شاجن سب ضلع ترال کا ایک دورافتادہ علاقہ ہے جو کہ پانزو گاؤں سے تقریباً سات کلومیٹر کی دوری پر ایک پہاڑ کے دامن میں واقع ہے۔ یہ ایک واحد علاقہ ہے جہاں نہ لوگوں نے آج تک سڑک دیکھی ہے اور نہ ہی بجلی کا نام و نشان۔ اگر اسکول کی بات کرے تو وہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ علاقے میں ایک میڈل اسکول تو قائم ہے جو کہ عرصہ دراز سےکھنڈرات میں تبدیل ہوچکا ہےجبکہ حسرت کا مقام یہ ہے کہ اس اکیسویں صدی میں بھی اس دور دراز علاقے میں آباد لوگوں کے لئے علاقے میں طبی سہولیات کا کوئی انتظام نہیں ہے جس کی وجہ سے یہاں کے لوگ کئی دہائیوں سے ایک تکلیف دہ زندگی بسر کررہے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس علاقے کے لوگوں کو ترقی کے اس دور میں بھی موبائیل فونز کو چارج کرنے کے لئے پہاڑ سے نیچے سات کلومیٹر آنا پڑتا ہے اور بعد میں گھنٹوں کا سفر طے کرکے اپنے گھروں کو واپس لوٹنا پڑتا ہے۔ حال ہی میں، میں نے اپنے ساتھی شیخ کوثر کے ہمراہ علاقے کا دورہ کیا، جہاں ہم نے لوگوں کو درپیش پریشانیوں کا بلکل نزدیک سے مشاہدہ کیا۔ یہاں کے لوگ آج بھی پرانے زمانے کی طرح سادگی سے زندگی بسر کررہے ہیں اور بنیادی سہولیات نہ ہونے کے باوجود بھی ہمت اور حوصلے سے اپنا کام کاج کررہے ہیں۔ لوگ اس جدید دور میں بھی لکڑی کے چولہے جلاکر اپنے لئے روٹی، چائے اور باقی چیزیں تیار کرتے ہیں ،جس سے آپ خود اندازہ لگاسکتے ہیں کہ یہاں کے لوگ ترقی کے کس مقام پر ہے۔ جہاں اس دور میں کشمیر کے تقریباََ ہر علاقے میں اسکولی بچوں کے لئے گاڑیوں کا انتظام ہے اور اسکولوں سے صرف ایک کلومیڑ دور رہ رہے بچے بھی ان گاڑیوں کا استعمال کرتے ہیں، وہی شاجن ترال کے اسکولی بچوں کا حوصلہ کمال کا ہے، جو روز نو کلومیٹر کا پیدل سفر کرکے لرگاؔم نامی ایک گاؤں میں جاکر تعلیم حاصل کرتے ہیں اور شام کو گھنٹوں کا سفر طے کرکے شاجن ٹاپ پہاڑ کو پار کرکے واپس اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں جو کہ واقعی ایک فخر کی بات ہے۔ علاقے کے لوگ کو آج تک ہر سرکار نے مکمل طور پر نظرانداز کیا ہواہے۔یہاں کے لوگوں کواُس دن اُمید کی کرن تب نظر آئی تھی جب 2013 میں علاقے کے لئے سرکار نے پہاڑ کو مشینز لگاکر پردھان منتری گرام سڑک یوجنا(پی ایم جی ایس وائی) کے تحت سات کلومیٹر سڑک کا کام شروع کیا تھا مگر نامعلوم وجوہات کی وجہ سے سات سال گزرنے کے باوجود بھی سڑک کا کام پائے تکمیل تک نہیں پہنچا ہے۔جس کی وجہ سے لوگوں کی پریشانیوں میں کوئی کمی نہیں آسکی بلکہ دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ لوگوں کے مطابق اگر سڑک کو ہی تعمیر کیا جائے گا تو باقی ترقیاتی کاموں کو بھی پھر انجام دیا جاسکتا ہے۔ گاؤں کے لوگ صرف ریڈیو کے ذریعے ہی باقی دنیا کے بارے میں جانتے ہیں جبکہ اکثر لوگوں، خاص کر عورتوں اور بچوں کو وہاں ابھی بھی اخبارات اور ٹیلی ویڑن جیسی اہم ترین ذرائع کے بارے میں کوئی علمیت ہی نہیں ہے۔ آج تک کئی بارریاستی انتظامیہ کاکوئی نہ کوئی آفیسر یہاں ضرور آیا ہوگا لیکن شاید سیر تفریح کی غرض سے ہی آیا ہوگاکیونکہ علاقہ کی صورت حال میں آج تک کوئی بدلائو لانے کی کوئی کوشش ہی نہیںکی گئی ہے۔یہاں کے لوگوں کے مطابق حال ہی میں یہاں ایڈیشنل ڈپٹی کمیشنر ترال شبیر احمد رینا یہاں آئے تھے جنہوں نے یہاں کے لوگوں سے مل کر صورت حال معلوم کی ،شاید انتظامی امور کے پہلے افسر ہوں گے جولوگوں سے ملےہیں۔ اس آفیسر نے علاقے میں اپنی ٹیم سمیت چھ کلومیڑ پہاڑ کا پیدل سفر کرکے لوگوں سے ملاقات کی ،اُن کے مسائل سُنے اور علاقے کا مشاہدہ کرکے اس بات کا اعتراف کیا کہ شاجن علاقے کو آج تک بہت زیادہ نظرانداز کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس علاقے میں بنیادی سہولیات جیسے سڑک، پانی، بجلی، طبی مراکز، اسکول اور باقی سہولیات کا نہ ہونا ایک سنگین معاملہ ہے جس کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے لوگوں کو یقین دلایا کہ وہ ان کے بنیادی سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے بھرپور مدد کریں گے،اُن کی یقین دہانی سے یہاں کے اُن لوگوں کا حوصلہ کافی بڑھ گیا ،جنہوں نے آج صرف دو محکموں کے ملازمین کو علاقے میں دیکھا تھا یا تو محکمہ تعلیم کے اساتذہ کو یا جنگلات ملازمین کو۔ اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ آخر شاجن علاقے کے لوگوںکے ترقی کے خواب کب پورے ہونگے اور وہ بھی باقی علاقوں کی طرح بنیادی سہولیات حاصل کرکے سکون کا سانس لے سکیں گے؟۔
موبائل نمبر؛9596276949