انسان کوجو صفت دوسری مخلوقات سے ممتاز وممیز کرتی ہے، ان میں نمایاں صفت اس کی شرم وحیا کی حِس اور جذبۂ عفّت ہے۔حیا مرد اور عورت دونوں کا یکساں اخلاقی وصف ہے۔ یہ وصف ہمیں پوری آب و تاب کے ساتھ قصۂ آدم و حوا میں نظر آتا ہے۔ جب دونوں میاں بیوی نے ابلیس کے دھوکے میں آکر شجر ِممنوعہ کا پھل کھالیا تو ان کا جنت کا لباس اُتروا لیا گیا تھا۔ دونوں کو اپنی برہنگی کا احساس ہوا اور اس حالت میں انہیں اور کچھ نہ سوجھا تو انہوں نے فوراً جنت کے درختوں کے پتوں سے اپنی شرم گاہیں ڈھانپنے کی کوشش کی۔
زندگی کے جس شعبے سے بھی حیا رخصت ہو جائے وہاں بے اصولی ، بے ضمیری ، بے شرمی اور بے حیائی غالب آجاتی ہے۔ جھوٹ اور مکر و فریب کو فروغ ملتا ہے۔ خودغرضی ، نفس پرستی اور مادہ پرستی کا چلن عام ہو جاتا ہے۔ حرص و ہوس غالب آتی ہے۔ دل و دماغ پر خدا پرستی کے بجائے مادہ پرستی چھا جاتی ہے۔
خوشی اور غصے کے اظہار کے طریقے انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں میں بھی پائے جاتے ہیں لیکن شرم و حیا ایسا وصف ہے جو صرف انسان میں پایا جاتا ہے۔ یہ جانور اور انسان کے درمیان فرق کی بنیادی علامت ہے۔ اگر لب و لہجے،حرکات و سکنات اور عادات و اطوار سے شرم و حیا رخصت ہو جائے تو باقی تمام اچھائیوں پر خود بخود پانی پھر جاتا ہے اور دیگر تمام نیک اوصاف کی موجودگی کے باوجود اپنی وقعت کھو دیتے ہیں۔ جب تک انسان شرم وحیا کے دائرے میں رہتا ہے ذلت و رسوائی سے بچا رہتا ہے اور جب اِس قلعہ کو ڈھا دیتا ہے تو پھر گھٹیا کام بھی بڑی ڈھٹائی کے ساتھ انجام دیتا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ مردوں کے اخلاق و عادات بگڑنے سے معاشرہ بگڑنے لگتا ہے اور جب عورتوں میں یہ بیماری پھیل جائے تو نسلیں تباہ و برباد ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا مرد ہو یا عورت اسلام دونوں کو حیا اپنانے کی تلقین کرتا ہے اور حیا کو تمام اخلاقیات کا سرچشمہ قرار دیتا ہے۔ اسلامی تعلیمات فطرتِ انسانی میں موجود شرم و حیا کی صفت کو اْبھارتی ہیں اور پھر اس میں فکر و شعور کے رنگ بھر کر اسے انسان کا خوشنما لباس بنا دیتی ہیں۔ یاد رکھئے! اگر انسان خود شرم و حیا کے تقاضوں پر عمل پیرا ہو گا تبھی اس کی اولاد بھی ان صفات و خصائل کی حامل ہوگی اور اگر وہ خود شرم و حیا کا خیال نہ رکھے گا تو اولاد میں بھی اس طرح کے خراب جراثیم سرایت کرجائیں گے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ حیا کو متاثر کرنے والے تمام عوامل سے دور رہا جا ئے اور اپنے تَشخص اور روحِ ایمان کی حفاظت کی جائے۔
یہ ایک تاریخی سچائی ہے کہ جب کبھی انسان نے شرم و حیا کی چادر کو تار تار کر کے عریانیت و فحاشی کا راستہ اختیار کیا تو زوال نے اس کے دروازے پر دستک دی۔اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کے رشتے میں ایک عمومی حرمت قائم کی ہے یعنی عورت اور مرد کے آزادانہ جنسی اختلاط پر پابندی لگائی ہے۔ اس پابندی کے دو مقاصد ہیں۔ ایک تو یہ کہ ایک ایسی سوسائٹی قائم ہو جس کی بنیاد آزادانہ جنسی تعلق کے بجائے نکاح کے اصول پر ہو تاکہ ایک مضبوط خاندانی نظام کو فروغ دیا جاسکے۔ اس پابندی کا دوسرا مقصد انسان کو آزمانا ہے کہ کون اپنے نفس کے تقاضوں کو لگام دے کر خدا کی اطاعت و بندگی اختیار کرتا ہے اور کون صدائے نفس پرلبیک کہہ کراللہ کی نافرمانی کا مرتکب ہوتا ہے۔شیطان کی دراندازی اور نفس کے ناجائزتقاضوں کے باعث اللہ تعالیٰ نے انسان کو شرم وحیا اختیار کرنے کی واضح ہدایات دی ہیں۔ اگر ابتدا ہی سے حیاپر مبنی رویہ اختیار کیا جائے تو بے حیائی کی روک تھام آسان ہوسکتی ہے۔
حیا کا مفہوم اس قدر وسیع ہے کہ یہ معاشرتی زندگی کے ہرایک پہلو کا احاطہ کرسکتا ہے۔لوگوں سے حیا یہ ہے کہ حقوق العباد ہر ممکن طریقے سے ادا کئے جائیں۔ اس میں والدین کے حقوق، اساتذہ کے حقوق، میاں بیوی کے حقوق، اولاد کے حقوق، دوست و احباب کے حقوق، ہمسایوں کے حقوق، پڑوسیوں کے حقوق اور بزرگوں کے حقوق شامل ہیں جس سے معاشرے کی تشکیل ہوتی ہے۔ ان تمام لوگوں کے سامنے جن باتوں کے اظہار کو معیوب اور برا سمجھا جاتا ہے ان کے اظہار سے بچنا دراصل حیا ہے۔ ان تمام معاشرتی افراد کے حقوق ادا کرنا ہی دراصل حیا ہے۔ ان لوگوں کے حقوق میں دست درازی کرنا یا ان کے حقوق ادا نہ کرنا بے حیائی ہے۔
اسی طرح اپنے نفس سے حیا یہ ہے کہ نفس کو ہر برے، قابلِ گناہ، قابلِ مذمت اور قابلِ شرم کاموں سے بچایا جائے۔ معصیت کے ہر کام کی روکتھام کیلئے نفسِ لوامہ کی بات سنی جائے۔ اپنے نفس کو نفسِ امارہ سے روکا جائے اور نفسِ مطمئنہ کی جانب راغب کیا جائے تاکہ ابدی اطمینان کی زندگی ممکن ہوسکے۔
ہم اپنی روزمرہ زندگی میں لفظ’حیا‘سے واقف ہیںلیکن کیا کبھی ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ دراصل حیاسے کیا مراد ہے؟ حیا سے متعلق بہت سی تعریفیں ہونگی لیکن بہترین تعریف مولانا سید مو دودیؒ کی کتاب ’پردہ‘ میں موجود ہے۔جس میں کہا گیا ہے کہ’’اسلام کی اصطلاح میں حیا سے مراد وہ شرم ہے جو کسی امر منکر کی جانب مائل ہونے والا انسان خود اپنی فطرت کے سامنے اورخدا کے سامنے محسوس کرتا ہے‘‘۔
ہمارے معاشرے میں خیروبھلائی اور ہماری زندگیوں میں حسن وخوبی اسی صورت میں پیدا ہوسکتی ہے کہ ہم اپنی ذات، گھر، اداروں، گلی محلوں، تقریبات اور ملبوسات ہرچیز کو قرآن وسنت کی تعلیمات کے تابع کردیں۔ اس کام کا آغاز اگر ہم اپنی ذات اور گھر سے کردیں تو دیکھتے ہی دیکھتے اس کے اثرات پھیلنے لگیں گے اور یوں پورا معاشرہ معطر ہوجائے گا۔
حیا انسان کو پاکباز و پرہیزگار بناتی ہے،صالحیت کو فروغ دیتی ہے، برائیوں سے اجتناب کرنا سکھاتی ہے اور اگر بندے سے کوئی کوتاہی یا گناہ سرزد ہوجائے تو یہ اس کی غیرت ہی ہوتی ہے جو اس کو احساس دلاتی ہے شرمندگی سے دو چار کرتی ہے اور باحیا انسان کسی غلط کام کے ارتکاب پر لوگوں کا سامنا کرنے میں جھجک محسوس کرتا ہے جبکہ بے حیا انسان ڈھٹائی سے اپنے کارنامے دنیا کو سناتا پھرتا ہے۔ ایک بے حیا اور بے شرم انسان بری اور ناپسندیدہ حرکات کے ارتکاب میں اگر کوئی خوف محسوس نہیں کرتا، تو یہ دلیری اور آزادی نہیں ہے، یہ بے حیائی ہے۔ معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں اور حد سے بڑھتی ہوئی اخلاقی باختگی عام ہوجانے کے باوجود اگر ہم منکرات کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہیں کرتے، تو یہ خاموشی اور گنگ زبانی حیا کی وجہ سے نہیں ، بلکہ دولت کی حرص، مفادات کی لالچ، جان کے خوف اور بزدلی کی وجہ سے ہوتی ہے۔
حیا انسان کا فطری وصف ہے اور بلاشبہ نہایت بلند اور مستحسن وصف ہے لیکن شرم و حیا اور بزدلی میں فرق ہے۔ شرم و حیا ہمیں ناشائستگی سے روکتی ہے۔ بری خواہشات اور منکرات کے ارتکاب سے بھی ہمیں بچاتی ہے۔ہر انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے معاشرہ اور سوسائٹی کو پاکیزہ بنانے کی فکر کرے، ا س کے مردوں او رعورتوں میں پاکیزگی کے خیالات کو فروغ دیا جائے ، بچوں اور نوجوانوں کو پاکیزہ اخلاق کا حامل بنائیں ۔