موبائیل سے سلفیاں لینے کا جنوں آج ساری دنیا میں سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ 2013میں تو لفظ’’ سیلفی‘‘ آکسفورڈ ڈکشنری میںWord of the Yearقرار پایا تھا ۔ ظاہر ہے کہ اب اس عمل میں اضافہ در اضافہ ہے ۔ صرف عام لوگ ہی نہیں ہر قسم کے خواص بھی اس دوڑ میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں اور اب حکمران، سیاسی لیڈر ،سماجی کارکن غرض ہر شخص اس لت میںمبتلا ہے کہ نکلنا محال نظر آتا ہے ۔دعوتیں ہوں ، مجالس ہوں،دوستوں کی محفلیں ہوں ،سیاسی تقاریب ہوں ،ہر مقام پر سیلفیاں لینے کا یہ رواج جوبن پر نظر آتا ہے اور یہ عمل اب اس قدر نشیلا بن گیا ہے کہ اب تک دنیا بھر میں 200سے زیادہ افراد اس عمل کے دوران اپنی جان تک گنوا چکے ہیں۔ ابھی حالیہ دنوں راجستھان میں ایک تجارتی مرکز کے برقی زینے کو چڑھتے ہوئے ایک میاں بیوی کے سیلفی لینے کے شوق نے اُن سے بچی چھین لی ،وہ توازن برقرار نہ رکھ سکے اور بچی دھڑام سے نیچے گرکر لقمہ اجل بن گئی۔کسی دوسرے کے ساتھ اپنی سیلفی لینے کا مقصد یہی تو ہے کہ اس شخص کے ساتھ آپ اپنے تعلق کو نمایاں کرنے کے لئے کسی بھی طرح اپنے کو ممتاز کرنا چاہتے ہیں یا وجہ اگر کوئی اور بھی ہو تو خود اعتمادی بقول ایک ماہر نفسیات کے دوسروں پر منحصر نظر آتی ہے اور یہ Self Esteemپھر کہاںرہی۔بہر حال یہ دور جدید کے نوجوانوں کا محبوب مشغلہ بن گیا ہے اور اس کے حسن و قبح پر مزید گفتگو فی الوقت مقصود نہیں۔ہاں اتنا ضرور کہیں گے کہ امریکن سائیکریٹک ایسوسی ایشن نے اس عمل کے مسلسل شکار لوگوں کے حوالہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک دماغی خلل ہے اور اس کے تین درجے ہیں ۔پہلا طبقہ اُن لوگوں کا ہے جو دن میں دو تین مرتبہ سیلفیاں لیتے ہیں لیکن سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ نہیںکرتے ،دوسرا طبقہ اُن لوگوں کا بتایا گیا ہے جو دو سے تین مرتبہ دن میں سیلفیاں لیتے ہیں اور سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کرتے ہیں اور تیسرا گروپ اُن لوگوں کا ہے جو 6سے زیادہ مرتبہ سیلفیاں لیتا ہے اور سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کرتا رہتا ہے یہ بہت تشویشناک ہے اور اس کا فی الوقت کوئی علاج ہی نہیں۔انسانی صحت پر اس کی کیا اثرات ثبت ہوتے ہیں ایک معروف عالمی سطح کے روزنامہ نے لکھا ہے :
’’اگرآپ اپنے موبائل فون کے کیمرے میں اپنی سیلفی بنانا چاہتے ہیں تو آپ اس وقت غور سے دیکھیں۔ آپ کا چہرہ اچانک متغیر ہونا شروع ہوجائیگا۔ یہ آپ کے لیے صدمے کاباعث ہوگا۔ آپ دیکھیں گے کہ چہرہ عام حالت میں آئینے میں دکھائی دینے سے کافی مختلف نظر آئے گا۔
سیلفی کے موقع پرلی جانے والی تصاویر کے وقت آپ اپنے چہرے کی حقیقی کیفیت کو دیکھتے ہیں جب کہ عام آئینے میں آپ اپنے چہرے کو زیادہ چمکتا محسوس کرتے ہیں۔آپ سیلفی کے وقت غورکریں کہ آپ کی ناک عام حالت میں دکھائی دینے والی ناک سے بھی بڑی ہوتی ہے۔یہاں اس امرخطرناک امر کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ سیلفی بہ ذات خود آپ کی صحت کے لیے نقصان دہ ہوسکتی ہے۔ سیلفی کے موقع پر ناک جسم کا وہ حصہ ہوتا ہے جو زیادہ واضح دکھائی دیتا ہے۔
برطانوی اخبار’میٹرو‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ سیلفی میں انسانی ناک عام قدرتی حالات میں نظرآنے والی ناک سے تین گنا بڑا لگتی ہے۔ اگرآپ کو یقین نہ آئے تو ایک بار آزما لیں۔
بعض اوقات سیلفی میں دکھائی دینے والی ناک چہرے کے30 فی صد حصے پر پھیلی نظر آتی ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ جب آپ بہت قریب سے کسی چیز کو دیکھتے ہیں تو وہ بہت بڑی اور دور سے دیکھتے ہیں تو وہ چھوٹی نظرآتی ہیں۔چاہے آپ سیلفی بناتے وقت کیمرہ چہرے سے ایک قدم کے فاصلے پر یا نہ رکھیں مگر چہرہ اپنی اصل حالت میں دکھائی نہیں دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ اپنے چہرے کی تصاویر سے بہت زیادہ پریشان ہوتے ہیں۔
مذکورہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ سوشل میڈیا بالخصوص’فیس بک‘ اور ’ٹوئٹر‘ پر پوسٹ کی جانے والی تصاویر اور انسان کی اصل حالت میں کافی فرق ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ہردس میں سے چار افراد کاسمیٹک سرجری کے بعد اپنی تصاویر بنا کر پوسٹ کرتے ہیں وہ دکھنے میں زیادہ خوبصورت نظرآتی ہیں۔
ایسے میں ناک بھی مثالی نظرآتی ہے۔ اپنے آپ کو زیادہ پرکشش شخصیت دکھانے کے لیے لوگ سوشل میڈیا کے لیے خد وخال کو خوبصورت بنا کر تصاویر حاصل کرتے ہیں۔ امریکا میں کاسمیٹک سرجری کا اوسطا 10 فی صد استعمال سوشل میڈیا کے لیے ہوتا ہے۔ناک، کان اور گلے کے ماہر ڈاکٹر بوریس باکسھوفرا کا کہنا ہے کہ اگرآپ چہرے سے 12انچ کے فاصلے سے سیلفی بناتے ہیں تو مردوں کی ناک اصل کی نسبت 30 فی صد بڑی نظرآتی ہے جبکہ خواتین کی ناک 29 فی صد بڑی لگتی ہے۔تاہم کسی بھی حجم کی اصل حالت میں تصویر پانچ فٹ کے فاصلے سے بنائی جاسکتی ہے۔ اس فاصلے سے زیادہ دور جائیں گے تو اس کے نتیجے میں جسم زیادہ چھوٹا اور قریب آئیں گے تو چہرے کا سائز بڑا ہوتا جائے گا۔‘‘
اس حوالہ سے مزید تفصیلی گفتگو پھر کبھی ان شا ء اللہ ۔فی الوقت یہ بتانا مقصود ہے کہ کئی عبادات میں بھی اب سیلفیاں لینے کا رواج بے حد بڑھ چکا ہے اور حساس لوگ اس تعلق سے بے حد فکر مند نظر آتے ہیں۔حج و عمرہ جو افضل ترین عبادات میں شامل ہوتے ہیں اور تقریباًہر مسلمان کی دِلی تمنا یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اُسے ان شعائر کی ادائیگی کی توفیق عطا کرے اور مومن و مسلم لوگ اس سفر کو واقعی اپنا حاصلِ حیات سمجھتے ہیں ،راتوں کو رو رو کر انہوں نے اللہ سے اس سفر مبارک کے لئے دعائیں کی ہوتی ہیں۔ظاہر ہے کہ اس مبارک زمین کے ساتھ ہمارا ایک قلبی اور جذباتی تعلق ہے ،اس رقبۂ زمین پر قدم رکھتے ہی ہماری ہچکیاں بندھ جاتی ہیں کہ یہی وہ سر زمین ہے جہاں خلیل اللہ ؑنے اپنی اہلیہ محترمہ ؑاور فرزند ذیشان ؑکو چھوڑ کر اس بے آب و گیاہ ریگستان کو ایک بستی میں بدلنے کی بنیاد رکھی تھی ،اسے گہوارہ امن بنانے کے لئے پرسوز دعائیں کی تھیں ،اس کے لوگوں کو ہر قسم کے پھلوں سے نوازنے کی فریادیں کی تھیںاور یہاں ہی اللہ کے محترم گھر کی بنیادعظیم باپ اور سعادت مند بیٹے نے رکھی تھی ،یہاں ہی کائینات ارضی کے رشد و ہدایت کے لئے نبی آخریﷺ کو اس سر زمین سے بھیجنے کی رقت آمیز دعائیں کی تھیں اور ان ساری دعائوں کو شرف قبولیت سے نوازا گیا ، یہ سرزمین مرکز رشدو ہدایت بن کے رہ گئی ۔اس بستی کے اطراف و اکناف اور گلی کوچوں میں رسول ِ محترم ؐ نے انتہائی صبر آزما ،کٹھن اور دشوار ترین مراحل سے گذرتے ہوئے اللہ کا آخری پیغام کائینات ارضی کو سُنایا تھا ۔ظاہر ہے کہ اللہ کا کوئی بھی بندہ جب اس زمین پر قدم رکھتا ہے تو پھر وہ خود اپنی قسمت پر بھی رشک کرنے لگتا ہے ،گویا ہوتا ہے کہ بارِ الٰہی ،یہ بس تیرا کرم ہے کہ اس دربار میں حاضری کی سعادت عطا فرمائی ،نہیں تو کہاں میرا نامۂ سیاہ اور کہاں بخت و اقبال کی یہ بلندی!،پھر جتنے دن وہ یہاں ٹھہرتا ہے سراپا عجز و نیا ز بن جاتا ہے ،طواف ہو یا سعی ،عرفات کی حاضری ہو یا منیٰ و مزدلفہ کی عبادات ،آنکھوں سے آنسوؤ ں کا سمندر رُکنے کا نام ہی نہیں لیتا ،کردہ گناہوں پر تائب ہوکر آئندہ زندگی اللہ و رسول ؐ کے احکامات کی روشنی میں گزا رنے کا عہد کرتا ہے ۔ظاہر ہے کہ ان عبادات میں اُس کا قلب اخلاص سے سرشار نہ ہو تو بس ایک رسم کی ادائیگی ہوگی اور کچھ نہیں۔اصل بندگی تو بس یہی ہے کہ میری نماز ،میری قربانی ، میری زندگی اور موت سبھی اللہ کے لئے ہے یعنی بس اُسی کی رضا کا حصول حاصل زندگی و خلاصہ ٔ بندگی ٹھہرا ۔یاد رہے کہ اخلاص ہی تمام اعمال کی روح ہے اور وہ عمل جس میں اخلاص نہ ہو ،اُس جسم کی مانند ہے جس میں روح نہ ہو۔اللہ کے یہاں اعمال کا حسن ہی معتبر ہے کثرت اعمال نہیں۔’’لِیبُلُوکمُ اَیُکُم اَحسنُ عَمَلا‘‘ہوتا کیا ہے ،یہی نا کہ اللہ انسان کے اعمال کے حسن کو ہی دیکھتا ہے اور مفسرین کے بقول ’’احسن عملا‘‘اخلاص کا ہی نام ہے ۔اسی لئے علماء و محققین نے اعمال صالحہ کی قبولیت کے لئے دو شرطیں بتائی ہیں: (۱) اخلاص یعنی صرف اللہ کی رضا اعمال میں مقصود ہو (۲)اعمال کی ادائیگی میں اتباعِ سنت ہو ،یعنی کوئی خانہ ساز عبادت قبولیت کے قریب بھی نہیں جاسکتی ،جس پر سنتوں کی چھاپ نہ ہو ،رد کردی جائے گی۔اس لئے نبی محترم ؐ نے فرمایا کہ ’’اللہ تمہاری صورتوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں اوراعمال کو دیکھتا ہے۔‘‘اصل میں کوئی کام کرنے نہ کرنے کا داعیہ دماغ و دِل میں ہی پیدا ہوتا ہے اور جس کام کے کرنے کی نیت پیدا ہوجائے وہ درست ہو اور اُس کی ادائیگی سے پہلے یہ دیکھا جائے کہ شریعت ِمطہرہ میں اس کی اجازت ہے بھی کہ نہیںہے۔اگر ہے تو پھر ایک بات لازم ہے کہ اس کام اور اس عمل کا مقصد وحید بس اللہ کے رضا کی حصول ہو ۔نماز ،روزہ ،حج ، انفاق ،ایثاراور دوسری عبادات اُن میں اخلاص ہی وجۂ قبولیت بن سکتا ہے اور اگر اس میں خدانخواستہ ذرا برابر ریا یا دکھاوے کا شائبہ ہو تو پھر اعمال اڑتی ہوئی راکھ بن جاتے ہے ۔نماز کو ہی لیجئے ،سید عالم ؐ نے فرمایا کہ قیامت کے روز سب کے سب مسلمان سجدے میں گر جائیں گے تو وہ جو دنیا میں دکھاوے اور شہرت کے لئے سجدہ کرتے تھے وہ بھی سجدہ کرنے کی کوشش کریں گے لیکن کر نہیں سکیں گے کیونکہ اُن کی پیٹھ تختہ کی طرح ہوجائے گی (صحیح بخاری کتاب :۷۴۳۹)۔قربانی کو ہی لیجئے ، ہزاروں روپے خرچ کرکے اگر دِل قربان کرنے کے لئے اس لئے آمادہ ہوا کہ لوگ مجھے صاحب ثروت سمجھیں ،سمبندھیوں اور رشتہ داروں میں یہ پیغام جائے کہ میں قربانی کے چھ چھ سات سات جانور ذبح کرتا ہوں ،میری امیری کی دھاک اُن پر بیٹھ جائے تو ایسا شخص دل کو تسلی دے تو دے کہ قربانی کرلی ،حقیقت میں خواہش ِ نفس کا غلام بن کر دنیا کھوئی ہی تھی آخرت بھی برباد کرڈالا۔محمودبن لبیدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا :جس چیز کے بارے میں مجھے سب سے زیادہ خوف ہے وہ شرکِ اصغر ہے ،عرض کیا گیا یہ شرکِ اصغر کیا ہے تو آپ ؐ نے فرمایا ’’دکھاوا‘‘۔بے شک اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا :جائو اُن لوگوں کے پاس جن کو دکھانے کے لئے تم لوگ دنیا میں عمل کررہے تھے ،پھر دیکھو کہ کیا تم اُن سے کوئی بدلہ پاتے ہو۔[مسند احمد]
بات دراصل سیلفیوں سے شروع ہوئی تھی مومن کا طرہ ٔ امتیاز یہ ہو کہ وہ اپنے باطن کی سیلفی لیتا رہے تو آخرت سنبھل سنور جائے گی۔ مدعائے گفتگو تو یہی ہے کہ سیلفی لینے کے اس بڑھتے جنوں کے بیچ اب عبادات میں بھی اسی عمل نے داخل ہونا شروع کیا ہے اور حرمین میں بھی اب بہت سارے پیروجواں نے نت نئے انداز اور مختلف ہئیتوں اور صورتوں میں سیلفیاں لینے کا عمل شروع کیا ہے ، میں کوئی مفتی نہیں کہ اس کے جواز و عدم جواز پر بات کروں لیکن اتنا ضرور ہے کہ بہت سارے لوگوں کو اس عمل سے بے حد تکالیف کا شکار ہونا پڑتا ہے اور ان کی عبادات میں خلل واقع ہوجاتا ہے ۔اگر اس عمل کو درست بھی تسلیم کیا جائے اور ظاہر ہے کہ کسی کی نیت پر نہ شک کیا جاسکتا ہے اور نہ کوئی تبصرہ آرائی ہوسکتی ہے لیکن اتنا ضرور زائرین محترم سے عرض کرسکتے ہیں کہ عبادات میں خشوع و خضوع ہو ،عجز و نیاز ہو کہ یہ سعادت تقریباً زندگی میں ایک ہی بار نصیب ہوتی ہے ،اس لئے اس میں بے حد یکسوئی کی ضرورت ہے ،رقت ِقلب مانگتی ہیں یہ عبادات اور آنکھوں کا برسنا ہی فائز المرام بناسکتا ہے ۔اس لئے دوسرے مشاغل سے دور رہنے میں ہی بہتری اور عافیت ہے ۔ظاہر ہے کہ سیلفیاں لینے کا عمل اگر درست بھی ہو لیکن دل کی دنیا بھی تو عجیب ہے کہ اگر لمحہ بھر کے لئے بھی یہ خیال آئے کہ دوست و احباب کو احرام پوشی کی حالت میں تصویر بھیج کر اپنا حاجی ہونا ظاہر کروں یا اگر رتی بھر اپنی پارسائی کے اظہار کا ہلکا سا خیال بھی دنیائے دل میں آجائے یا اگر تہہ خانۂ قلب کے کسی کونے میں سیلفی لے کر اور اپنے اعزہ و اقارب کو بھیج کر یہ خیال گزرے کہ حصول شہرت ہو تو ظاہر ہے کہ ساری عبادت اورسفر کی صعوبتیں اکارت جائیں گی ،چونکا دینے والی یہ حدیث نبوی پڑھئے بار بار پڑھئے اور پھر اس مبارک سفر کو اسی تنبیہہ کو مدنظر رکھتے ہوئے انجام دیجئے ۔فرمایا:کیا میں تمہیں وہ بات نہ بتائوں جس کا خوف مجھے تم پر مسیح دجال سے زیادہ ہے ۔صحابہ نے عرض کیا ،اے اللہ کے رسول ؐ ۔کیوں نہیں آپؐ نے فرمایا :وہ شرکِ خفی ہے کہ کوئی شخص نماز کے لئے کھڑا ہو اور وہ اپنی نماز کو محض اس لئے سنوار کر پڑھے کہ کوئی شخص اُسے دیکھ رہا ہے۔[سنن ابن ماجہ :۴۲۰۵]
ظاہر ہے کہ دجا ل کا معاملہ واضح ہے ساری نشانیاں عیاں کرکے بیاں کردی گئی ہیں لیکن یہاں دل کا معاملہ ہے ،ہلکا سا گماں بھی ’’دکھاوے‘‘کا ہوا تو بندگی شرمندگی بن کر منہ پر دے ماری جائے گی۔ حاصل کلام یہ کہ ان عبادات حج و عمرہ میں خلوص و للہٰیت کو شعار بنایئے ،رویئے ،تائب ہوجایئے ،اللہ کے دربار میں گِڑ گڑ ایئے اور یکسوئی اور یک روئی کے ساتھ بس لمحہ لمحہ کو غنیمت سمجھ لیجئے اور محوِ بندگی رہیے،یہ گھڑیاں بار بار نہیں آیا کرتیں ۔سیلفیاں لینی ہیں تو گھڑی گھڑی اپنے قلب کی اور باطن کی لے لیجئے ۔ تو دنیا و آخرت سنبھل سنور جائے گی ۔خود سیدنا ابراہیمؑ دعوت حق کے جاں گسل مراحل سے گزر کر تعمیر کعبہ کے دوران اپنے سعادت مند فرزند کے ہمراہ ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم کی جو پر سوز صدائیں دیتے ہیں، اس کے معنی و مفہوم میں ڈوب ڈوب جائیے ،حقائق منکشف ہوکر سامنے آجائیں گے ۔اعمال کو شرف قبولیت حاصل ہوا تو شاہی ‘نہیںتو اللہ نہ کرے سب لاحاصل ۔اسی لئے ہر عبادت کا مغز ہے اخلاص اور عمل کی جڑ ہے للہٰیت ۔ اختتام اس اقبالی شعر سے ؎
براہیمی ؑ نظر پیدا بہت مشکل سے ہوتی ہے
ہوس چھپ چھپ کے سینے میں بنا لیتی ہے تصویریں
فون نمبر9419080306