اللہ تعالی نے انسانوں کی پیدائش کے بعد ان کی تمام اہم ضرورتوں کا انتظام اور اس کے لئے مناسب نظام بھی بنایا۔کھانے کے لئے غذائیں، پینے کے لئے پانی فراہم کیا تو ساتھ ہی حلال وحرام اور جائز و ناجائز کی تفصیلات واضح کرکے اس کا پابند کردیا۔ سانس لینے کے لئے ہوا اور آکسیجن کا فطری انتظام کیا، شجرکاری کی حوصلہ افزائی اور اس کی افادیت کو واضح کیا تو بے ضرورت درخت کاٹنے کو ممنوع قرار دے دیا۔ دنیا میں کامیاب زندگی کے لئے خاندان کی ضرورت، خاندان کی تشکیل اور وجود کے لئے نکاح کی مشروعیت، نکاح جیسے جائز اور مسنون عمل کی طرف ترغیب، اس کے بے شمار سماجی فوائد ، اس پر اجر و ثواب کا وعدہ ، ناجائز رشتوں کی قباحت و حرمت ، اس کی مذمت ،اس پر دنیوی سزا اور اخروی عذاب کو بیان کیا۔ اوراس طرح نکاح و شادی کے بعد ازدواجی تعلق کو نہایت مہذب شائستہ اور مطلوب طریقہ قرار دے کر اس کو نہایت آسان بنادیا۔
نکاح مرد اور عورت کا خالص نجی اور ذاتی معاملہ ہی نہیں، بلکہ یہ نسل انسانی کے وجود ، قیامت تک اس کی بقا و دوام اور بے شمار انسانی وسماجی ضرورتوں اور تقاضوں کی فراہمی اور تکمیل کے لئے اللہ اور رسول کی طرف سے متعین کردہ نہایت مہذب اور شائستہ طریقہ ہے اس لئے ا?ئیے جائزہ لیں کہ نکاح سے کن انسانی و سماجی ضرورتوں کی فراہمی اور تکمیل ہوتی ہے۔ اور اس کے کیا فوائد اور اس کے نہ ہونے کے کیا نقصانات ہیں، تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ نکاح اور شادی انسانوں کے لئے کیوں ضروری ہے۔
�اسلام میں نکاح کوکسی نا محرم سے آپسی پیار و محبت اور جائز تعلق کی بنیاد قرار دیا گیا اور اسے زندگی کی بہت سی اہم ترین ضروریات کی تکمیل، سکون و اطمینان اور باہمی الفت و مودت کا ذریعہ بنادیا گیا۔
�نکاح صرف انسانوں کی نجی ضرورت اور ان کا اختیاری مسئلہ و فیصلہ ہی نہیں ہے بلکہ اس کو اللہ نے بے شمار سماجی ضرورتوںاور عفت و پاکدامنی کی خاطر مطلوب و مسنون قرار دیا۔
�نکاح عام انسانوں کی ضرورت اور طریقہ کار ہی نہیں بلکہ یہ اللہ کے منتخب کردہ اور کائنات کے سب سے افضل اور دنیا میں آئیڈیل اور اسوہ بناکر بھیجے گئے انبیاء اور رسولوں کی سنت اور طریقہ ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے سورہ رعد آیت ۳۸ میں نکاح کو بیشتر نبیوں کا اسوہ قرار دیا اور فرمایا کہ ہم نے آپ سے پہلے رسول بھیجے اور ان کو بیوی بچوں سے نوازا۔
�نکاح وہ سنت ہے جس کے ذریعہ صرف دو لوگوں کو باہمی پیار و محبت اور الفت و مودت کے ساتھ مربوط نہیں کیا جاتا بلکہ بہت سے ایسے نئے رشتے بھی عطا کئے جاتے ہیں جو زندگی خوشگوار بنانے اور اس کی خوشیوں کو دو بالا کرنے اور دکھ درد بانٹنے کا سبب بن جاتے ہیں ۔
�اللہ تعالی نے نکاح کو بیشتر انبیاء کی سنت قرار دیا اور آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو صرف نجی اور جنسی ضرورت کے بجائے ایک عمومی بڑی سماجی ضرورت قرار دیتے ہوئے اس کی اہمیت، ضرورت اور فضیلت کو مزید واضح کیا اور اس کو خود اپنی سنت بھی قرار دیا اور فرمایا '' کہ نکاح میری سنت اور طریقہ ہے۔
�نکاح کو اللہ تعالی نے باہمی ضرورتوں کی تکمیل، آپسی تسکین اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہی نہیں بنایا بلکہ اس کے لیے قرآن کریم میں ایک دوسرے کے لئے دعا کی بھی تلقین کی اور ایسا کرنے والوں کی تعریف اور اسے باعث اجر وثواب قرار دے کر سورہ فرقان آیت ۷۴ میں اس کا طریقہ بھی سکھایا کہ اے اللہ ہمارے بیوی بچوں کو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنا ۔
�نکاح اور شادی سے ایک لڑکا اور لڑکی صرف میاں بیوی ہی نہیں بنتے بلکہ وہ دونوں مل کر اپنی ضرورتوں اور بیشتر امور کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اپنی اپنی ذمہ داریاں متعین کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے کاموں میں معاون و مددگار بن جاتے ہیں اور اس طرح ان کے نجی، خاندانی اور دیگر تمام امور و معاملات بہترین انداز میں منظم طریقہ سے باہمی تعاون اور بہت سی صورتوں میں تو دونوں کے خاندانی افراد کی مشترکہ کوششوں اور محبتوں سے بآسانی انجام پانے لگتے ہیں۔
�نکاح کی مشروعیت کے ذریعہ خواتین کے حقوق کا تحفظ اور ان کی ضرورتوں کا زندگی کے ہر مرحلہ میں معقول بندوبست کیا گیا چنانچہ بیوی کی تمام ضرورتوں خاص طور پر مالی مصارف، رہائش و زیبائش اور علاج و معالجہ، بیٹی کی پرورش، تعلیم و تربیت، اس پر آنے والے خرچ اور اس کے نکاح و شادی کی پوری ذمہ داری، اسی طرح ماں کی عزت و تکریم اس کے ساتھ حسن سلوک اور حسب ضرورت ان کی دیکھ بھال اور نگہداشت اور دیگر تمام متعلقہ امور کی ذمہ داری عام حالات میںمرد پر ڈالی گئی۔
� شادی کے بعد ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک، اچھے برتاو اور احساس ذمہ داری کو ایک اچھا انسان ہونے کا معیار قرار دیا گیا لہذا واضح کردیا گیا کہ کوئی بھی مرد یا عورت ایک اچھا انسان اسی وقت ہو سکتے ہیں جب وہ اپنے اہل و عیال، شوہر و بیوی، بچوں اور دیگر اہل خانہ کے ساتھ اچھا برتاؤ اور حسن سلوک کریں۔
�نکاح اور شادی صرف جنسی تسکین نجی اور خاندانی ضرورتوں اور ایک دوسرے کی دیگر مصلحتوں کی تکمیل کا ہی ذریعہ نہیں بلکہ یہ قیامت تک نسل انسانی کی وجود و بقا کے لئے اللہ تعالیٰ کا متعین کردہ اور انبیاء کرام کا اختیار کردہ وہ مہذب طریقہ ہے جس کا اللہ نے حکم دیا ۔ نکاح اور شادی کو اللہ تعالی نے نسل انسانی کی وجود اور پیدائش کا ذریعہ بنایا اسی طرح بچپن میں بے فکر، بے بس و بے سہارا اور معصوم بچوں کی معقول غذا، دیکھ ریکھ اور پرورش کا انتظام ماں کی بالکل بے لوث ممتا کے ذریعہ اور اس کی دیگر ضرورتوں کی تکمیل اور ہر طرح کی کفالت اور تعلیم وتربیت کا انتظام باپ کی عنایتوں اور توجہ کے ذریعہ کیا۔
�اگر شادی اور نکاح کے ذریعہ بچپن میں بچوں کی ضروریات کا انتظام کیا گیا تو بڑھاپے میں انہیں بچوں کو والدین کا سرمایہ اور سہارا بنا دیا گیا اور اللہ تعالی کی عبادت کے بعد والدین کو سب سے بڑا رتبہ دیا گیا اور بچوں سے مطالبہ کیا گیا کہ ان کے ساتھ ہر حال میں حسن سلوک، ان کی تمام ضروریات کی فکر اور ان کی ہر طرح خبر گیری فریضہ سمجھ کر انجام دیں۔
�نکاح اور شادی صرف میاں بیوی یا چند سسرالی رشتہ داری کا ہی ذریعہ نہیں بلکہ اس مقدس عمل نکاح کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کی رشتہ داری کو مربوط کردیا اور اسی کے ثمرہ کے طور پر دادیہالی اور ننہالی رشتہ داریوںسے بھی نوازا۔ لہذا دادیہالی رشتہ داروں میں چچا، پھوپھی اور چچازاد و پھوپھی زاد رشتے ،اور ننہالی رشتہ داروں میں ماموں، خالہ اور ماموں زاد و خالہ زاد رشتے عطا فرماکر سماجی ضرورتیں آسان بنادیں اور باہمی صلہ رحمی کا پابند کیا۔
�نکاح کو اللہ تعالی نے فطری جنسی خواہشوں کی تکمیل کا شرعی اور شائستہ طریقہ بنایا اور اس طرح انسان کی فطری ضرورت کا ایسا حل پیش کیا جو ایک طرف بے شمار اجر و ثواب کا سبب ہے تو دوسری طرف بدنگاہی سے بچنے کا ذریعہ، عفت و پاکدامنی کا نسخہ اور انسانی عزت وآبرو کے تحفظ کا الہی فطری نظام بھی ہے ۔
�نکاح اور شادی فطری جنسی خواہشات کی تکمیل، نئی نسل کے وجود، پیدائش اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے بچوں کی کفالت اور پرورش کا ذریعہ بھی ہے۔اسی لئے خاتون کو بیک وقت ایک مرد کے ساتھ وابستہ کرکے نسل انسانی کا تحفظ، نطفۂ انسانی کے مشتبہ ہونے کے امکان کو ختم کرنے اور نو مولود بچے کے تئیں ماں باپ کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کا پابند کیا گیا اور اس کو یقینی بنادیا گیا کہ اصل باپ اور پرورش وکفالت کا ذمہ دار معلوم و متعین رہے اس میں کسی طرح کا شک و شبہ نہ رہے۔
شادی، نکاح اور اس کی وجہ سے قائم ازدواجی رشتہ نسل انسانی وجود اور اولاد کی نعمت کے حصول کا جائز ذریعہ ہے اور اولاد کا حصول شادی کے اہم مقاصد میں ہے اسی لئے اولادکے لیے انبیاء کرام نے بھی دعائیں کی اور اللہ نے انھیں نا صرف دنیوی زندگی کی زینت ،بڑھاپے کا سہارا اوران کی تربیت کو اخروی زندگی میں بہت سارے اجروثواب کا ذریعہ بنا یا۔
مسنون نکاح اورجائز ازدواجی تعلقات آپسی سکون، جنسی تسکین، اولاد کی پیدائش کا سبب، صدقہ جاریہ اور دیگر بہت ساری خوبیو کے ساتھ اجر و ثواب کا ذریعہ بھی ہے۔