کٹھوعہ //شاہ پور کنڈی پروجیکٹ ،جو کہ دہائیوں سے تعطل کا شکار رہا ہے، آخر کار2022تک فعال ہو جائے گا ،غالباً سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران ۔ان باتوں کا اظہا رمرکزی وزیر مملکت ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے ہفتہ کے روز یہاں پروجیکٹ کامعاینہ کرنے کے دوران ذرائع ابلاغ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہا کہ یہ گیم چینجر ہوگا،خصوصاً کٹھوعہ اور گورداس پور کیلئے۔انکے ہمراہ پروجیکٹ کے چیف انجیئنر ،ضلع ترقیاتی کمشنر کٹھوعہ ،جموں و کشمیر اور پنجاب سرکار کے سینئر افسراں نامور سیاسی کارکنان اور مقامی باشندے بھی تھے۔اس موقعہ پر ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے اپنے خطاب میںکہا کہ پروجیکٹ تقریباً40 برسوں تک تعطل کا شکار رہا اور مستقبل کے مورخوں سے اس سلسلہ میں قت کی سرکاروں کے منشا کو اجا گر کریں۔انہوںنے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی مداخؒت سے اس پروجیکٹ پر از سر نو غور کیا گیا اورنومبر 2018میں مرکزی سرکار کی جانب سے پروجیکٹ کے لئے نئے دستاویزات تیار کئے گئے ،جس پر پنجاب کے وزیر اعلیٰ کیپٹن ماریندر سنگھ اور ریاست جموں و کشمر کے گورنر ستیہ پال ملک نے دستخط کئے۔ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے اس با ت پر حیرانگی کا اظہار کیا کہ بہت سے لوگ وقت وقت پر پاکستان کو پانی بند کرنے پر سوال کرتے ہیں لیکن انہیں یہ احساس نہیں کہ بھار ت کے پانی کا حصہ بھی پاکستان چلا جاتا ہے کیونکہ دریائے توی ان تین دریائوں میں سے ایک دریا ہے ،جو بھارت کو الاٹ کیا گیا تھا لیکن شاہ پور کنڈی ڈیم کی عدم موجودگی کی وجہ سے سارا پانی بغیر استعمال کئے ہوئے پاکستان چلا جاتا ہے۔ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے مزید کہا کہ 2,800 کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر کئے جارہے پروجیکٹ سے پنجاب میں 5,000 ہیکٹر اراضی سیراب ہو جائے گا جبکہ جموں و کشمیر کے کٹھوعہ اور سانبہ اضلاع میں32,173ہیکٹر اراضی سیراب ہوگی۔انہوں نے کہا کہ اس پروجیکٹ سے تیار کی جانے والی بجلی سے پناجب اور جموں و کشمیر کے سرحدی اضلاع کو کافی فائدہ ہوگا۔کثیر مقاصد پروجیکٹ کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ اسے مودی سرکار نے تقریباً پانچ صدیوں کے بعد اسے بحال کیا لیکن اس پروجیکٹ کی تعمیر میں اس لئے تاخیر ہوئی کیونکہ ایک منصوبہ بنایا گیا تھا کہ ڈیم کا فالتو پانی پاکستان جانے کے بجائے نہروں کے ذریعہ سے ہمسایہ ریاستوں پنجاب ،ہریانہ اور راجستھان کو سپلائی ہو۔