ناقدین اورارباب علم ومعنی نے اس کومختلف پیرایوں میںسمجھا یاہے۔علامہ شبلیؔ کسی قدرشاعرانہ انداز میںشعر کی حقیقت کوسمجھاتے ہیں:
’’حیوانات پرجب کوئی جزبہ طاری ہوتاہے تومختلف قسم کی آوازوں یاحرکتوں کے ذریعے ظاہرہوتاہے مثلاً کویل کوکتی ہے، طاؤس ناچتاہے، سانپ لہراتے ہیں۔انسان کے جزبات بھی حرکات کے ذریعے سے اداہوتے ہیں لیکن اس کوجانوروں سے بڑھ کر ایک اور قوت دی گئی ہے یعنی نطق اورگویائی ،اس لیے جب اس پرکوئی قوی جزبہ طاری ہوتاہے توبے ساختہ اس کی زبان سے موزوں الفاظ نکلتے ہیں اسی کانام شعر ہے‘‘۔(شعرالعجم جلد۴۔ص ۳۔۲)
شبلیؔ اپنے تنقیدی نظریات کے پیش کرنے میں جومباحث سامنے لاتے ہیں ان میںمشرقی معیارنقد کارنگ زیادہ گہرانظرآتاہے۔ وہ حالیؔ کی طرح صرف مغرب سے مستعار لئے ہوئے تصورات کا اپنے نقطہ ٔ نظر کی تشکیل میںاستعمال نہیںکرتے۔ شبلی ؔ کی ارسطوؔ کے خیالات تک رسائی عربی زبان و ادب کے توسط سے ہوئی تھی، چانچہ وہ رقمطراز ہیں:
’’ارسطو نے اس (شاعری )پرایک مستقل کتاب لکھی ہے،جس کاترجمہ عربی میںابن رشدؔ نے کیا اوراس کابڑا حصہ چھپ کرشائع ہواہے۔ابن رشیق قیروانی اورابن خلدون نے بھی اس پربحث کی ہے‘‘۔(موازنۂ انیس ودبیرؔ۔ص ۲)
محاکات ،مصوری اورواقعہ نگاری پرشبلی ؔ کی ساری بحث ارسطوؔ سے کسب فیض کا نتیجہ ہے۔ شبلی ؔ جب شاعری کی حقیقت سے بحث کرتے ہیں تویہ اندازہ ہوتاہے کہ انھوںنے نفسیات انسانی کے عناصر کو خاص طور سے ملحوظ خاطر رکھاہے۔ چنانچہ وہ قوت ادراک اورقوت احساس کو دنیاکے تمام علوم وفنون اور تحقیقات وانکشاف کی بنیاد قراردیتے ہیں، لکھتے ہیں:
’’خدا نے انسان کومختلف اعضاء اورمختلف قوتیں دی ہیں،ان میں سے ہرایک کے فرائض اورتعلقات الگ ہیں۔ان میں سے دو قوتیں تمام افعال اور وارادات کاسرچشمہ ہیں،ادراک اوراحساس ۔ادراک کاکام اشیاء کومعلوم کرنا اوراستدلال اور استنباط سے کام لینا ہے۔ہرقسم کی ایجادات،تحقیقات ،انکشافات اورتمام علوم وفنون اسی کے نتائج کاعمل ہے‘‘۔( شعرالعجم ۔جلد ۴،ص ۱)شبلی ؔ شاعری کوذوقی اوروجدانی چیزبتاتے ہیں۔لکھتے ہیں:
’’یہی قوت جس کواحساس ،انفعال یافیلنگ سے تعبیر کرسکتے ہیں، شاعری کادوسرانام ہے یعنی یہی احساس جب الفاظ کاجامہ پہن لیتاہے تو شعربن جاتاہے‘‘۔ (ایضا)
شبلی ؔ کے نظریہ ٔ شعر کے مأخذ کے سلسلے میں انہوںنے خود جن مشاھیرکے نام گنائے ہیں ،ان میں ارسطو ؔ ،ابن رشیق ؔ ، ابن خلدون ؔ اور بعض مغربی مصنفین یعنی مِلؔ اورہنری لوئس ؔقابل ذکر ہیں۔ ان مختلف الخیال شخصیتوں سے استفادہ کرتے ہوئے شبلی ؔ نے اپنے نظریۂ شعر کے بارے میں جوکچھ کہا ہے اس کاماحصل یہ ہے کہ شاعری ایک طرح کی مصوری کانام ہے ۔ جذبات انسانی اور مناظر قدرت کی مصوری ہی شاعر کا وظیفہ ہے ۔ جزبات انسانی کے اظہار کی نوعیت کیاہے؟ شبلیؔ اس کی تفصیل میںفرماتے ہین کہ جذبات کااظہار حیوانات کے فطری اظہار کے مماثل ہوتاہے۔ جیسے ’’شیر کا دھاڑنا ‘‘ ،’’ہاتھی کا چنگھاڑنا‘‘،’’کوئل کاکوکنا‘‘، ’’طاؤ س کارقص کرنا‘‘ اور’’سانپ کالہرانا‘‘۔
شبلی ؔ کی اس رائے سے کلیم الدین احمد اتفاق نہیںکرتے وہ اس لئے کہ حیوانات اپنے فطری اظہار کے لئے مجبور ہوتے ہیں اورشاعر جزبات کے اظہار کے لئے مجبور نہیںہوتا۔ دوسرے فطری اظہار میںحیوانات کی ہرنوع کاہرفرد شریک ہوتاہے۔مثلاً رقص اگرمورکافطری اظہار ہے توایک یاچند موروںکانہیں بلکہ ہرمور اس میںشریک ہے۔لیکن شاعری انسان کے بعض افراد کے ساتھ خاص ہے۔لہٰذا علامہ شبلی ؔ کاتصور کہ انسانی شاعری حیوانات کے فطری اظہار کے مماثل ہے، غلط ہے ۔اس سلسلے میںایک دوسرے ناقد ظفر احمد صدیقی کی رائے ملاحظہ ہو:
’’کلیم الدین احمد، شبلی کی مراد سمجھ نہیںسکے۔شبلی ؔ نے متذکرہ بالاتشبیہہ وتمثیل کے ذریعے غالباً یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ شعر گوئی کامحرک انسان کاکوئی اندرونی جزبہ ہوتاہے ۔یہ جزبہ زوردکھاتاہے توانسان شعرگوئی پر آمادہ ہوجاتاہے، جس طرح حیوانات اپنے فطری اظہارپر کسی اندرونی جذبے ہی کی بنا پر آمادہ ہوتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر یوںکہیے کہ جس طرح مور کورقص پرکسی بیرونی دباؤ کے ذریعے آمادہ نہیںکیاجاسکتااسی طرح حقیقی شاعر کسی خارجی ترغیب وترتیب کی بنا پر شعر نہیںکہتا اورجوشعراء ایسا کرتے ہیںان کی شاعری مصنوعی ،پرتکلف اوراثرسے خالی ہوتی ہے‘‘۔ (تنقیدی معروضات۔ص ۸۵)
شبلی ؔ کے خیال میں ساراعالم شعرکے مانند ہے اوراس کے ذرے ذرے میںشعر یت پائی جاتی ہے۔ایک یورپین مصنف کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ :
’’ہرچیز جودل پر استعجاب یاحیرت یا جوش یااورکسی قسم کااثر پیداکرتی ہے، شعرہے ،اس بنا پر فلک نیلگوں ،نجم درخشاں ،نسیم سحر ،گلگونۂ شفق، تبسم گل، خرام صبا ،نالۂ بلبل ،ویرانیٔ دشت،شادابئی چمن، غرض تمام عالم شعر ہے ‘‘۔(شعرالعجم ۔جلدچہارم،ص ۳)
شبلیؔ کے نزدیک شاعری کے لئے محاکات اور تخیئل کاہونا ضروری ہے۔انہوںنے تصویرکشی کے لئے ’محاکات‘ کی اصطلاح کااستعمال کیا اور یہ ارسطو ؔ سے ماخوذہے، البتہ شبلی ؔ نے اس پر تخئیل کوبھی لازم قراردیا ۔اس کی وضاحت وہ یوںکرتے ہیں:
’’شاعری اگرچہ محاکات کانام ہے لیکن محاکات کی روح تخئیل ہے۔اگرمحض کسی چیز کی تصویر کھینچ کررکھ دی جائے تو شایداس میں کشش نہ ہوگی، لیکن چونکہ شاعرکسی شئی کی محاکات کے وقت اپنی قوت تخئیل کے ذریعے اس کے بعض عناصر کونمایاں اوربعض کودھندلا دھندلا کردیتاہے، اس لئے ہم اس میں ایک طرح سے لطف محسوس کرتے ہیں…..(ایضاً۔ص ۱۰)
شبلیؔ کے یہاںمحاکات دراصل ایک جمالیاتی اظہارہے اورمحاکات کے تحت وہ ان تمام باتوں کوشامل کرلیتے ہیں جن سے شاعری کی تشکیل ہوتی ہے۔ ان کے نزدیک محاکات کی تکمیل مختلف چیزوں سے ہوتی ہے۔ ان میںسب سے مقدم شعرکاوزن اورآہنگ ہے۔
شاعری کے لئے دوسری چیز تخئیل ہے ۔مشرق ومغرب کے سبھی علماء تخئیل کی اہمیت کے قائل ہیں۔شبلی ؔ نے محاکات اورتخئیل پرجوبحث کی ہے اس میں انھوںنے عربی اورفارسی کی تنقیدی روایت کی طرف کلی طورپر رجوع نہیں کیا بلکہ ان کے خیالات ارسطوؔ سے ماخوذہیں، اس سلسلے میںوہ کولرج کے تخئیل کی بحث سے بھی متاثر ہیں۔وہ تخئیل کی تعریف کرتے ہوئے سب سے پہلے ہینری لوئس ؔکاحوالہ دیتے ہیں اوراس کی تعریف کے محاس ومعائب پرتنقیدی نظرڈالتے ہیں۔شبلی ؔ کے خیال میں ’’تخئیل دراصل قوت اختراع کانام ہے‘‘۔تخیل وہ شئے ہے جوبات سے بات نکال لیتی ہے اور وہ چیزیں جوآنکھ سے اوجھل ہیں انہیںسامنے لاکرکھڑا کرتی ہے۔ اسی کے ذریعے ماضی اورمستقبل ہمارے سامنے آجاتے ہیں۔ تخیل کایہ وہی نظریہ ہے جسے بڑے بڑے مشرقی ومغربی نقادوں نے پیش کیاہے۔اس بات پر تمام لوگوں کااتفاق ہے کہ تخیل انسان کی حیرت انگیز صلاحیت ہے ،جوزندگی اور اس کے حقائق کے سمجھنے میں معاون ہوتی ہے۔اس لئے شاعری میںیہ قوت حقائق آشکاراکرتی ہے اوراس کوجمالیاتی اندازمیں پیش
کرتی ہے تاکہ انسان کے دل پراس کااثر ہو،اسی کوشبلیؔ نے جذبات انسانی تحریک سے تعبیر کیاہے، یہ تحریک فلسفہ اورسائنس کے ذریعہ نہیںہوتی ، اس میںکسی علمی مسٔلہ کوصرف حل کردیاجاتاہے ،اس بارے میں شبلی ؔ اپنی رائے کااظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’فلسفہ اور سائنس میں قوت تخئیل کااستعمال اس غرض سے ہوتا ہے کہ ایک علمی مسٔلہ حل کردیاجائے لیکن شاعری میںتخئیل سے یہ کام لیاجاتاہے کہ جذبات انسان کو تحریک ہو، فلسفی کوصرف ان موجودات سے غرض ہے کہ جوواقع میں موجود ہیں ،بخلا ف اس کے ان موجودات سے بھی کام لیتاہے جومطلق موجود نہیں۔فلسفہ کے دربارمیں ہما،سیمرغ،گاؤ زمین،تخت سلیمان کی مطلق قدرنہیں لیکن یہی چیزیں ایوان شاعری کے نقش ونگار ہیں‘‘…… (شعرالعجم۔جلد۴۔ص ۸)
غرض شبلی ؔ نے فلسفہ اورسائنس دونوں کوسامنے رکھ کر تخئیل پربڑی بصیرت افروز بحث کی ہے۔ا س سے یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہے کہ تخئیل شاعری کا نہایت اہم عنصرہے۔اس کے بغیر شاعری کاوجود موہوم ہے۔ ’لفظ ومعنی ‘میںکس کوترجیح اوراولیت حاصل ہے یہ شعروادب کابڑادلچسپ اور معرکۃ الآراء مسٔلہ ہے ،اس سلسلے میں شبلی ؔ نے لفظ ومعنی کے رشتے پربحث کی ہے وہ بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ حالی ؔ نے بھی ’’مقدمہ شعروشاعری ‘‘ میںتفصیل سے گفتگو کی ہے۔شبلی ؔ بھی اس روایت کی تقلید کرتے ہیں اورعرب علماء کے نزدیک لفظ ومعنی کے درمیان طویل مباحثے کووہ ابن رشیق قیروانی ؔ کی کتاب ’’العمدہ ‘‘کے ایک اقتباس سے نقل کرتے ہیں، پھرسیرحاصل گفتگوکرتے ہیں۔
شبلی ؔ ،جاحظ ؔ کے خیال کی تائید خودبھی کرتے ہیں اور اسے پیش تراصل فن کامذہب بھی بتاتے ہیں۔ بقول ان کے: ’’زیادہ تراھل فن کا یہی مذہب ہے کہ ’لفظ‘ کو’مضمون‘ پرترجیح دیتے ہیں‘‘۔وہ کہتے ہیں کہ مضمون توسب پیداکرسکتے ہیں لیکن شاعری کامعیار کمال یہی ہے کہ مضمون ادا کن الفاظ میںکیاگیا ہے اور بندش کیسی ہے۔ شبلیؔ ’لفظ‘ کا معیار کمال بتانے والے اور ؔ’معنی ‘ کواہمیت دینے والے عرب نقادوں کی رایوں سے گفتگو کرنے کے بعداپنی رائے بہت وثوق کے ساتھ پیش کرتے ہیں:’’حقیقت یہ ہے کہ شاعری یا انشا پردازی کامدار زیادہ ترالفاظ ہی پرہے، گلستان میں جومضامین اورخیالات ہیں،ایسے اچھوتے اور نادرنہیں ، لیکن الفاظ کی فصاحت اورترتیب اورتناسب نے ان میں سحرپیداکردیا ہے ۔انھیں مضامین اورخیالات کومعمولی الفاظ میںاد ا کیاجائے توسارا اثر جاتارہے گا‘‘۔(ایضاً۔۴۰)شبلی ؔ اپنی رائے کویقینی بنانے کے لئے شیخ سعدی کی کتاب ’’گلستان‘‘کا حوالہ دیتے ہیں اور شاعری میںالفاظ کی متانت ، شان وشوکت اور بندش کی پختگی کی وجہ سے ’’اسکندر نامہ ‘‘ کے ایک ایک شعر کو ظہوری ؔ کے ’ساقی نامہ ‘ کی نازک خیالی اورمضمون بندی پرترجیح دیتے ہیں۔ اس طرح شبلی ؔ عربی کے ہیئت پسند علماء کی صف میں شامل ہوجاتے ہیں ۔لیکن اس کے بعدآگے چل کرمعنی کواہمیت دینے والے عرب نقادوں سے اتنا اتفاق ضرورکرتے ہیں کہ شاعروں کولفاظی سے صرف نظرکرناچاہیے۔وہ شعرمیں تاثیر کاسبب معانی کے لئے مناسب ترین الفاظ بتاتے ہیں۔دراصل شبلی الفاظ ومعنی کے سلسلے میںمعتدل رویہ رکھتے ہیں، انہوںنے لفظ ومعنی کے سلسلے میں مختلف قسم کی باتیں کہی ہیں جیسے (۱)شاعری یا انشاء پردازی کامدارزیادہ تر الفاظ پرہے۔(۲) اس تقریر کا مطلب یہ نہیں کہ شاعر کوصرف الفاظ سے غرض رکھنی چاہیے اورمعنی سے بالکل بے پرواہوناچاہیے۔(۳) شاعری کااصل مدار الفاظ کی معنوی حالت پر ہے۔ شبلی ؔ کی ان تینوں آراء میںتضاد کی کیفیت نمایاںہے لیکن پروفیسر ابولکلام قاسمی ؔ ان میںتطبیق دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
’’شبلی چونکہ ایک خلاقانہ ذہن رکھتے ہیں ،اس لئے کوئی ایک فیصلہ صادرکرکے اس پرمطمئن نہیں ہوجاتے۔ وہ شاعری کے صوری اورمعنوی مسائل کاپورا شعوررکھتے ہیں ،اس لئے کبھی ان کوایک پہلو زیادہ اہم دکھائی دیتاہے اورکبھی دوسرا پہلو‘‘۔( مشرقی شعریات اوراردوتنقیدکی روایت۔ص ۲۳۷)
لفظ ومعنی کی اس بحث کالب لباب یہ ہے کہ شبلی ؔ لفظ ومعنی دونوں کی اہمیت کے قائل ہیں۔ مگران کے نزدیک معنی کے مقابلے میں لفظ کا پلہ بھاری ہے۔ اسی خیال کی بنیاد پروہ شاعری کے صوری پہلو کوزیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اس لئے انھوںنے جدت ادا، تشبیہہ واستعارہ اور سادگی پر مفصل بحث کی ہے ، جس کا مقصدصرف یہ ہے کہ شاعری کے فن اورجمالیاتی پہلوؤں پرزیادہ توجہ دی جائے۔اس قسم کے مباحث سے اس بات کابھی اندازہ ہوتاہے کہ شبلی مزاجاً مشرقی تھے،اس لئے انھوںنے مشرقی تنقید کی اصلاحات پرزیادہ زوردیاہے۔
مختصراً یہ ہے کہ جن اصولوں کوشبلی نے شاعری کے لئے ضروری سمجھاہے،عملی تنقید کی حیثیت سے ایران کی شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے شعرالعجم میںانہیں پیش کردیا ہے ۔چونکہ شبلی ؔ فطرت انسانی کے مختلف پہلوؤں اورشاعری کوایک دوسرے سے متعلق سمجھتے ہیں اسی لئے انھوںنے فارسی شاعری کے محاسن سے بحث کے لئے عربی شاعری کوپیش نظر رکھنابھی ضروری سمجھا۔اس میںشروع سے آخرتک ایک منطقی ربط پایاجاتاہے۔شبلیؔ اپنے خیالات کی وضاحت کے لئے عربی وفارسی شاعری سے مثالیںبھی دیتے ہیں جس سے شعروشاعری کی بعض پیچیدہ مسائل کی گتھیاں سلجھتی ہیں اورقاری کوروشنی کااحساس بھی ہوتاہے۔ مولانا ماہرالقادری ؔ کے بقول
’’یہ نہیں کہ شعرالعجم میںصرف زبان وادب کالطف اورشعروشاعری کاچٹخارہ ملتاہے،اس کتاب کی علمی حیثیت بھی بہت بلند ہے ۔عوفی یزدی ؔ کے ’’لب اللباب‘‘ سے لے کر ہدایت علی خاںؔ کی ’’مجمع الفصحاء ‘‘ تک فارسی شعراء کے تمام قابل ذکر تذکرے مصنف کے سامنے رہے ہیں اوریہ بھی جانتا ہے کہ جرمنی کے پروفیسر دارمسٹیٹرؔ،روس کے ناقد والن ٹن ژو کوسکی ؔ اوردوسرے یورپین تذکرہ نگاروں نولدیکی ،سرگوراوسلی ؔ اوربراؤن نے فارسی شعروادب پرکیالکھاہے۔ارسطو کی کی کتاب کے تنقیدی مضامین اورحمیدالدین فراھی کی ’جمہرۃ البلاغتہ‘،ان سب سے صاحب شعرالعجم نے استفادہ کیاہے ۔عربی شعروادب میںمصنف کے تبحّر نے ’’شعرالعجم ‘‘ کی علمی سطح کوبلند کردیا …..‘‘(ماہنامہ ادیب(شبلی نمبر )ص۔۱۲۴،ستمبر ۱۹۶۰ء)
شبلیؔ نے ’شعر العجم ‘میں یہ نتیجہ نکالا ہے کہ عشقیہ شاعری کے ایرانی نسل، ایران کی آب و ہوااوروہاں کے خصوصی ماحول کی دین ہے۔عربی شاعر ی کاایک بڑامیدان مفاخرت یعنی جاں بازی، مخاطرۂ نفس ، اندھادھنددلیری کے خیالات ،عربی نسل ،عرب کے جغرافیائی حالات اور وہاں کے خاص ماحول کے زیراثر پیداہوا۔شبلی ؔ کی نظرمیںشیکسپئیرؔ ،ملٹنؔ اور براؤننگ ؔ کی طرح خیّام ،حافظ ؔ ، مولانا روم ؔ ،عطارؔ ،سعدیؔ اورخسروؔ بھی مخصوص صورت حال کی پیداوار ہیں۔ جس انداز سے تین ؔ نے رائسنؔ کے ڈرامے اورشاعری کوفرانسیسی آب وہوااوراٹھارویں صد ی کے تاریخی احوال کا عطیہ بتایاہے،ٹھیک اسی انداز سے شبلی ؔ بھی فردوسیؔ کے شاہنامے کوایرانی نسل، ایرانی آب وہوا اورایران کے مخصوص تاریخی احوال کاعطیہ بتاتے ہیں۔ شبلیؔ کایہ تاریخی تجزیہ صرف عشقیہ شاعری، مفاخرت اورمذکورہ بالا شعراء اورفردوسیؔ کے’شاہنامہ‘تک ہی محدود نہیںبلکہ اس طرح کے بے شمار نتائج ’شعر العجم‘ اوران کے مقالات میںموجود ہیں،جوتینؔ کے تاریخی نقطۂ نظر کے اثرکا نتیجہ معلوم ہوتے ہیں یااس کے مماثل نظرآتے ہیں:
’’ایک نقطہ سنج کایہ فرض ہے کہ ہردو رکی خصوصیتوں کاپتہ لگائے ،نہ صرف ان کا جوسطح پرنظرآتے ہیں بلکہ ان کابھی جوتہہ میںہیں اورجن پرعام نگاہیں نہیںپڑسکتیں۔ اس کے ساتھ ان خصوصیتوں کے وجوہ اور اسباب بتائے یعنی کیوںکر پیدا ہوئیں اور کس طرح ایک رنگ دوسرے رنگ سے بدلتا گیا‘‘۔(بحوالہ ماضی آگاہ مستقبل نگاہ ،شبلی نعمانی ۔ص ۸۰(مرتب)پروفسیراخترالواسع)
’شعر العجم ‘ میں شبلی ؔ کا تاریخی اورسماجی شعور عروج پرنظرآتاہے اورنتائج میں شعورفرانسیسی نقاد تینؔ کے تاریخی نظریہ تنقید سے جاملتاہے۔ ’شعرالعجم‘ کی تصنیف سے پہلے شبلی ؔ فرنچ زبان سیکھ رہے تھے۔ آرنلڈ سے ملنے پرانہیں اس کااندازہ ہوچکاتھا کہ فرانسیسی زبان میں اس موضوع پر بہت سی کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔شبلی ؔ نے اس بات کااعتراف بھی کیاہے کہ فرنچ کی کئی کتابیں ان کی نظرسے گزر چکی ہیں،انہوںنے کچھ مصنفین کے نام بھی گنوائے ہیں مگران میں تین ؔ کاذکر نہیںہے۔اگرتین ؔ کی کتاب شبلی ؔ کے پیش نظررہی بھی ہوتب بھی یہ شبلی ؔ کا ایک بڑاکارنامہ ہے کہ انہوںنے تینؔ کے معیاروں پرپوری عجمی شاعری کامدلل تنقیدی جائزہ پیش کیا اوراگریہ معیار شبلی نے خود بناے ہوں تو شبلی کا یہ کارنامہ اور بھی بڑا اور وقیع ہوجاتاہے۔
رابطہ :ریسرچ اسکالر،کشمیریونیورسٹی،سرینگر