کرتا ر پور راہداری کھولنے پر بھارت پاک مفاہمتکے بعد حکومت ہند کی درخواست پر پاکستانی حکومت کی طرف سے شارداپیٹھ جانے والے راستے کو کھولنے کےلئے مثبت ردعمل کا اظہار دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اور عوام کے درمیان روابط میں بہتری کے امکان کے حوالے سے ایک بہت بڑا اقدام سمجھاجارہاہے ۔ اس فیصلے سے جہاں دونوں پڑوسیوں کے درمیان پائی جارہی سرد مہری میں کمی واقع ہوگی وہیں متعدد بند پڑے تاریخیراستے بحال کرنے کی راہ بھی ہموار ہوگی، جو موجودہ دور کی اشد ضرورت بھی ہے کیونکہ ہم ایک ایسے دور میں زندگی بسر کررہے ہیں جہاں سرحدیں نرم کرکے دنیا کے سبھی ممالک ایک دوسرے سے روابط بڑھا رہے ہیں اور اپنی ترقی کی خاطر کشیدگیاں ختم کررہے ہیں۔ ٹیٹوال سے 50اور کیرن سےصرف 30کلو میٹر کی دوری پر واقع پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی نیلم وادی میں قائم 5ہزار سال قدیم مندرشاردا پیٹھ کو تاریخی اعتبار سے زبرست اہمیت حاصل رہی ہے اور یہ صدیوں تک حصول علم و معرفت کا ایک بڑا مرکز رہا ہےا ور اب حکومت پاکستان نے کرتار پور راہداری کی طرز پر اُسےکھولنے کا گرین سگنل دیاہے ۔پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے شاردا راہداری کھولنے کیلئے باقاعدہ ایک تجویزپاکستان کو بھیجی گئی جبکہ پاکستانی میڈیا نے یہ بتایاہے کہ حکومتی رکن اسمبلی چندروز میں اس علاقے کا دورہ کرکے رپورٹ وزیراعظم کوپیش کریں گے جس کے بعد اسی سال بحالی کاکام شروع کردیاجائے گا۔کشمیری پنڈٹ طویل عرصے سے دونوں حکومتوں سے یہ مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ انہیں پاکستانی زیر انتظام کشمیرمیں واقع ان کے قدیم اورمقدس ترین مندر شاردا تک جانے کی اجازت ملنی چاہیے۔اس راستے کے کھلنے سے پنڈت طبقہ کی یہ دیرینہ مانگ پوری ہوگی اور انہیں اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی کا موقعہ ملے گا۔ساتھ ہی دیگر راستے کھولنے کیلئے بھی راہ ہموار ہوسکتی ہے ۔یہ بات اہم ہے کہ سرحدی خطوں کے عوام اور ریاست کی بیشتر سیاسی جماعتوں کی طرف سے بارہادونوں حکومتوں سے یہ اپیل کی گئی ہے کہ 1947 سے قبل کےاُن راستوں کو دوبارہ سے مسافروں اور تجارت کیلئے کھولا جائےجنکی تاریخی اہمیت رہی ہے۔ اس طرحنہ صرف آر پار تجارت کے شعبے میں ترقی کے مواقع پیدا ہوں گے بلکہ لوگوں کا رابطہ بھی ایک دوسرے سے بڑھے گا۔ اگرچہ 2005میں پونچھ راولاکوٹ اور اوڑی مظفر آباد کے راستے کھولنے کے بعد دیگر راستوں کی بحالی کیلئے بھی کسی حد تک اقدامات شروع ہوئے تھے تاہم اس میں کوئی ٹھوس پیشرفت نہ ہوسکی ۔اس سلسلے میں چند برس قبل راجوری کے نوشہرہ جھنگڑ راستے کو کھولنے کیلئے کوششیں کی گئیں تھیںمگر دونوں ممالک کے بیچ پیدا ہونے والی کشیدہ صورتحال کے باعث بات آگے نہیں بڑھ پائی۔ اسی طرح سے جموں کی تجارتی انجمنوں کی طرف سے جموں سیالکوٹ راستے کو کھولنے کی بھی متعدد باراپیلیں کی گئیں لیکن آگے بڑھنے میں ہمیشہ کشیدگی آڑھے آتی رہی ہے ۔ مینڈھر ۔ تتہ پانی راہداری کو 2005میں بحال کرنے کے کچھ عرصہ بعد ہی خراب سڑک کی وجہ سے بند کرناپڑاجس کے بعد سڑک کی مرمت بھی ہوگئی مگر یہ راستہ پھر سے دوبارہ نہیں کھل پایا ۔حد متارکہ پر کھینچی گئی خونی لکیر نے خاندانوں کے خاندان تقسیم کررکھے ہیں اور سرحدی عوام یہ چاہتے ہیں کہ انہیں اپنے رشتہ داروں سے ملنے کیلئے مزید آزادی دی جائے اور ساتھ ہی تجارتی تعلقات بھی استوار کئے جائیں تاکہ سرحدی خطوں کی ترقی ممکن ہوسکے مگر بدقسمتی سے پہلے سے چل رہی تجارت بھی سکڑتی جارہی ہے جس پر تجارتی انجمنوں کو بھی زبردست تشویش ہے ۔ امید کی جانی چاہیے کہ شاردا پیٹھ راہداری کھولنے کیلئے جلد اقدامات کئے جائیں گے اور اسی طرح دیگر تمام قدیمی راستے بھی بحال کرکے جموں وکشمیر کو ایک سرحدی خطے سے مرکزی خطے میں تبدیل کیا جائے گا۔