سنگھ پر یوار کا ماننا ہے کہ جب اقتدار اپنے ہاتھ میں پوری طرح آ جائے تو اس کا استعمال آئین کی حفاظت کے لئے نہیں بلکہ سنگھ کے ہندو راشٹر کے ایجنڈے کو لاگو کرنے کے لئے کیا جائے۔ اسی خیال کے چلتے سی بی آئی میں گھمسان مچا ہے۔ آلوک ورما اور راکیش استھانہ کا بس چلے تو ایک دوسرے کی گردن کاٹ لیں۔ افسران کی دھر پکڑ، کورٹ کچہری ، کیا کچھ نہیں ہو رہا۔ حد تو یہ ہے کہ مودی حکومت نے سی بی آئی کے دونوں اعلیٰ افسران کو جبری چھٹی پر بھیج دیا اور راؤ کو عبوری سربراہ مقرر کر دیا۔ آخر مسئلہ سپریم کورٹ پہنچا اور سپریم کورٹ نے نئے سی بی آئی چیف کے پر کتر دئے۔یوں تو سی بی آئی پہلے ہی کچھ کم بدنام نہ تھی لیکن ادارے کی جو کچھ ساکھ بچی تھی مودی سرکار نے اس کا بھی جنازہ نکال دیا۔ اب یہ صاف ہے کہ سی بی آئی وقت کی بر سر اقتدار سیاسی پارٹی کا ایک آلۂ کا ادارہ ہے جس کا اہم کام سیاسی حریفوں کو بلیک میل کرنا اور ان کو خاموش کرنے کے لئے خوفزدہ کرنا ہے لیکن جب حکومت سی بی آئی کا استعمال اپنے مفاد میں کر رہی ہے تو پھر ادارے میں یہ وبال کیوں ؟ صاف ہے کہ ادارے کے نمبر ایک یعنی آلوک ورما اور نمبر دو یعنی راکیش استھانہ ، دونوں ہی حکومت کے انتہائی قابل اعتماد افسران رہے ہوں گے۔ پھر یہ دونوں آپس میں کیوں لڑ پڑے؟ لڑائی بھی ایسی کی کہ حد گزر گئی ہے۔ آخر کیا راز ہے اس معاملہ کا؟خبروں سے جوکچھ چھن کر ابھی تک سامنے آیا ہے اس سے موٹے طور پر یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آلوک ورما ’’نمبر ون ‘‘ تو تھے لیکن سیاسی طور پر جتنے بھی حساس معاملات تھے وہ سبھی استھانہ کے ہاتھوں میں تھے۔ چاہے پی چدمبرم کے بیٹے کارتی چدمبرم کا معاملہ ہو یا پھر کوئلہ گھوٹالہ کا معاملہ، ہر اہم ایشو کی جانچ استھانہ ہی کر رہے تھے۔ ظاہر ہے کہ سیاسی طور پر پی ایم او کی نظر میں استھانہ کی اہمیت زیادہ تھی اور ورما کی کم۔باالفاظ دیگر ورما کہنے کو تو اعلیٰ ترین تھے لیکن رعب، دبدبہ اور حقوق استھانہ کے کہیں زیادہ تھے۔ نفسیاتی طور پر ورما ان حالات میں اندر ہی اندر گھٹ رہے ہوں گے ۔ اس تناظر میں سی بی آئی کی راہ میں ایک سیاسی موڑ پیدا ہو گیا۔ بات یہ ہوئی کہ اس مہینے کی شروعات میں بی جے پی کے باغی رہنما یشونت سنہا، ارون شوری اور معروف وکیل پرشانت بھوشن رافیل معاملہ پر ایک عرضی لے کر سی بی آئی کے سربراہ آلوک ورما کے پاس پہنچے۔ انہوں نے سی بی آئی سربراہ کو جو عرضی سونپی اس میں انہوں نے اس معاملہ میں وزیر اعظم مودی کی بھی جانچ کرائے جانے کی گزارش کی گئی تھی۔ ان لوگوں سے آلوک ورما نے 65 منٹ تک بات چیت کی تھی۔ بس اس کے بعد پی ایم او میں کھلبلی مچ گئی۔ ورما کی مدت کار دو مہینے بعد ختم ہونے والی تھی۔ مودی سرکار کے حامیوں میں مبینہ طور خوف پیدا ہو گیا کہ ورما کہیں اس معاملہ کی جانچ کا حکم جاری نہ کر دیں۔ کیوں کہ بس سی بی آئی میں رافیل معاملہ کی عرضی درج ہونے کے بعد ہی آلوک ورما نے استھانہ پر پنجا کسنا شروع کر دیا ۔ لہٰذا یہ ڈر فطری تھا کہ کہیں رافیل معاملہ میں ورما کا ہاتھ سرکار کی گردن تک نہ پہنچ جائے۔ بھلا 2019 کے چناؤ سے چند ماہ پہلے بی جے پی اس صورت حال کا کس طرح سامنا کرتی؟ پانی سر سے اوپر ہونے سے پہلے ہی ورما اور استھانہ دونوں کو چھٹی پر بھیج دیا گیا۔
یہ تو سی بی آئی کی گھمسان کا معاملہ تھا، لیکن یہ کوئی محض سی بی آئی کے اندر پیدا شدہ کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ مسئلہ بہت پیچیدہ ہے۔ اس کا سیدھا تعلق وزیر اعظم نریندر مودی کے طریقہ کار اور بی جے پی و آر ایس ایس کے نظریہ سے ہے۔ وہ کیوں اور کیسے! آئیے پہلے وزیر اعظم مودی جی کے طریقہ کار کو سمجھیں۔ ہم بے گزشتہ دس پندرہ سالوں میں ’’گجرات ماڈل‘‘ کا بہت شور سنا ہے۔’’گجرات ماڈل ‘‘ میں اقتدار کا صرف ایک محور تھا ، خود مودی جی ۔ اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ چاہے اسمبلی یا پارلیمنٹ کچھ بھی ہو یا افسرشاہی ہو یا پھر عدلیہ ہو ،اقتدار کے تمام حصے مودی جی کے ماتحت ہوں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ اب ملک میں مرکزی وزرا کی کوئی حیثیت نہیں دِکھتی ہے اور نہ ہی افسرشاہ آزاد ہیں۔ عدلیہ پر پجنا کسنے کی کوشش میں خود سپریم کورٹ میں وبال ہو چکا ہے جس سے سبھی واقف ہیں۔ (ملاحظہ ہو عدالت عالیہ کےچار جج صاحبان کی پر یس کانفرنس )۔ سی بی آئی کو بھی پوری طرح پی ایم او کے ماتحت کرنے کی کوشش ہوئی، جس کی وجہ سے معاملہ ہاتھ سے نکلتا چلا گیا۔ یہ تو رہی مودی کے ’’گجرات ماڈل‘‘ کی جھلک جو اب’ ’’دہلی ماڈل‘‘ بن چکا ہے کہ ملک کے جمہوری نظام کے لئے خطرہ بن رہا ہے۔ جمہوریت کی بنیاد اقتدار کی تقسیم میں ہوتی ہے نہ کہ اقتدار کے سینٹرلائزیشن میںلیکن مسئلہ صرف مودی سرکار کا نہیں مسئلہ سنگھ نظریہ میں ہے۔ جمہوری اقتدار پر قبضہ کرنا سنگھ کے نظریہ میں شامل ہے۔ سنگھ کا ماننا ہے کہ جب اقتدار اپنے ہاتھ میں پوری طرح آ جائے تو اس کا استعمال آئین کی حفاظت کے لئے نہیں بلکہ سنگھ کے ہندو راشٹر کے ایجنڈے کو لاگو کرنے کے لئے کیا جائے۔ مودی ایک جانب خود اقتدار میں ہیں، دوسری جانب سنگھ کے پرچارک بھی رہے ہیں۔ وہ سنگھ کے نظریہ کے بڑے بھگت بھی ہیں۔ ایسی صورت حال میں گزشتہ چار سالوں میں ملک میں جو کچھ ہوا ہے ،وہ اب سامنے آ رہا ہے۔ آج ملک میں اقتدار کا محض ایک محو ر بچا ہے اور وہ ہیں نریندر مودی کی ا پنی ذات ۔ امت شاہ ان کی ہدایات پر پارٹی چلاتے ہیں۔ اجیت ڈووال کے پاس فوج، ریزرو بنک، نیتی آیوگ سمیت مکمل افسرشاہی کی کمان ہے۔ عدلیہ میں دراندازی کی کا چرچہ بھی اب عام ہے۔ ساتھ ہی سنگھ کے نظریہ پر عمل کے لئے وزارتوں میں سنگھ کے اہم لوگ بٹھا دئے گئے ہیں۔ تعلیم اور ثقافت جیسے محکموں کا کام تو مکمل سنگھ کے ہاتھ میں ہی ہے۔ یونیورسٹیوں سے لے کر نرسری اسکولوں تک سنگھ کی نظر ہے۔ لب و لباب یہ کہ اقتدا ر کا استعمال آئینی کی بندشوں کے باوجود ہندوتوا ایجنڈہ لاگو کرنے میں ہو رہا ہے ۔یہ اب محض ایک سنگین مسئلہ ہی نہیں ہے بلکہ ملک کا سیکولرا ور جمہوری نظام داؤ پر لگا ہے۔ سی بی آئی میں چھڑی جنگ ہمارے جمہوری نظام کی گرتی ساکھ کی صرف ایک جھلک دکھاتی ہے۔ اس سے قبل سپریم کورٹ میں بھی اس اسی ون مین شو سے مسئلہ پیدا ہو چکا ہے۔اس تناظر میں سن 2019 کا لوک سبھا چناؤ ملک کے جمہوری نظام کو بچانے کا ایک موقع ہے اور صرف اپوزیشن اتحاد ہی اس کا حل نظر آ رہا ہے۔ کیوں کہ 2019 میں اگر مودی راج کی واپسی ہو جاتی ہے تو ہندوستانی جمہوریت کو جو بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی اس کا اندازہ ابھی سے نہیں لگایا جا سکتا۔
����