کئی سالوں بعد مسعود منیر اپنی بیوی بچوں کو لے کرسعودی عرب سے واپس اپنے گھر کشمیر ایک مہینے کی چھٹی پر آئےہوئے تھے۔
اس کی بڑی بیٹی عفت کی عمر آٹھ سال اور چھوٹی بیٹی رفعت کی عمر چھ سال کی تھی۔ پر سعودی کی آب و ہوا اور کھان پان سے وہ اپنی عمر سے کافی بڑی اور تندرست دکھتی تھی۔
وہ لوگ اکثر تین چار سالوں کے بعد ہی اپنے وطن اپنے رشتے داروں ،یاروں اور دوستوں سے ملنے آتے۔ چھٹیاںبھی وہ ان ہی کے ہاں گُزارتے۔
مسعود منیر اور اس کی بیوی فاطمہ سعودی عرب میں بحیثیت ڈاکٹر کام کر رہے تھے۔وہاں ہی ان کے بچوں کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ چلا۔
مسعود منیر کے بھائی، بھابیاں اور ماں بڑی ہی بے صبری سے اس کا اور اس کے بیوی بچوں کا انتظار کر رہے تھے۔ انتظار میں گزارے ہوئے ہفتے بھی اس کی ماں کے لئے کئی مہینوں کے انتظار کے برابر کا تھا۔ بیٹے، بہو اور پوتیوں کے آنے کی خوشی میں اس نے اخروٹ، کشمیری انچار،سوکھی سبزیاں، کشمیری ساگ غرض وہ ساری چیزیں جمع کی تھیں، جو اس کے بیٹے اور اس کے بچوں کو پسند تھیں۔ آخر کار وہ اتوارکی شام کے چھ بجےاپنے گھر پہنچ گئے۔
مسعود منیر کی ماں، بھائیوں اور بھابیوں نے بڑی خوشی سے اُن کا خیرمقدم کیا۔ اُن کے لئے کئی ساری زیافتیںپکائی گئی تھیں، جو ان سب کو پیٹ بھر کھلائی گئیں۔
عفت اور رفعت سعودی عرب میں ہی پیدا ہوئی تھیں۔وہ انگریزیایسے بولتی تھیں مانو ان کی مادری زبان ہو۔سعودی میں رہنے کے باوجود وہ معمولی سی عربی بول پاتے تھے اور کشمیری ہونے کے عوض بس کچھ کشمیری الفاظ۔نہ جانے انہیں عرب میں رہ کر اردو کیوں کر سکھائی گئی تھی، جس کا استعمال وہ کشمیر آکر اپنےرشتے داروں سے کرتی تھیں۔ ان کی زبان ان کی دادی، نانی اور دیگر بزرگوں کیلئے پریشانی کی وجہ تھی۔ نہ تو وہ دادی کی بات سمجھ پاتے اور نہ ہی دادی اُن کی۔ لہٰذا ان کی گفتگو اکثراشاروں اشاروں میں ہی ہوتی یا پھر اکثر و بیشتر دادی اور بچوں کی گفتگو کے دوران ایک مترجم کی ضرورت رہتی۔ جو یا تو مسعود منیر یا فاطمہ یا کوئی اور گھر والا ہوتا۔ مسعود سے اُس کی ماں ہمیشہ اس بات کا گلہ کرتی کہ وہ اپنی پوتیوں سے دل کھول کر بات نہیں کر پاتی۔
خیر خاطرداری میںدس دنوں کے گزرنے کاکسی کو پتہ بھی نہیں چلا۔ایک صبح مسعود منیر اور فاطمہ کو اپنے کسی دوست کے ہاں جانا تھا۔ گھر میں دادی اور مسعود کے بچوں کے بغیر کوئی اور موجود نہ تھا۔ دادی اور بچے اشاروںاشاروں اورٹوٹی پھوٹی اردو میںایک دوسرے سے گفتگو کر رہے تھے۔
دادی بیچاری کئی سالوں سےپیٹھ کی درد کی مریض تھی۔ وہ اپنی حویلی کےورانڈےپر لیٹے دھوپ سینک رہی تھی۔ کبھی ایک کروٹ تو کبھی دوسری ۔ اس کی ٹانگیں درد سے نڈھال تھیں۔ "اُف ! درد" دادی کے منھ سے بیساختہ یہ الفاظ نکل رہے تھے۔ وہ اپنی ٹانگیں خود ہی دبا رہی تھی ۔ اُس کی پوتیوں سے اس کی حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی۔ وہ دادی کی مدد کرنا چاہتے تھے۔ اشاروں اشاروں میں وہ اس سے پوچھ رہے تھے "کیا ہم آپ کو کوئی دوائی دی؟ کیا آپ کا سرد دبائیں؟"
عفت نے دادی کے سرہانے بیٹھ کرپوچھا۔"داری ہاؤ کین وی ہیلپ یو؟"(How can we help you)
"زنگن کررم لتہ منڈ"دادی نے کو لہو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ جس کا مطلب تھا ۔میری ٹانگیں دبا دو۔
"لتہ منڈ ! وٹ ڈز دیٹ مین ؟" (What Does that mean?)دونوں بہنوں نے ایک ساتھ پوچھا۔
دادی کی بات نہ تو افت سمجھ پائی اور نہ ہی رفعت۔ "دادی آپ کیا کہنا چاہتی ہیں؟"
دادی نے پھر سے کولہوکی طرف اشارہ کرتے ہوئے کشمیری میں بولے گئے اپنے جملے کو اُردو میں کچھ یوں ترجمہ کر کے کہا"لات مارو"۔
’’لات مارے۔ آر یو شور؟"(Are you sure)عفت نے پوچھا۔
"يس سسٹر۔ شی سیز ٹو کک ہر ہپز" (Yes sister she says to kick her hips)رفعت نے عفت سے کہا۔
اتنے میں عفت کھڑی ہوئی اور دادی کے کولہوں پر زوردار لات ماری۔ دادی کے منھ سے ایک زور دار چیخ نکلی۔ "خُدایا مويس" ۔ مطلب میرے خدا میں مر گئی۔
وہ زور زور سے رونے اور چلانے لگی۔ اب نہ تو اُس سے بیٹھے جا رہا تھا اور نہ ہی وہ کھڑا ہو پا رہی تھی۔ دادی کو روتا دیکھ کر دونوں بہنیں بھی گھبرا کر رونے لگیں۔ چیخ و پکار اور لڑکیوں کا رونا سن کر محلے والے جمع ہو گئے۔
دادی کی حالت دیکھ کر اس کو ایک کمبل میں لپیٹ کر ہسپتال پہنچایا گیا، جہاں وہ کئی ہفتوں تک زیر علاج رہی۔
مسعود منیر اور فاطمہ کو بچی ہوئی ساری چھٹیاں ہسپتال میں اپنی ماں کی تیمارداری میں شرمسار ہو کر گزارنی پڑیں۔
���