سیرت ِ طیبہ ؐ کا نمایاں پہلو سرورِ کونینؐ

ڈاکٹر امتیاز عبدالقادر

سفید پوشی اور خود ستائشی نے آج کل ہمیں اس قدر آرام پسند بنا دیا ہے کہ اگر خاندان کا کوئی بچہ مڈل یا میٹرک کر جائے تو وہ اپنے ہاتھ سے کام کرنے کو عار سمجھتا ہے اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں انہیں قابلِ نفرت گردانتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں مزدور کو صحیح مقام میسر نہیں اور محنت مزدوری کرنے والے شخص کو لوگ حقیر جانتے ہیں۔حضرت آدم ؑسے لے کر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے بھی انبیاء اور رسول آئے سب نے اپنے ہاتھوں اپنے گھر کے کام سنوارے، امت کے کام آئے۔ محنت و مزدوری کر کے پیٹ پالتے رہے۔ اپنے ہاتھ سے کام کر نے کو کبھی عیب نہ جانا بلکہ رزقِ حلال کی خاطر اپنے ہاتھ سے محنت و مشقت کر کے امت کے سامنے ایک نمونہ پیش کیا۔ حضرت ابراہیمؑ اور ان کے فرزند حضرت اسماعیل ؑ نے بیت اللہ کے معمار ہونے کا شرف حاصل کیا۔ ذرا تصوّر کیجیے کہ وہ کون تھا جو خانہ کعبہ کی تعمیر کے لئے سر پر گراں پتھر اُٹھا کر لاتا تھا اور وہ کونسی ہستی تھی جو اپنے دستِ مبارک سے گارا لگا لگا کر ان پتھروں سے کعبہ کی دیواریں اُٹھا رہی تھی؟ اگر نہیں جانتے تو قرآن سے پوچھئے وہ بتاتا ہے کہ باپ بیٹا جن میں سے ایک مزدور اوردوسرا معمار تھا ۔’’اور وہ وقت بھی یاد کیجیے جب حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ خدا کے گھر کی بنیادیں اُٹھا رہے تھے۔‘‘(سورہ بقرہ۔ ۱۲۷)حضرت نوح ؑکو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا:’’اے نوحؑ! ہماری ہدایت اور حکم کے مطابق ہمارے سامنے کشتی تیار کرو۔‘‘(سورہ ھود: ۳
۷)حضرت دائودؑ کے بارے میں اللہ کہتا ہے:’’اور ہم نے دائودؑ کے لئے لوہے کو نرم کر دیا اور حکم دیا کہ تم پورے بدن کی (حفاظت کے لئے) زر ہیں تیار کرو اور ان کی کڑیاں ترتیب کے ساتھ جوڑو۔‘‘(السباء: ۱۱۔۱۰)گویا امت کی خاطر حضرت دائودؑ کو ’’لوہار‘‘ بنا دیا۔ اور ساری عمر زرہیں بنا بنا کر روزی کا سامان کرتے رہے۔

سیرت طیبہ کے البم سے چندتصویریںملاحظہ ہوں۔ساتوں آسمان، سورج، چاند، ستارے، جن و ملک اور کائنات کا ایک ایک ذرہ اس منظر پر لرزہ براندام تھا کہ نبی آخر الزمانؐ ذو قعدہ کی آٹھ تاریخ کو اپنے ہاتھ میں کدال لیے صحابہؓ کے ساتھ خندق کھودنے میں مصروف ہیں۔ چشم فلک نے پہلی بار وہ نظارہ بھی کیا تھا کہ عرب کی چلچلاتی دھوپ اور بادِ صرصر کے تھپیڑوں میں اللہ کا محبوب مسجد قبا اور مسجد نبوی کی تعمیر کے لئے پتھر اُٹھا اُٹھا کر لا رہا ہے۔ مگر آج منظر اور بھی دلخراش اور جگر سوز تھا۔ آج چشم فلک کیا دیکھتی ہے؟ حُور و غِلمان اور فرشتے اس بات پر انگشت بدنداں ہوں گے کہ سردیوں میں؛ یخ بستہ راتیں ہیں، مدینہ طیبہ کے ان مزدوروں اور مجاہدوں کو تین دن فاقے سے گزر گئے ہیں۔ حال یہ ہو گیا ہے کہ کمر سیدھی رکھنے کے لئے پیٹ پر پتھر باندھنا پڑے ہیں مگر یہ مزدور بھی کیا مزدور ہیں اور ان مزدوروں کا آقا بھی کیسا آقا ہے کہ سب بھوکے ہیں یہاں آقا اور مزدور میں کوئی فرق نہیں۔ یہاں مالک اور مملوک میں کوئی فاصلہ نہیں۔ یہاں غلام اور آقا میں مساوات ہے۔ مہاجرین و انصار خندق سے مٹی اٹھا اٹھا کر باہر پھینک رہے ہیں۔ بھوک سے گرچہ نڈھال ہیں مگر کام اسی چستی اور قوت سے جاری ہے۔

سرورِ کونینؐ اس رنگ و روپ میں نظر آتے ہیں۔ مٹی اٹھاتے اٹھاتے سر مبارک غبار آلود ہو گیا ہے۔ چہرہ نازنین پر مٹی کی تہیںجم گئی ہیں۔خندق کی کھدائی کے دوران ایک سخت چٹان آگئی۔ صحابہؓ نے اس کو توڑنے کی بہت کوشش کی مگر چٹان ٹوٹے نہ بنتی تھی۔آنحضرت ؐ سے التجا کی کہ اے اللہ کے رسولؐ فاقہ کی شدت سے پیٹ پر پتھر باندھ رکھے ہیں؛اس کے باوجود پورا زور صرف کرنے کے باوصف چٹان ٹوٹتی نظر نہیں آتی۔ حضرت رسول اکرمؐ تشریف لائے۔ تین دن کا فاقہ ہے۔ کدال ہاتھ میں لے کر نعرہ تکبیر بلند کیا اور چٹان کے سینے پر بھرپور وار کیا۔ ایک ہی وار سے چٹان تودئہ خاک تھی۔ جب صحابہؓ نے آپؐ کے سامنے فاقہ کا حال بیان کیا تو آنحضرت ؐ نے انہیں کوئی جواب تو نہ دیا مگر اپنے بطنِ مبارک سے کرتہ اٹھایا۔ اس دلدوز منظر پرزمین و آسمان کانپ اُٹھے ہوں گے۔ عرش و کرسی لرز گئے ہوں گے اور حور و غلمان اور فرشتے تڑپ گئے ہوں گے کہ آنحضرتؐ کے پیٹ مبارک پر بھی اسی طرح پتھر بندھا ہوا ہے جس طرح آپ کے جانثاروں کے پیٹوں پر پتھر بندھے ہوئے ہیں۔ ہمارے معاشرے نے مزدور اور جفا کش لوگوں کی عزت و عظمت کا اعتراف کرنے سے انکار کیا، رزق حلال کھانے والے انسانوں کو ذلت اور پستی میں دھکیل دیا۔ ادھر رحمتِ دو عالمؐ نے خود محنت و مشقت کر کے اس پیشے کو اعلیٰ و ارفع ہونے کی سند فضیلت عطا کی؛آنحضرت ؐ نے فرمایا:’’تم میں اگر کوئی اپنی پشت پر ایندھن کا گٹھا لاد لائے تو یہ بات کسی ایسے شخص کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بدرجہا بہتر ہے کہ جو ممکن ہے اس کی ہتھیلی پر چند سکّے رکھ دے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اسے دھتکار دے۔‘‘(بخاری)

ایک جگہ فرمایا:’’اس انسان سے بہتر کھانا کبھی کسی نے نہیں کھایا جو اپنے ہاتھوں محنت مزدوری کر کے کھاتا ہے۔‘‘(بخاری)کتنی ہی آیات و احادیث اس بات پر گواہ ہیں کہ کسی پیغمبر نے بھی اپنے ہاتھ سے کام کرنے کو کسرِ شان نہیں سمجھا بلکہ خود محنت مزدوری کے ذریعے رزقِ حلال کھاتے رہے اور اپنی اپنی امتوں کے لئے یہی نمونہ چھوڑ گئے۔

تاریخ کے اوراق آپ کی سیرتِ طیبہ کے ایسے واقعات سے بھرے ہوئے ہیں جن میں ہم آپ کو ایک عام انسان کی طرح اپنے گھر کے کسی کام کاج میں مصروف پاتے ہیں۔ کھانا پکانے میں آپؐ امہات المومنینؓ کا ہاتھ بٹایا کرتے تھے۔ نہ صرف اپنے گھر کے لئے بازار سے سودا سلف لایا کرتے بلکہ پڑوسیوں سے بھی ان کی ضروریات دریافت کر کے انہیں مہیا فرماتے۔اپنے ذاتی کام خودکرنا،یہ بھی سیرت کاایک اہم باب ہے۔سیدہ عائشہؓ سے مروی ہے:’’کان یخدم نفسہ‘‘ (آپؐ اپنی خدمت خود کیا کرتے تھے) حضرت رسولِ اکرم ؐ کپڑوں میں اپنے ہاتھ سے پیوند لگا لیا کرتے تھے۔ کبھی کبھی گھر میں خود جھاڑو دیتے تھے۔ بکریوں کا دودھ اپنے ہاتھ سے دودھیا کرتے تھے، جوتا مبارک پھٹ جاتا تو اس میں خود ٹانکے لگا لیا کرتے تھے۔ کنویں کے ڈول کو خود سی دیا کرتے تھے، اونٹوں کو چارہ ڈالنا، انہیں پانی پلانا، انہیں ان کے کھونٹے پر باندھنا یہ سب باتیں حضور اکرم سے ثابت ہیں۔یورپ کے جتنے بھی مشاہیرآپ دیکھتے ہیں،چاہے وہ علم وادب سے تعلق رکھنے والے ہوں یاقانون وسیاست سے ،فلسفی ہوںیاسائنسدان ۔اُن کی اکثریت تصنع وبناوٹ؛کبرونخوت سے پاک ہے۔وہ زمین سے جُڑے ہوئے لوگ ہیں۔اپنے ذاتی کام اپنے ہاتھوںسے کرناپسندکرتے ہیںاوراسی اخلاق کی تعلیم وہ اپنی اولادکودیتے ہیں۔نتیجہ ظاہرہے کہ فی الوقت وہ علمی،تمدنی،سیاسی،اقتصادی اورمعاشرتی میدانوںمیںپوری دنیاکے ’’امام‘‘بن چکے ہی اور ہمارے ہاںواضح تعلیماتِ نبوی ہونے کے باوجودامراء ورئوساہوں،استادیاکلرک ہوںیااربابِ اقتدارپرمسلط ہمارے گناہوںکی ’’شبیہ‘‘؛ان کی اکثریت اس اخلاقِ نبوی سے متصادم ہے۔اپنے ہاتھوںکوکام کرکے ’’میلا‘‘کرنا؛ان’’ مومنوں‘‘کے لئے کسرِشان ہے۔

رسول اللہؐ کی عائلی ومعاشرتی زندگی بھی ہمارے لئے مشعلِ راہ ہے۔آپؐازواج مطہرات کے ساتھ کام کاج میں شریک ہو جاتے تھے۔ چولہے میں خود آگ جلا دیا کرتے۔ رسولِ اکرمؐ نے اپنے ہاتھوں سے آٹا گوندھا۔ ایک دفعہ صحابہؓ کے ہمراہ سفرپرتھے ایک جگہ پڑائوکیا۔ صحابہؓ نے کھانا پکانے کے لئے ایک بکری ذبح کی اور کام آپس میں بانٹ لئے۔ آنحضرت ؐ نے فرمایا: ’’جنگل سے لکڑیاں اکٹھی کر کے میں لائوں گا۔‘‘صحابہؓ نے نہایت ادب و احترام سے گزارش کی کہ ہم خود لکڑیاں بھی لے آئیں گے ۔آپؐ زحمت نہ کیجئے۔ مگر رحمۃ للعالمین نے فرمایا،’’میں امتیاز پسند نہیں کرتا۔‘‘ایک سفر میں آپؐ کے جوتے مبارک کا تسمہ ٹوٹ گیا۔ آپؐ اس کو ٹانکنے لگے تو ایک صحابی نے عرض کی فداک امی وابی (میرے ماں باپ قربان ہوں) مجھے خدمت کا موقع دیجئے، میں جوتا درست کر دیتا ہوں لیکن شاہِ دو عالم فرمانروائے عرب و عجم نے فرمایا: یہ خود پسندی ہے (کہ میرا جوتا کوئی دوسرا گانٹھے) اور مجھے یہ پسند نہیں ہے۔ طبقات ابنِ سعد میں واقعہ موجود ہے کہ رسولِ اکرمؐ نے حضرت خبیبؓ کو جب ایک غزوہ پر بھیجا تو خود ہر روز صبح سویرے حضرت خبیبؓ کے گھر جا کر ان کی بکریوں کا دودھ دوہتے رہے۔

بخاری اور ابو دائود میں ہے کہ آپؐ ایک دفعہ نماز کے لئے کھڑے ہوئے، ایک بدو آیا اور آپؐ کا دامن تھام لیا۔ آپؐ نے پوچھا کیا چاہتا ہے؟ اس نے کہا: میرا تھوڑا سا کام باقی رہ گیا ہے وہ آپؐ کر دیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ میں بھول جائوں۔’آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُسی وقت اس کے ہمراہ مسجد سے باہر تشریف لے گئے اور اس کا کام مکمل کرنے کے بعد آکر نماز ادا کی۔اب ذرا ٹھنڈے دل سے غور کیجئے اور اپنے نفس کا محاسبہ کیجیے کہ ہم نے اسوئہ رسولؐ کو کس حد تک اپنے دل اورعمل میں جگہ دی۔
[email protected]