قانون بطور پیشہ طلباء کو نئے مواقع دریافت کرنے اور زندگی میں فاتح بننے کے کر یئر کے مواقع کی بہتات فراہم کرتا ہے۔ لہذا ، یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ ان دنوں زیادہ سے زیادہ نوجوان شعبہ قانون کا انتخاب ترجیحی بنیادوں پر اور بہتر مستقبل کی بناء پر کررہے ہیں۔ زباندانی کی بہتر صلاحیت ، منطقی استدلال، تجزیاتی مہارت ، پڑھنے اور سنجیدگی کی قابلیت کے حامل ہر فرد کے لئے شعبۂ قانون انتہائی مناسب ہے۔ مختلف قانون کی تعلیم دینے والے ادارے(لاء اسکولس)ان کی صلاحیتوں میں مزید اضافہ کرتے ہیں اور انھیں شعبہ قانون میں پیشہ ور بناتے ہیں۔
شعبہ قانون میں کیرئیر بنانے کے طریقے
اس شعبہ میں کرئیربنانے کے دو طریقے ہیں : (الف) بارہویں کامیاب کرنے کے بعد پانچ سال کا انٹیگریٹید ایل ایل بی کا کور س۔ (ب) گریجویشن مکمل کرنے کے بعد تین سال کا ایل ایل بی کا کورس۔ لیکن ان دونوں طریقوں میں طلبہ کو مختلف اہلیتی امتحانات کامیاب کرنا لازمی ہے۔ ان اہلیتی امتحانات میں سب سے زیادہ اہم ’’سی ایل اے ٹی (کامن لاء اپٹی ٹیوٹ ٹیسٹ)(CLAT) ‘‘ہے جو ملک کی تقریباً بائیس مرکزی لاء یونیورسٹیز اور دیگر باوقار اداروں میں وکالت کی تعلیم کے داخلہ کا پروانہ ہے۔ اس کے علاوہ نیشنل لاء یونیورسٹی دہلی کا ’’آل انڈیا لاء انٹرنس ٹیسٹAIET‘‘، آئی آئی ٹی کھڑگ پور لاء اسکول، او پی جندل گلوبل یونیورسٹی ، امیٹی لاء اسکول وغیرہ کے لیے منعقد کیا جانے والا ’’لاء اسکول ایڈمیشن ٹیسٹ LSAT‘‘ یا پھر ریاستی یونیورسٹیوں کے ذریعے جاری لاء کالجوں میں داخلے کے لیے ہونے والے کامن انٹرنس امتحانات جیسے ’’مہاراشٹر اسٹیٹ کامن انٹرنس اگزام (برائے قانون)MH CET Law ‘‘ وغیرہ۔
کامن لاء اپٹی ٹیوٹ ٹیسٹ (CLAT)
ملک میں بائیس قومی لاء یونیورسٹیاں ہیں جن میں سے دہلی لاء یونیورسٹی کے علاوہ دیگر تمام یونیورسٹیز اور قانون کی تعلیم دینے والے کچھ نام ور ادارے اس اہلیتی امتحان کی بناء پر بارہویں کے بعد پانچ سالہ انٹیگریٹیڈ کورس میں داخلہ دیتے ہیں۔ عام طور پر یہ امتحان سال میں ایک مرتبہ مئی کے دوسرے ہفتے میں منعقد ہوتا ہے جبکہ اس امتحان کا نوٹیفکیشن اکتوبر / نومبر میں اور آن لائن فارم بھرنا، جنوری کے دوسرے ہفتے میں شروع ہوتا ہے۔ بارہویں امتحان میں جنرل اور اوبی سی امیدواروں کا کم از کم پینتالیس فیصد مارکس اور اہلیتی امتحان کی فیس چار ہزار روپئے ہے جبکہ ایس سی ایس ٹی امیدواروں کے لیے بارہویں میں چالیس فیصد اور اہلیتی امتحان کی فیس تین ہزار پانچ سو روپئے ہے۔ نیشنل لاء یونیورسٹیز اور دیگر اداروں کی فہرست اور داخلہ گنجائش کی تفصیل انٹرنیٹ پر دستیاب ہے۔
امتحان کا طریقہ کار : CLAT کا امتحان صرف انگریزی زبان میں ہوتا ہے کل 200 مارکس کا پرچہ 2 گھنٹے میں مکمل کرنا ہوتا ہے جبکہ ایک چوتھائی منفی مارکنگ ہوتی ہے (یعنی چار غلط جوابات پر ایک مارکس نفی کیا جاتا ہے)۔ اس امتحان میں زباندانی کی مہارت (Verbal Ability)کے لیے 40 مارکس، ریاضی (Mathematics)کے لیے 20مارکس، منطقی استدلال(Logical Reasoning) کے لیے 40مارکس، عام معلومات (General Awareness)کے لیے 50مارکس اور قانونی رجحان(Legal Aptitude)کے لیے 50مارکس مختص ہوتے ہیں۔
CLATاور MHT-CET Lawدونوں اہلیتی امتحانات میں اب تک کے امیدواروںکی عمر کی کوئی حد نہیں ہے یعنی کسی بھی عمر کے امیدوار داخلہ امتحانات میں شرکت کرسکتے ہیں ۔اس داخلہ امتحان کی فیس جنرل امیدوار کے لیے آٹھ سو روپئے جبکہ اوبی سی ، ایس سی ایس ٹی وغیرہ کے لیے چار سو روپئے ہے۔
امتحان کا طریقہ کار :MHT CET Law امتحان کا دورانہ دو گھنٹے ہوتا ہے۔ کل ایک سو پچاس سوالات حل کرنے ہوتے ہیں جو کثیر متبادل جوابات (MCQ)پر مبنی ہوتے ہیں۔ یہ امتحان انگریزی اور مراٹھی دونوں زبانوں میں آ ن لائن (کمپیوٹر بیسڈ ٹیسٹ) ہوتا ہے۔ ہر سوال ایک مارک یعنی پورا پرچہ ایک سو پچاس مارکس کا ہوتا ہے جبکہ کوئی منفی مارکنگ نہیں ہوتی۔ پانچ سالہ انٹی گریٹیڈ کورس کے اہلیتی امتحان کے پرچے میں قانونی رجحان اور قانونی استدلال (Legal Aptitude and Legal Reasoning) پر 40 سوالات ، عام معلومات و حالات حاضرہ (GK & Current Affairs) پر 30 سوالات، منطقی و تجزیاتی استدلال (Logical and Analytical Reasoning) پر 40 سوالات، ریاضی (Mathematics) پر 10سوالات، انگریزی زباندانی (English) پر 30 سوالات پوچھے جاتے ہیں۔ جبکہ تین سالہ بیچلر آف لاء کے لیے اہلیتی امتحان کا پرچہ رجحان اور قانونی استدلال (Legal Aptitude and Legal Reasoning) پر 30 سوالات ، عام معلومات و حالات حاضرہ (GK & Current Affairs) پر 40 سوالات، منطقی و تجزیاتی استدلال (Logical and Analytical Reasoning) پر 30 سوالات اور انگریزی (English) 50سوالات پر مشتمل ہوتا ہے۔
امتحان کی تیاری : بازار میں کئی پبلیکیشن کی کتابیں موجود ہیں جس سے ان اہلیتی امتحانات کی تیاری کی جا سکتی ہے اس کے علاوہ ویب سائٹ پر موجود مشقی امتحانات (Mock Test) سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ یوٹیوب پر موجود بہت سے ویڈیو ان امتحانات کی تیاری میں مدد گار ثابت ہوں گے ۔ طلبہ کو یاد رکھنا چاہیے کہ اچھے کالج میں داخلہ حاصل کرنے کے لیے اہلیتی امتحانات میں زیادہ سے زیادہ مارکس حاصل کرنا بہت ضروری جس کے لیے منصوبہ بند اور منظم پڑھائی نہایت اہم ہے۔
پانچ سال پر مشتمل کورس بی اے، بی کام، بی ایس سی کے ساتھ بیچلر آف لاء کی ڈگری فراہم کرتا ہے۔ طالبعلم اپنے بارہویں کے مضامین کی بنیاد پر گریجویشن کے مضامین کا انتخاب کرسکتے ہیں جبکہ کسی بھی فیکلٹی سے گریجویشن کامیاب امیدوار تین سال پر مشتمل بیچلر آف لاء میں کی ڈگری کے حامل بنتے ہیں۔ کالج کے فائنل ایر میںطالبعلم اپنی آئندہ کی پریکٹس کے لیے مخصوص مضامین کا انتخاب کرسکتے ہیںمثال کے طور پرکریمنل لاء، سول لاء، انٹیلیکچول پراپرٹی لاء، کارپوریٹ لاء، ٹیکس لاء وغیرہ۔
شعبہ قانون میں گریجویشن مکمل کرنے والے امیدواروں کے لیے کرئیر کے مواقع
۱) قانونی پریکٹس (Litigation) : اس شعبہ میں گریجویٹ امیدواروں کا سب سے پہلااور بنیادی کام اپنے کلائنٹ کو قانونی مدد فراہم کرنا ہے۔ مختلف معاملات میں تصفیہ کے لیے عدالتی چارہ جوئی اور قانونی خدمات کی فراہمی جن کا تعلق فوجداری اور شہری معاملات سے ہوتا ہے۔ ابتداء میں بحیثیت وکیل (Lawyer) اپنی خدمات انجا م دینے والے افراد کے لیے بہتر ہے کہ وہ سینیئر وکلاء کی نگرانی میں عدالتی کاروائیوں اور معاملات کو عدالت میں پیش کرنے، دستاویزات تیار کرنے میں مہارت حاصل کریں۔ حالانکہ اس مرحلے میں انہیں زیادہ تنخواہ نہیں ملتی عموما ً پندرہ تا بیس ہزار روپئے ماہانہ ہوتی ہے۔ لیکن محنت اور تجربہ انھیں آئندہ کام آتا ہے اور جیسے جیسے تجربہ حاصل ہوتا ہے اور نئے کلائنٹ بنتے ہیں کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے۔
۲) تجارتی امور میں صلاح کار (Corporate Counsel) : کارپوریٹ وکلاء اپنی کمپنی کے قانونی معاملات کی دیکھ ریکھ کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ یہ کمپنی کی اندرونی ٹیم کا حصہ بھی ہوسکتے ہیں اور کمپنی کے لیے بحیثیت لاء فرمس (Law Firms) بھی اپنی خدمات انجام دیتے ہیں۔ ان کا کام مختلف معاہدوں کو قانونی روشنی میں پایہ تکمیل تک پہنچانا، کمپنیوں کے انضمام کی کاروائی انجام دینااور کسی قانونی پیچیدگی میں کمپنی کی نمائندگی کرنا وغیرہ شامل ہوتا ہے۔ کسی اچھی اور باوقار قانونی فرمس میں ایک نیا قانونی مشیر بھی چھ تا آٹھ لاکھ روپئے سالانہ آمدنی کا متحمل ہوسکتا ہے۔
۳) عد لیہ اور سول سروسیس (Judiciary and Civil Services) : عدلیہ کی خدمات کے لیے ریاستی سطح پر مسابقتی امتحانات منعقد کیے جاتے ہیں۔ آئی اے ایس، آئی پی ایس، آئی ایف ایس اور دیگر مرکزی خدمات کے لیے یونین پبلک سروسیس کمیشن امتحانات منعقد کرتا ہے۔ ایسے لاء گریجویٹس جو حکومتی ملازمت کے خواہاں ہوں اور بحیثیت جج اپنی خدمات انجام دینا چاہتے ہوں وہ ریاستی سطح کے مسابقتی امتحانات میں شرکت کرسکتے ہیں۔ ریاست مہاراشٹر میں جج کے امتحانات مہاراشٹر پبلک سروسیس کمیشن (MPSC) منعقد کرتا ہے جسے جیوڈیشل مجیسٹریٹ فرسٹ کلاس امتحان (JMFC) کہتے ہیں۔ ان امتحانات میں شرکت کرکے نچلی عدالتوں میں بحیثیت جج تقرری ہوتی ہے۔ ان امتحانات میں شرکت کرنے والے امیدواروں کے لیے بہتر ہے کہ وہ گریجویشن کے بعد ایک سے دو سال کا تجربہ حاصل کرلیں۔ جج حضرات کی تنخواہ حکومت کی جانب سے طے کی جاتی ہے اور تنخواہ کے علاوہ انھیں دیگر مراعات بھی حاصل ہوتی ہیں۔
۴) عدلیہ میں کلرک شپ (Judiciary Clerkship) : عدلیہ میں کلرک شپ کانٹراکٹ کی بنیا دپر ہوتی ہے اور مختلف عدالتوں میں جج کے ماتحت بحیثیت کلرک شپ اپنی معلومات اور مہارت میں مزید اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ سپریم کورٹ میں کلرک شپ کے لیے ماہانہ چالیس تا پچاس ہزار روپئے تنخواہ حاصل کی جاسکتی ہے۔
۵) میڈیا اور اشاعتی و طباعتی ادارے (Media and Publication) : شعبہ قانون کے گریجویٹس معلومات کی فراہمی اور اطلاع دہندگی کا کام بھی انجام دے سکتے ہیں۔ اہم قانونی معاملات پر کتابوں کی تصنیف یا کسی میڈیا ہائوس سے منسلک ہوکر عدالتوں میں جاری قانونی معاملات کی خبریں فراہم کرنے کا کام بھی کیا جاسکتا ہے۔روزانہ کے معاملات اور سیاست پر گہری نظر رکھنے والے افراد جنھیں تحریری کاموں میں دلچسپی ہو ان کے کے لیے یہ ایک اطمینان بخش کرئیر ثابت ہو سکتا ہے۔
۶) بیرونی ملک قانونی مدد کی فراہمی (Legal Process Outsourcing) : LPO میں کام کرکے قانون کے گریجویٹس بیرون ملک میں اپنے کلائنٹس کو قانونی مشورے اور دستاویزات و معادوں کی تیاری میں مدد کرسکتے ہیں۔
۷) تعلیم و تدریس (Academia) : لاء گریجویٹس بحیثیت استاد بھی اپنی خدمات انجام دے سکتے ہیں۔ لیکن کالج اور یونیورسٹی سطح پر تدریس کے فرائض انجام دینے کے لیے ماسٹر ڈگری لازمی ہے۔ ایل ایل بی مکمل کرنے کے بعد امیدوار دو سالہ ماسٹر ڈگری ایل ایل ایم کرسکتے ہیں اور شعبہ تدریس کے لیے NET / SET امتحان کامیاب کرکے بحیثیت لیکچرر اپنی خدمات انجام دے سکتے ہیں۔ تنخواہ حکومت کے تجویزکردہ دائیگی کمیشن کے مطابق ہوتی ہے۔ مزید ایل ایل ایم (LL.M) ڈگری یافتہ امیدوارایک مخصوص اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور بیرون ملک ملازمت میں اس کی کافی اہمیت ہوتی ہے ۔ بین الاقوامی قوانین مثلاً بین ا لاقوامی تجارتی معاملات میں ثالثی، بین الاقوامی قوانین و پالیسی کا مطالعہ وغیرہ امیدوار کو اپنی پسند کے کسی بھی ملک میں ملازمت کے مواقع فراہم کرتا ہے۔
۸) سماجی خد مت (Social Work) : اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ وکلاء (lawyers) بہترین سماجی خدمت گار ہوسکتے ہیں کیونکہ وہ سماج کے تمام طبقوں کے قانونی حقوق ، فرائض اور ذمہ داریوں سے واقف ہوتے ہیں۔ مختلف غیر تجارتی تنظیموں (این جی اوز) اور حکومتی کمیشنوں مثلاً قومی کمیشن برائے خواتین، قومی کمیشن برائے تحفظِ حقوقِ اطفال، قومی کمیشن برائے حقوقِ انسانی وغیرہ کے ساتھ مل کر با معنی کام کیا جاسکتا ہے۔
موجودہ وقت میں اقلیتوں کو بالخصوص اس شعبہ کی جانب توجہ دینے اشد ضرورت ہے۔ اسکولی سطح سے ہی طلبہ میں مقابلہ جاتی اسپرٹ پیدا کرنا، انگریزی زباندانی میں مہارت حاصل کرنے کے اقدامات کرنا، وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ جونیر کالج اور ڈگری کالج کی سطح پر ایسے طلبہ کی نشاندہی کرکے باقاعدہ اس شعبہ میں ان کی تربیت اور اہلیتی امتحانات کی تیاری کروائی جائے تو قلیل عرصے میں اس شعبہ میں ہمارے طلبہ کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔
ای میل۔[email protected]