سیول سروسز مسابقتی امتحانات کی تیاری کیسے کریں؟

ہر سال جوں ہی یوپی ایس سی (UPSC) یعنی یونین پبلک سروس کمیشن کی زیر نگرانی سول سروسز(Civil Services) امتحانات کے تنائج کا اعلان ہوتا ہے تو کامیاب قرار دئے گئے افراد آناً فاناً سوشل میڈیا پر وائرل ہوجاتے ہیں۔ٹی وی چینلوں سے لے کر اخبارات تک اُن کی کامیابی کی خبریں چھا جاتی ہیں ۔کل تک جو ایک عام شخص تھا وہی راتوں رات ایک (Celebrity) بن جاتا ہے اور سماج میں اُن کی قدر و منزلت بڑھ جاتی ہیں۔یہ سارا ماجرا دیکھ کر ہزاروں والدین کے دلوں میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کاش ہماری اولاد یں بھی یہ امتحان پاس کرکے IASیاIPS افسر بن جاتی۔والدین ہی نہیں بلکہ بذاتِ خود ہزاروں طلباء کا یہ خواب ہوتا ہے کہ وہ بھی یوپی ایس سی کا امتحان پاس کریں۔پہلے کے مقابلے یہ رجحان آج بڑھ چکا ہے کیونکہ چند سال پہلے تک ٹیکنالوجی اتنی ترقی یافتہ نہیں تھی۔آج سے کئی برس قبل کافی پڑھے لکھے لوگ بھی اس چیز سے واقف نہیں ہوتے تھے کہ یوپی ایس سی کیا ہوتا ہے۔مگر انٹرنیٹ،خاص کر سوشل میڈیا کی وساطت سے آج بیداری کافی بڑھ چکی ہے۔یوپی ایس سی کے نتائج آنے کے بعد نہ چاہتے ہوئے بھی یہ خبر آپ تک کسی نہ کسی طرح پہنچ ہی جاتی ہے کہ کون کامیاب قرار پایا ہے اور اسی کے ساتھ اُنہیں سماج میںجو قدر و منزلت ملتی ہیں،آپ اُس سے بھی آنکھ نہیں چرا سکتے۔ہزاروں لاکھوں لوگ یو پی ایس سی پاس کرنے کا جنون سر پر لیے محنت میں تو مگن تو ہوجاتے ہیں لیکن ان لاکھوں طلباء میں ہر سال چند سو افراد ہی یہ سفر طے کرپاتے ہیں ۔اسی لیے اسے ملک سے مشکل ترین امتحان بھی تصور کیا جاتا ہے۔اس امتحان کو پاس کرنالوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہے۔اسی لیے جی توڑ محنت کے ساتھ ساتھ صحیح طریقۂ کار(Strategy) اپنانا بھی از حد ضروری ہوتا ہے۔یہ ایک ایسا سفر ہے جہاں جی توڑ محنت(Hardwork) سے زیادہ اسمارٹ محنت(Smart Work) کام کرتی ہے۔
 اس سے قبل کہ اس موضوع پر تفصیلاً بات کی جائے ،پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ موجودہ تیز رفتار زمانے میں جہاں انگلیوں کے چند اشاروں پر سینکڑوں تحریریں یا ویڈیوز وغیرہ اس موضوع پر آپ کی رہبری کر سکتی ہیں ،وہاں راقم السطور کو کیا ضرورت ہے کہ وہ اس موضوع پر لکھیں؟۔اس بات میں واقعی کوئی دورائے نہیں کہ انٹرنیٹ خا ص کر سوشل میڈیا پر آپ کو اس حوالے سے سینکڑوں رہبر ملیں گے لیکن تھوڑی سی تحقیق پر آپ کو پتہ چلے گا کہ یہ سارا مواد یا تو انگریزی یا پھر ہندی میں موجود ہے۔اُردو زبان میں اگر ہے بھی تو بہت کم (ویڈیوز وغیرہ کی صورت میں)۔تحریری طور پر اُردو میں یہ مواد نا کے برابرہے۔کم از کم راقم الحروف نے آج تک اردو کا ایسا کوئی رسالہ یا اخبار نہیں دیکھا جس میں یوپی ایس سی کی تیاری کے حوالے سے کوئی تحریر موجود ہو۔نتیجے کے طور ہمارا اُردو داں طبقہ پیچھے رہ گیا۔اُسے ابھی بھی اقبالؔ،فیضؔ،غالبؔ سرسیدؔ ،گُل و بلبل اورمحبوب کی زلفوں میں الجھا کے رکھا گیا۔ان حالات میں ضروری تھا کہ کوئی یہ بیڑا اُٹھائے کہ وہ اُردو داں طبقے کے لیے اس موضوع پر مواد تیار کریں تاکہ اُردو کی گود کسی بھی طرح خالی نہ رہے ، مسابقتی (Competative) دور میں ہمارے اردو کا قاری باقیوں سے پیچھے نہ رہ جائے اور پسماندگی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے اُس کا مقدر نہ جائے۔الحمداللہ یہ سعادت اللہ رب العزت نے راقم کو عطا کی۔
زندگی میں مقصد کا ہونا از حد ضروری ہے کیونکہ زندگی بنا مقصد کے بے گھاٹ کی ناؤ کی طرح ہوتی ہے ۔اور یہ سوال بھی اہم ہے کہ زندگی میں کس کو کیا بننا ہے،اس مقصد کا تعین کب کیا جائے؟۔ اس سوال کے جواب میں راقم کی رائے یہ ہے کہ جتنی جلدی مقصد کا تعین کیا جائے اتنا ہی اچھا ہے۔دسویں جماعت کا امتحان پاس کرنے کے بعد آپ کے ذہن میں یہ مقصد ضرور ہونا چاہیے کہ مجھے زندگی میں کیا کرنا ہے۔جب آپ کے ذہن میں کوئی مقصد ہوگا،تبھی جاکر آپ اپنے مضامین (Subjects) کا بہتر نتخاب کرسکتے ہیں۔مثلاً کسی نے ڈاکٹر بننے کی ٹھان لی ہے تو وہ میڈیکل شعبے کا انتخاب کرے گا۔کسی کو مقصد انجینئر بننا ہے تو وہ ریاضی (Maths) پڑھے گا،اسی طرح سول سروسز کا زیادہ تر نصاب(syllabus)چونکہ آرٹس مضامین پر مشتمل ہوتا ہے اسی لیے جو طالب علم سول سروسز میں آنا چاہتا ہے ،وہ آرٹس شعبے کا انتخاب کریں گا۔اس حوالے سے بعض لوگوں کی رائے مختلف ہے ،اُن کا ماننا ہے کہ ایک طالب علم کوباہویں جماعت تک میڈیکل شعبے کا انتخاب کرنا چاہیے اور بارہویں کے بعد اُسے آرٹس مضامین کا انتخاب کرنا چاہیے۔میری ذاتی رائے اس حوالے سے یہ ہے کہ اگر طالب علم کو میڈیکل شعبے سے دلچسپی اور لگن ہے تو اُسے بارہویں جماعت تک میڈیکل مضامین ہی پڑھنے چاہیے تاہم اگر آپ کو دلچسپی نہیں ہے تو آپ بلا جھجک آرٹس مضامین کا انتخاب کریں۔البتہ اگر آپ آرٹس کا انتخاب کرتے ہیں تو آپ کے لیے از حد ضروری ہے کہ آپ کوآٹھویں، نویں اور دسویں جماعت کی ریاضی (Maths) پر اچھا عبور حاصل ہو۔میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں اس کی وضاحت اگلے اقساط میں ہوگی ان شاء اللہ۔والدین کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی اولاد پر مضامین کے انتخاب کے حوالے سے کوئی دباؤ نہ ڈالے۔ہاں ،جب اولاد کسی شعبے کا انتخاب کریں تو اُن سے ضرور یہ پوچھیں کہ کیوں اس شعبے کا انتخاب کرنا چاہتے ہو؟ جب وہ تسلی بخش جواب دے تو بلا جھجک اُنہیں اپنے من پسند مضامین کا انتخاب کرنے دیں۔اگر وہ کسی شعبے کاانتخاب فقط اس لیے کررہے ہیں کہ اُن کے دوستوں نے بھی وہی سبجیکٹ لیے ہیں،یا اس لیے کہ جو مضامین وہ لے رہے ہیں اُنہیں پاس کرنا آسان ہے یا اُن میں زیادہ نمبر آتے ہیں تو تب اُن کی مکمل رہبری کریں ۔اُنہیں سمجھائیں کہ مستقبل کے حوالے سے ایک مقصد کاتعین کرنا بے حد ضروری ہوتا ہے اور مقصد کا تعین کرنے میں اُن کی مدد بھی کریں ۔جب وہ تعین کریں تو پھر وہ خود اس بات کو سمجھیں گے کہ ہمیں کس مضمون کا انتخاب کرنا ہے اور کیوں کرنا ہے۔ بعض والدین زبردستی اپنی اولاد کے سر پر میڈیکل یا ریاضی وغیرہ تھونپتے ہیں ۔آرٹس مضامین کو حقیر سمجھا جاتا ہے۔یہ ہماری ذہنی پسماندگی کی علامت ہے۔ہر سبجیکٹ کی اپنی افادیت اور اہمیت ہوتی ہے۔زور زبرستی کا نتیجہ یہ نکلتا ہیں کہ بعض اوقات اولاد خود کشی کرنے تک پر مجبور ہوجاتی ہیں۔آپ کی اولاد آپ کا اثاثہ ہے،اُن کی رائے اور پسند کا احترام کریں۔اولاد پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہیں کہ جب اُن کے والدین اُنہیں مکمل آزادی فراہم کریں تو پھر وہ جی توڑ محنت کرکے اپنا لوہا منوائیں۔
یوپی ایس سی جیسے مشکل ترین امتحان میں آنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ آپ کیوں اس میں آنا چاہتے ہیں،کس مقصد کو لے کر آپ اس صبر آزما سفر پر نکل پڑے ہیں؟کیا آپ اس لیے آنا چاہتے ہیں کہ آئی اے ایس افسر بننا اعزاز سمجھا جاتا ہے؟،سماج میں قدر و قیمت بڑھ جاتی ہے؟،آپ کو تنخواہ کے طور پر ایک موٹی رقم ملتی ہے؟،آپ کو سرکاری گھر ، سرکاری گاڑی  اور دیگر مراعات ملتی ہیں؟،آپ کی حفاظت پر کئی سپاہیوں کو مامور کیا جاتا ہے؟آپ کے والدین آپ پر دباؤ ڈال رہے ہیں؟۔۔۔اگر انہی چیزوں کی وجہ سے آپ سول سروسز (Civil Services) میں آنا چاہتے ہیں تو یقیناسآپ کامیابی سے کوسوں دور ہیں!۔میں ایسا اس لیے کہہ رہا ہوں کیونکہ یوپی ایس سی ایک مشکل امتحان کے ساتھ ساتھ ایک  صبر آزما اور طویل سفر بھی ہے جو کئی ماہ اور بعض اوقات کئی سالوں پر محیط ہوتا ہیں۔یہ طویل سفر طے کرنے کے دوران ایسے بھی مرحلے آتے ہیں جب ایک انسان کی ہمت جواب دینے لگتی ہیں۔موٹی تنخواہ،دھونس دباؤ ،قدر و منزلت،سرکاری گاڑی وغیرہ جیسے بہانے اُس وقت کام نہیں آتے۔آپ کا دماغ اُس وقت فرار کے راستے تلاش کرتا ہے۔اگر آپ اُس وقت اپنے دماغ کو یہ بہانے بتائیں تو وہ انہیں قبول نہیں کریں گا مثال کے طور پر اگر آپ دماغ کو بتائیں کہ ذرا سوچو اگر یہ امتحان پاس ہوگیا تو کتنی موٹی تنخواہ ملے گی۔وہ اس بہانے کو یہ کہہ کر رد کرے گاکہ’ اور بھی تو کام ہے جہاں موٹی تنخواہ مل سکتی ہے مثال کے طور پر اگر تم پروفیسر بن جاو تو اُس کی لیے اتنی محنت تو نہ کرنی پڑے گی اور تنخواہ بھی موٹی ملے گی اور پھر یہ ضروری بھی تو نہیں موٹی تنخواہ ہو،زندگی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کم تنخواہ پر بھی تو گزارا کیا جاسکتا ہے‘۔اس لیے سب سے پہلے سول سروسز میں آنے کی وجہ کا پتہ ہونا بے حد ضروری ہے ۔آپ کامیاب تب ہوسکتے ہیں جب آپ کے مقاصد اعلیٰ ہو مثلاً آپ حقیقی معنوں میں عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں یا آپ سماجی برائیوں جیسے رشوت وغیرہ کا خاتمہ چاہتے ہیں اور اس کے لیے آپ پرعزم ہے چاہے راستے میں کتنی ہی مشکلات کیوں نا آئیں۔جب مقاصد اعلیٰ ہو تبھی جاکر کامیابی کی اُمید کی جاسکتی ہے اور اعلیٰ مقاصد کے ہوتے ہوئے سرکاری گاڑی،عزت و شہرت ،جیسی چیزوں کا خیال بھی آپ کو وقتی طور پر تحریک دے سکتا ہے۔(جاری)
رابطہ ۔برپورہ، پلوامہ کشمیر
ای میل۔[email protected]