نعت چاہے عربی میں ہو، فارسی میں ہو یا اْردو میں، سیرتِ سرکار دوعالمؓکے ساتھ اس کا براہِ راست تعلق ہے۔ عربی اور فارسی نعت گوئی میں واقعاتِ سیرت کا بیان یہاں پر ہمارا موضوع نہیں ہے۔ ہم اْردو نعت گوئی کے حوالے سے بات کریں گے اوریہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ نعتیہ منظومات میں سیرت طیبہؐ کا بیان کس انداز و اسلوب میں ملتا ہے۔
نعت کا مرکزی موضوع اگرچہ مدحِ رسولؐ ہے لیکن مدح و ثنا کے ساتھ ساتھ سیرتِ پاک سے بھی نعت کا گہرا تعلق ہے اور یہ تعلق دو طرح سے ہے۔ اوّلاً یوں کہ قرآن مجید اور احادیث نبویؐ کے بعد نعت کے مآخذ میں تیسرا نام کتبِ سیرت کا آتا ہے۔ چنانچہ سیرت النبیؐ پر لکھی گئی ہزاروں کتابوں اور بالخصوص سیرت کی امہات الکتب کہلانے والی دس بارہ کتابوں کا نعت کی تدوین و تخلیق میں بڑا اہم اور نمایاں مقام ہے۔ ایک تو ان امہات الکتبِ سیرت میں وہ تمام اشعار محفوظ ہوگئے جو رسول اکرمؐ کے غزوات اور دوسری اسلامی جنگوں سے متعلق تھے، دوسرے یہ کہ آپؐ کی مدح و ستائش میں لکھا جانے والا ابتدائی نعتیہ شعری سرمایہ ،خصوصاً صحابہ کرامؓکے اشعار، سیرت النبیؐکے حوالے سے ان کتابوں میں جگہ پاگئے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں سیرتِ رسول کریمؐکی طرح نعتِ رسول کریمؐ کے آغاز و ارتقاء کی تلاش و تحقیق میں بھی سیرت پاک کی انہی امہات الکتب سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔
ان کتابوں میں درج روایات کو بعد میں آنے والے شعراء نے اپنی نعتوں کا موضوع بنایا۔ چنانچہ مولود ناموں، جنگ ناموں، معجزات ناموں، معراج ناموں اور منظوم سیرت کی کتابوں میں ان روایات کو کثرت سے قلمبند کیا گیا ہے اور ساتھ ہی نعتیہ غزلوں، رباعیوں، مثنویوں اور نظموں میں بھی ایسی روایات اور واقعات سیرت کے حوالے ملتے ہیں، جن کا مواد کتبِ سیرت ہی سے ماخوذ ہے۔
جہاں تک اْردو نعت گو شعراء کا تعلق ہے، انہوں نے ہر دور میں رسولِ اکرمؐ کی سیرت طیبہ سے متعلق کتابوں سے بطورِ خاص استفادہ کیا ہے۔اْردو کے نعتیہ سرمایہ کا جائزہ لیتے ہوئے یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ اْردو نعت کے ہر دور میں صحتِ واقعات اور اسنادِ روایات کے لیے اہم اور مستند کتبِ سیرت سے رجوع کیا جاتا رہا ہے، جس کی عموماً تین شکلیں دیکھنے کو ملتی ہیں:
(۱) سیرت پاک کے واقعات پر نعتیہ نظمیں لکھی گئی ہیں۔
(۲) غزوات و معجزات نبویؐ کی تفصیلات میں کتب سیرت سے استفادہ کیا گیا ہے۔
(۳) سیرت النبیؐسے متعلق کتابوں کی روشنی میں منظوم سیرتیں لکھی گئی ہیں مثلاً مثنویوں میں مولوی محمد باقر آگاہ نے اپنی مشہور مثنوی ’’ہشت بہشت‘‘ کے دیباچہ میں اْن کتب سیرت کا حوالہ دیا ہے، جو اْن کے پیش نظر رہیں۔ چند ایک کے نام یوں ہیں: کتاب الشفا، شمائل ترمذی، اصابہ، وفا الوفا، روضۃ الاحباب، معارج النبوۃ، شواہد النبوۃ وغیرہ۔ اسی طرح حفیظ جالندھری نے ’’شاہنامہ اسلام‘‘ کے حواشی اور محشر رسول نگری نے ’’فخر کونین‘‘ نامی منظوم شاہکار کے اختتامیہ میں اْن کتبِ سیرت کی نشاندہی کی ہے، جو اْن کی طویل منظومات میں مآخذ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ حالی، شبلی، طباطبائی، ظفر علی خان، اقبال اور دوسرے بے شمار نعت گو شعراء کے ہاں ہمیں ایسی نظمیں بکثرت ملتی ہیں، جن کے مضامین و موضوعات سیرت رسول کریمؐ کی کتابوں سے اخذ کئے گئے ہیں۔
یہ تو ہے ایک نوعیت کا تعلق سیرت النبیؐ اور نعت نبیؐ میں۔ دوسری نوعیت کا تعلق نعت کے ماخذ کے حوالے سے نہیں بلکہ نعت کے مضامین و موضوعات کے حوالے سے ہے۔ یعنی نعت میں سیرتِ سرکار دوعالمؐ کے واقعات کا بیان۔ نعت کے ابتدائی نمونوں میں ہمیں دربارِ رسالتؐ سے وابستہ شعراء کی وہ نعتیہ منظومات ملتی ہیں، جن میں آپؐکی سیرتِ مبارکہ کی صفت و ثنا، جمال ظاہری، شجاعت و سخاوت، دیانت و امانت، صداقت و عدالت اور باطنی حسن کی تعریف اور حضور پرنورؐکے خْلق و ہدایت کا بیان وغیرہ جیسے مضامین و موضوعات نظر آتے ہیں۔ بعد کے ادوار میں زمان و مکان کی بدلتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں جب آپؐکی سیرت طیبہ کے نئے نئے پہلو اور امکانات ظاہر ہوئے تو حضور نبی کریمؐکے حوالے سے تہذیبی، سماجی، تمدنی، معاشرتی، معاشی، اقتصادی، سیاسی اور تاریخی نوعیت کے اَن گنت موضوعات و مضامین نعت آشنا ہوگئے۔
سیرتِ طیبہ کے چھوٹے اور بڑے واقعات کو نعت کے آئینے میں تلاش کرتے ہوئے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ نعت کے موضوعات کا ایک بڑا حصہ نبی کریم ؐکی ذات اقدس سے متعلق ہے، جس میں دوسرے انبیائے کرام پر آپؐکی فضیلت و برتری، آپؐ کا خاندانی شرف، آپ ؐکا باعثِ تخلیق کائنات ہونا، کتبِ سماوی میں آپؐ کی تشریف آوری کی بشارت، آپؐکا پرتوِ جمالِ الٰہی اور مظہرِ ذات خداوندی ہونا، آپؐ کا نور من نور اللہ ہونا، آپؐکا صاحبِ خْلق عظیم، خاتم النبیین اور رحمۃللعالمین ہونا بیان کیا جاتا ہے۔
نعتیہ موضوعات کا دوسرا حصہ نبیؐ برحقؐ کی حیات طیبہ کے بارے میں ہے، جس میں آپؐ کی ولادت، پرورش، بچپن کے واقعات، بعثت، اعلانِ نبوت، کفارِ مکہ کی ایذا رسانی، ہجرت، مدینہ میں آمد، اسلامی سلطنت کا قیام، واقعہ معراج اور غزوات و معجزات وغیرہ کو نعت کا موضوع بنایا جاتا ہے۔
نعتیہ موضوعات کا تیسرا حصہ اْن منظومات کو قرار دیا جاسکتا ہے، جن میں نبی برحقؐ کی تعلیمات، صفاتِ عالیہ اور بنی نوع انسان پر آپؐ کے احسانات کا بیان ملتا ہے۔ نعتوں میں ان موضوعات کا بیان تمام تر جزئیات کے ساتھ نظر آتا ہے، چنانچہ اْردو کے نعتیہ سرمایہ کا جائزہ لینے پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ نعت گو شعراء نے نبی کریمؐ کی عاداتِ مبارکہ اور معمولاتِ یومیہ کے ذرا ذرا سے پہلوئوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا ہے اور انہیں نہایت احترام اور شیفتگی سے جزوِ نعت بنایا ہے۔ اس انداز کے مضامین نعت میں حضور کریمؐ کے ایفائے عہد، طریقہ ٔعیادت و تعزیت، انسانی ہمدردی و غمخواری، مہمان نوازی، دشمنوں سے حسنِ سلوک، عفو و درگذر، حسنِ معاملات، وسعتِ قلبی و عالی ظرفی، ایثار و احسان، اندازِ گفتگو اور آدابِ مجلس وغیرہ شامل ہیں۔ یہاں تک کہ اس انداز کی جزئیات نگاری میں نعت گو شعراء نے اپنی والہانہ شیفتگی اور وارفتگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپؐ کے نعلین، لعاب، پسینہ، نقشِ پا، لباس، خوراک اور حلیہ مبارک کی جزئیات (جن میں قدم، پنجے، ایڑیوں اور ناخنوں تک کا ذکر ملتا ہے) کو بھی نعت کا موضوع بنایا ہے۔ اسی طرح بہت سے نعت نگاروں نے نبی برحقؐکی ذاتِ اقدس سے نسبت رکھنے والی ہر شئے سے اپنا قلبی تعلق ظاہر کرتے ہوئے مدینہ طیبہ کی گلیوں، سگانِ کوچہ و بازار، خاکِ راہِ یثرب، سنگِ درِ اقدس، روضۂ اقدس کی سنہری جالیوں، گنبدِ خضریٰ اور مسجدِ نبویؐ وغیرہ سے اپنی والہانہ محبت و عقیدت کا اظہار کیا ہے۔
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ نعتیہ منظومات کے آئینے میں سیرت سرورعالمؐاپنی تمام تر تفصیلات و جزئیات کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ جہاں تک عصری نعت کا تعلق ہے، آج کی نعت اپنے مرکزی موضوع یعنی مدحِ رسولؐ سے پھیل کر کائنات بھر کے مسائل کو محیط نظر آتی ہے۔ نعت کا موضوع بلاشبہ ارتقاء پذیر اور بتدریج بڑھنے والا موضوع ہے۔ اس کے مضامین میں عہد بہ عہد وسعت پیدا ہو رہی ہے جیسے جیسے زمانہ ترقی کر رہا ہے اور نئے نئے سائنسی انکشافات رونما ہورہے ہیں، ویسے ویسے پیغمبر آخر الزمانؐ کی سیرتِ طیبہ، آپؐکی تعلیمات، انسانی تہذیب و معاشرت اور تاریخ سیاست پر آپؐکے بڑھتے ہوئے اثرات اور ان اثرات سے پیدا ہونے والے نِت نئے محسوسات نعت کا موضوع بن رہے ہیں۔ الغرض آج کے دور کی نعت مدح و ثنائے خواجہ دوجہاںؐ کے ساتھ ساتھ سیرتِ سرکار دوجہاںؐ کے متنوع گوشوں اور پہلوئوں کو بھی ہمارے سامنے حسین و جمیل انداز و اسلوب اور دلکش پیرائیے میں پیش کرتے ہوئے نظر آتی ہے۔
(مصنف مدیر ماہنامہ ’الحیاۃ‘ ہیں اور آپ سے فون نمبر9906662404اور برقی پتہ [email protected]پر رابطہ کریں)