔یہ لوگ بے شک بڑ ے بڑے جھوٹ بول کر قوموں اور ملکوں میں فتنہ تو برپا کرسکتے ہیں ،بڑی بڑی قوموں کو دھوکہ دے کر پامال کر سکتے ہیں مگر یہ سب کچھ اپنے ذاتی فائدے کے لئے نہیں بلکہ اپنے قومی اور ملکی مفادات کے لئے ایسی غیر اخلاقی چیزوں کا ارتکاب کرتے ہیں۔لیکن اسلام میں ان مجرمانہ افعال کی گنجائش نہیں ۔بد اخلاقی خواہ انفرادی ہو یا اجتماعی یا قومی محرکات کی بنا پرہوو ،ایک رذیل صفت ہے ۔مغرب جو کچھ کرتا ہے ایک شعور اور اپنے مخصوص فلسفہ ٔاخلاق کے تحت کرتا ہے اور مشرق جو کرتا ہے ،اس میںبے شعوری اور شخصی اغراض و محرکات کارفرما ہوتے ہیں۔بہت سے مسلمان ملک ایسے ہیں جہاں عوام کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا ہے ،جہاں عوام صرف محنت و مشقت کے لئے اور خواص صرف عیش و عشرت کی زندگی گزر بسر کررہے ہیں جہاں انسانیت سوز افعال اور جرائم کے ارتکاب کے ساتھ ساتھ شریعت کے احکام کو بھی پامال کیا جاتا ہے لیکن نہ عوام اور نہ جمہور مسلمین میں کوئی جھُجک محسوس ہوتی ہے ،نہ کسی کے دل میں اس کا احساس ہوتا ہے ۔یہ در حقیقت انسانی غیرت اور اسلامی خود داری و حمیت کے فقدان کا نتیجہ ہے اور یہ صورت حال نہایت خطرناک ہے۔
اللہ معاف کرے ۔بعض مسلمان ممالک کے قائدین اور اہلِ اقتدار سے کچھ بعید نہیں کہ وہ کبھی اپنے کسی حقیر فائدہ یا ذاتی خواہشات کی تکمیل کے لئے اپنے ملک کو رہن رکھدیں یا اپنی قوم کو بھیڑ بکری کی طرح فروخت کردیں یا اپنی قوم کو بے معنی جنگ میں جھونک دیںاور ایسا ہوتے ہوئے یہ بات تعجب خیز ہے کہ قوم اس کے باوجود اُسی قیادت کا جھنڈا لے کر چلتی رہے اور ان کی تعریف میں رطب اللسان رہے ۔یہ صورت حال اس بات کی دلیل ہے کہ قوم کا ضمیر مردہ،اس کا فکری عمل معطل اور وہ شعور کی دولت سے محروم ہے۔
اسلام اگرچہ ایک آفاقی مذہب ہے اور اس کی بنیاد قرآن و سُنت ،وحی نبوت پر ہے لیکن اس نے بھی اپنے پیروئوں میں ایک خاص شعور پیدا کیا ۔اس نے اپنے ماننے والوں میں ایک خاص قسم کا طریق کار ،فکر و عمل پیدا کیا جو جاہلی فکر و عمل سے بالکل مختلف ہے ۔اس نے اپنے ماننے والوں میں ایک خوددار شعور عطا کیا ہے جو اپنی وسعت اور قدرتی لچک کے باوجود ان افکار و نظریات کو انگینہ نہیں کرسکتا جو اس کے مسلمہ اصولوں سے میل نہ کھاتے ہوں اور نہ اُن عناصر و اجزاء کو ہضم کرنے کے لئے تیار ہے جواس کی روح اور اس کے اصولوں سے تضاد رکھتے ہوں ۔
اسلامی شعور کی ایک مثال یہ ہے کہ اسلام کی دعوت اور نبی کریم ؐ کی تربیت و صحبت سے صحابہ کرام ؓ کے دل و دماغ میں یہ بات راسخ ہوچکی تھی کہ ظلم ایک قبیح شٔے اور دینی و اخلاقی جرم ہے جو کسی کے لئے جائز نہیں۔وہ اس پر ایمان لاچکے تھے کہ مسلمان کو ہر شخص کے ساتھ انصاف کرنا چاہئے ،دوست ہو یا دشمن ،انہوں نے جاہلانہ حمیت ،قومی و قبائلی اور خاندانی تعصبات سے ہمیشہ کے لئے توبہ کرلی تھی اور سمجھ لیا تھا کہ اسلام میں اس اندھے تعصب کی کوئی جگہ نہیں ۔مسلمان کے لئے لازم ہے کہ وہ حق کا ساتھ دے خواہ کسی طرف ہو۔
اسلامی شعور اور اسلامی تربیت کی وجہ سے صحابہ ؓ کسی بھی غلط کام یا کسی ناانصافی کو برداشت نہیں کرسکتے تھے ،خواہ اس کا صدور خلیفہ وقت سے کیوں نہ ہو،وہ اگر خلیفہ کی کوئی زیادتی دیکھتے تو برسرِ منبر اس کو ٹوکنے میں کوئی تامل نہ کرتے ۔اس حوالے سے امیر المومنین حضرت عمرؓ کا ایک واقعہ بہت مشہور ہے۔’’مال غنیمت کا کپڑا مسلمانوں میں تقسیم کیا گیا ۔فی کس ایک ایک کپڑا ملا ۔جب حضرت عمرؓ خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے فرمایا : لوگو! سُنتے ہو ،حاضرین نے کہا ،ہم نہیں سُنتے ۔حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کیوں؟وہ کہتے ہیں کہ آپؓ نے ہم کو ایک ایک کپڑا تقسیم کیا لیکن آپؓدو کپڑوں میں ملبوس ہیں۔وہ فرماتے ہیں جلدی مت کرو ،پھر آپؓ نے اپنے صاحبزادے حضرت عبداللہ ؓ کو آواز دی ۔پہلی آواز پر کوئی جواب نہیں ملتا ۔پھر فرماتے ہیں:اے عمرؓ کے بیٹے عبداللہ جواب دے دو ۔آپ ؓ نے اپنے بیٹے سے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے جس کپڑے کی تہہ بند باندھ رکھی ہے ،کیا یہ تمہارا ہی کپڑا ہے؟ حضرت عبداللہؓ نے اثبات میں جواب دیا ۔یہ سُن کر مسلمانوں نے کہا :امیر المومنین ! ہاں اب فرمایئے ،ہم سُنیں گے ۔گویا حضرت عبداللہ نے اپنا ایک کپڑا اپنے والد صاحب حضرت عمرؓ کو دیا تھا۔اس اسلامی شعور و تربیت کا نتیجہ یہ تھا کہ بنی اُمیہ کو اپنا شاہی اقتدار قائم رکھنے میں بڑی زحمتیں پیش آئیں۔اسلامی روح نے بارہا اس اقتدار کے خلاف سخت احتجاج کیا اور اس عرب شاہی کے خلاف علم جہاد بلند ہوالیکن اموی فرمانروائوں کو اس وقت تک چین حاصل نہ ہوا جب تک وہ نسل ختم نہیں ہوگئی جس نے اسلامی اصولوں پر تربیت پائی تھی اور جو خلافت اسلامی اور اسلام کے نظام حکومت اور طریق حکمرانی کی قائل تھی اور اس سے انحراف کو بدعت اور تحریف کے مترادف سمجھتی تھی۔یہی نہیں بلکہ واقعہ یہ ہے کہ کسی طرح کی اصلاح اور کوئی معاشرتی یا سیاسی انقلاب ِ شعور کی پیداواری اور ذہنوں کی تیاری کے بغیر وقوع میں نہیں آتا ۔اگرچہ انقلاب ِ فرانس کا تذکرہ اسلامی دعوت و انقلاب کے تذکرہ کے سلسلہ میں سوُئے عرب سے خالی نہیں اور یہ ایک ناقص اور محدود قسم کا انقلاب تھا جو جذباتی اور بے اعتدالیوں سے پاک نہیں تھا تاہم اس سے یہ نتیجہ نکل سکتا ہے کہ جب کسی معاشرہ یا ملک کا شعور بیدار ہوجاتا ہے اور ذہنوں کا رُخ کسی خاص طرف ہوجاتا ہے تو اس سیلاب کا تھامنا بڑی بڑی چٹانوں کے لئے ناممکن ہوجاتا ہے۔انقلابِ فرانس کے رہنمائوں نے ایک خاص مقصد کے لئے فرانسیسی عوام کے شعور کی تربیت کی ۔عوام کے دل میں ملک کے فرسودہ نظام کے خلاف بغاوت کا جذبہ پیدا کیا ،پرانی اخلاقی قدروں اور تصورات کے خلاف ایک عام بیزاری اور غم و غصہ ،نفرت و حقارت کی ایک آگ روشن کردی ،نتیجہ یہ ہوا کہ اس وقت کا سیاسی معاشی اور معاشرتی نظام لوگوں کے لئے ناقابل برداشت بن گیا ۔حریت،اخوت ،مساوات کے کلمات ہر فرانسیسی کا وظیفہ اور تکیہ بن گیا ۔اگرچہ اس انقلاب کے رہنما اس کو انسانیت کے لئے زیادہ مفید نہ بنا سکے لیکن انہوں نے ملک میں انقلاب لایا جس کو کوئی طاقت روک نہ سکی۔اس لئے کہ اس انقلاب کا چشمہ لوگوں کے دل ودماغ کے اندر سے اُبلا تھا اور اس کی پُشت پر قوم کی رائے عامہ ، جمہور کی خواہش اور شعور کی بیداری تھی ۔
کسی انقلاب اور کسی بغاوت کی تب تک کوئی قیمت نہیں (خواہ وہ ظاہری طور پر ملک و قوم کے لئے کتنی ہی مفید ہو)جب تک کہ اس کی بنیاد میں کوئی پختہ عقیدہ ،صحیح فکر اور تربیت یافتہ عاقلانہ شعور نہ ہو،جب تک کہ رائے عامہ پورے طور پر تیار نہ ہو ،اس وقت تک کسی بادشاہ کی جلا وطنی کوئی انقلاب ِ حکومت اور وزارت کی کوئی تبدیلی کی کوئی اہمیت نہیں رکھتی اور بالکل قابل اعتبار بھی نہیں ہے۔اگر قوم میں ان افعال اور اس رویہ سے نفرت نہیں ہے تو ایک غلط شخص یا غلط جماعت کی جگہ پر دوسرا غلط شخص اور دوسری جماعت آسکتی ہے ،اور ہوسکتا ہے کہ قوم کو اس کا احساس بھی نہ ہونے پائے ۔اس لئے اصل قابل اعتبار چیز یہ ہے کہ قوم کا ضمیر اور شعور اتنا بیدار ہوجائے کہ وہ کسی غلط چیز اور مجرمانہ فعل کو کسی حالت میں اور کسی شخص کے لئے برداشت نہ کرسکے۔
عالم اسلام کی ایک بہت بڑی ضرورت اور اس کی بڑی خدمت یہ ہے کہ اُمت کے مختلف طبقات اور عوام میں صحیح شعور پیدا کیا جائے اور جمہور کی عقلی و سیاسی تربیت کی جائے ۔یاد رہے کہ تعلیم کی اشاعت اور تعلیم یافتہ اشخاص کی کثرت سے یہ لازم نہیں آتا کہ قوم میں شعور موجود ہے ،اگرچہ اس میں شک نہیں کہ تعلیم اور علوم عام ہونے سے شعور کے بیدار کرنے میں بڑی مدد ملتی ہے لیکن شعور پیدا کرنے کے لئے بہر حال مستقل جدوجہد کی ضرورت ہے۔جس قوم میں غور و فکر کی کمی ہے وہ قوم اعتماد کے لائق نہیں،خواہ اس کو اپنے قائدین پر کتنا ہی اعتماد کیوں نہ ہو اور وہ ان کی پیروی اور اطاعت میں کیسی بھی سرگرمی دکھائے اور ان کی دعوت پر کتنی ہی عظیم قربانیاں پیش کرے، جب تک اس کا شعور بیدار نہیں اور وہ بالغ نظر اور پختہ خیال نہیں بنتی، ہر آن اس بات کا خطرہ ہے کہ وہ کسی دوسری دعوت اور تحریک کا آلۂ کار بن جائے گی اور آن کی آن میں سالہا سال کی محنت پر پانی پھر جائے گا ۔جس قوم کا شعور بیدار نہیں ہوا اور جس نے خود سوچنے اور اچھا اور بُرا سمجھنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہوئی ،اُس کی مثال میدان میں کاغذ کے ایک تنکے کی طرح ،جو ہَوا کے معمولی جھونکے سے ادھر اُدھر اُڑتا پھرتا ہے۔
اس لئے عالم اسلام کی بہت بڑی خدمت یہ ہے کہ اس میں صحیح شعور پیدا کیا جائے۔ایسا شعور جو نہ کسی ظالم کا ساتھ دے ،نہ کسی ظلم و ناانصافی کو برداشت کرسکے،نہ دین و اخلاق سے انحراف کو برداشت کرسکے۔جو صحیح اور غلط ،خلوص اور نفاق ،حق و باطل ،دوست و دشمن ،مُصلح اور مُفسد کے درمیان آسانی سے تمیز کرسکے ۔مجرم اس کی ناراضگی اور عتاب سے بچ نہ سکیں اور مخلص اور حق شناس اس کے اعتراف اور قدر شناسی سے محروم نہ رہیں۔وہ اپنے تمدنی ،سیاسی ،اجتماعی اور دینی مسائل و معاملات میں ایک عاقل باشعور و بالغ انسان کی طرح غور کرنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو ۔جب تک یہ شعور پیدا نہ ہو،کسی اسلامی ملک و قوم کا جوش ِ عمل،کارگزاری کی صلاحیت ،دینی جذبات اور مذہبی زندگی کے مظاہر و مناظر کچھ زیادہ وقعت نہیں رکھتے ۔شعور ایک عظیم نعمت ہے جس سے ایک انسان انسانیت کے تمام تقاضوں کو پورا کرسکتا ہے ،خاص طور پر حق و باطل میں تمیز ایک باشعور اور عاقل انسان ہی کرسکتا ہے۔اللہ ہمیں عقلِ سلیم عطا فرمائے،آمین۔
(مضمون نگار سینئر سیاسی وسماجی کارکن اور صدر فلاح بہبود کمیٹی خواجہ بازار ،نوہٹہ سرینگرہیں ۔رابطہ۔2471176)