سیرت ِمحمد (صلی اللہ علیہ وسلم)ایک مسلمان صاحب ِ قلم کے لئے وہ شیرین ،دلاویز اور حلاوت و لذت کا نہ ختم ہونے والا ذائقہ علمی و عرفانی لئے ہوئے موضوع ہے کہ ایسا روحانی سرور ،دماغی نشاط اور ذہن و فکر کو سرشار کرنے والا دوسرا کوئی موضوع ہو ہی نہیں سکتا۔
بلاشبہ سیرت پر لکھنے والے ہر دور میں بے شمار رہے ہیں اور اُن میں بہت اونچے درجہ کے اہل فضل و کمال بھی رہے ہیں۔ اس لئے سیرت کے موضوع کو کسی نئے قلم کا ر کی نہ حاجت ہے نہ انتظار ۔ہاں! ہر صاحب ِ قلم کے لئے یہ بات باعث فخرولائق سعادت ہے کہ اُسے سیرت نگاروں کی فہرست میں شامل ہونے کا شرف حاصل ہوجائے۔
اردو کی سیرت نگاری میں سرسید احمد خان ،علامہ شبلی نعمانی ،قاضی سلیمان منصور پوری ،علامہ سلیمان ندوی ،مولانا عبدالروف ،مولانا محمد ادریس کاندھلوی ،مولانا حفظ الرحمٰن ،مولانا آزاد ،مولانا ابو الحسن علی ندوی،مولانا مفتی محمد شفیع ،مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی،مولانا کرم علی شاہ ازہری ،ولی رازی ،نعیم صدیقی ،صفی الرحمٰن مبارک پوری ،ڈاکٹر حمیداللہ ،ہلال عثمانی ،ماہر القادری ،صادق سردھنوی،ڈاکٹرنصیر ناصر،مولانا اسلم رمزی اور اس طرح کے بے شمار اصحاب قلم ہیں ،جنہوں نے سیرت کی لایبریری میں اپنی اپنی قلمی کاوشوں سے شریک ہونے کا سہرا اپنے سَر باندھااور سعادت مند ہوگئے۔
وادی کے علم خور ماحول اور ذوق ِ تصنیف و تالیف کو خشک کرنے والے حالات میں پچھلے ایک سال کے اندر سیرت طیبہ پر دو قابل قدر بلکہ لائق تحسین کتابیں منظر عام پر آئیں ۔ایک ’سراجاً منیرا‘جس کے لائق مرتب قرآن کریم کی تفسیر کا خصوصی ذوق رکھنے والے اور گوجری زبان میں پہلا اور مستند ترجمہ کرنے والے جناب مولانا مفتی فیض الوحید صاحب ہیں ،جو ماشا اللہ دارالعلوم دیوبند کے لائق و فائق فاضل ہیں۔
دوسری کتاب سیرتِ طیبہ کے دلاویز موضوع پر ابھی اسی سال ماہ رمضان( ۱۴۴۱ھ) میں منصہ شہود پر آئی ہے ۔یہی کتاب اس وقت راقم کے پیش نظر ہے ۔اس کتاب کے مٔولف مولانا مفتی اشفاق اللہ قاسمی ہیں ۔یہ جامع مسجد ابوبکر جواہر نگر سرینگر میں امام و خطیب ہیں۔اس کتاب کا محرک اول تو خود اُن کا جذبۂ ایمانی ہے اور دوسرے جناب حاجی غلام حسن شاہ صاحب کا مسلسل اصرار،ہمت افزائی اور اُن کی تحریک ہے۔اس کا اعتراف خود مرتب نے اپنے پیش لفظ میں کیا ہے ۔پھر مرتب نے اُن تمام معاونین کی قدر سخنی بھی کی جنہوں نے کسی بھی نوع کا علمی یا عملی یا طباعتی تعاون فراہم کیا ہے۔چنانچہ وہ مفتی عادل حسین صاحب قاسمی اور مفتی ابرارالحق قاسمی کے ممنون احسان ہونے کا برملا اظہار کرتے ہیں۔
کتاب کا نام ’سیرتِ رسالت مآب‘ہے، اس کے مؤلف جیسا کہ اوپر لکھا گیا مفتی اشفاق اللہ قاسمی ہیں۔اس کے ناشر مکتبہ ابوبکر جواہر نگر ہیں ۔ایک مختصر پیش لفظ اور ایک بہت مختصر مگر پُر مغز تعارفی تعریظ کے بعد لائق مرتب نے اصل سیرت لکھنی شروع کی ہے۔
ہر سیرت نگار اپنے اپنے ذوق و مزاج کے مطابق آغاز کرتا ۔چنانچہ علامہ شبلی نے سیرت النبی کا آغاز علمی مقدمہ سے کیا ،جس میں ماخذ سیرت اور عربی کی مستند کتب سیرت کا نہایت عالمانہ و محققانہ تعارف کرایا، پھر سیرت کا آغاز کیا۔
حضرت مولانا علی میاں ؒ نے بعثت ِ محمدی سے پہلے پورے عالم اور تمام اقوام عالم کی مذہبی ،اخلاقی ،معاشرتی ،سیاسی اور ہر ہر نوع کی اجتماعی صورت حال کا نہایت جامع اور مؤرخانہ نقشہ کھینچا اور عالمگیر فساد کے بعد عالمگیر نبوت کی ضرورت کو ثابت کیا ۔پھر اصل سیرت ِمحمدی کا سلسلہ شروع کیا جو بنی رحمت کے نام سے متعدد زبانوں میں دستیاب ہے ۔اسی طرح ہر مصنف اپنے مطمح نظر کے مطابق سیرت ِ طیبہ کا آغاز کرتا ہے۔
زیر نظر کتاب کا آغاز’’آفتاب ِرسالت ؐ کا تذکرہ کتب سمایہ میں‘‘ ہر قاری، حتیٰ کہ اگر غیر مسلم قاری بھی ہوگا ، کے لئے دلکش ہے ۔
اس عنوان کے تحت تورات ،انجیل وغیرہ کتب میں موجود وہ بشارتیں پیش کرنا مقصود ہے ، جو صاحب سیرت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہیںاور یہ خود صداقت و حقانیت ِ محمدی کی دلیل ہے۔کیا اچھا ہوتا کہ اگر تمام آسمانی و زمینی مذاہب کی اہم شخصیات کی طرف سے نبوتِ محمدی کے متعلقکی گئی پیش گویوں کا احاطہ نہ سہی مگر ان کا کچھ نہ کچھ بیان ضرور کیا جاتا۔جن میں ہندو دھرم کے وید شاستر اور بدھ متکی کتابیں بھی شامل ہیں یقیناًآج کے دور میں ، جبکہ امتِ مسلمہ کے دشمن عناصر اس موضوع پر عالمی سطح پہ پروپیگنڈامیں مصروف ہیں،اس سے کتاب کی قدر و منزلت میں کہیں زیادہ اضافہ ہوتا۔لائق مرتب نے یمن کے بادشاہ کا وہ خط، جو کئی سو سال پہلے لکھا گیا ہے، وہ نقل کیا اور چونکہ وہ عربی میں ہے ،جامع اور مختصر ہے ،اُس کا عام فہم اردو ترجمہ بھی لکھا ہے ۔اس میں چار سو سال پہلے شاہ یمن تبع آپؐ کے نبی برحق ہونے کی گواہی دیتا ہے ۔اس خط کا حوالہ سیرت مصطفی از مولانا محمد ادریس کاندھلوی سے ہے ،پھر صدیق اکبرؓ کے خواب کا ذکر ہے جو انہوں نے شام میں دیکھا تھا اور عیسائی پادری نے اُن سے کہا کہ تمہارے شہر میں ایک نبی ظاہر ہوگا اور تم اُن پر سب سے پہلے ایمان لائوگے۔حق یہ ہے پیغمبر اسلام کے متعلق پچھلے مذاہب اور شخصیات کی بیان کردہ بشارتیں ،پیش گویاں ،علامات اور اُن کے سچے ہونے کے اعلانات کو زیادہ سے زیادہ بیان کرنے کی ضرورت آج کے عہد میں زیادہ ہے ۔اس لئے کہ توہینِ رسالت کے لئے جیسے ملکوں ملکوں اور قوموں کی قوموں میں جو مہم چلائی جارہی ہے اور انسانیت ،اخلاق و شرافت کو روندتے ہوئے اُن کی جیسی تائید اور تصویب کی جارہی ہے،اُس کے پیش نظر بار بار یہ بیان کیا جائے کہ جس ذات اقدس کی شان میں تم انسانیت سے بھی گِر کر توہین کرنے میں لطف اور اہلِ ایمان کے دلوں کو زخمی کرنے میں لذت محسوس کرتے ہو ،اُس ذات اقدس کے متعلق موسیٰ و مسیح علیہماالسلام نے کیا کیا کہا ہے اور رام و کرشن نے کیسے اُن کو ہزاروں سال پہلے خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
سیرت رسالت مآب میں مرتب نے کوشش کی ہے کہ پوری حیات ِ مبارکہ مربوط انداز میں پیش ہو ،پھر نہ اتنی طویل ہو کہ آج کا عجلت پسند قاری اُکتا جائے ،نہ اتنی مختصر ہو کہ تشنگی باقی رہے اور کتاب بچوں کی مختصر کتاب کے مساوی ہوجائے۔کتاب میں ربط اور تسلسل کو یقیناً ملحوظ رکھا گیا ہے اگر چہ ایک سے زائد مقامات پر ایسے مضامین بھی زیر مطالعہ آئے کہ جو یقیناً اہم ہیں مگر سیاق و سباق سے مکمل طور پر مربوط نہیں ہیں۔مثلاً معجزہ شق القمر کا بیان ہوا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے چاند کے دو ٹکڑے ہوئے اور روسائے مکہ نے بچشم خود اُس کو دیکھا کہ ایک ٹکڑا غارِ حرا کے ایک طرف گرا اور دوسرا دوسری طرف ۔اس کے لئے حوالہ بخاری شریف کا پیش کیا ہے۔پھر اس کے متصلاً بعد سورج کے واپس آنے کا معجزہ نقل کیا جس کو معجزہ ردّ ِ شمس کہتے ہیں ۔سورج ڈوب کر واپس آئے یہ بھی ناممکن ہے اور چاند دو ٹکڑے ہوجائیں یہ بھی ناممکن ہے مگر نبوت محمدی کی صداقت کے ہزاروں دلائل اور واقعات میں سے یہ دونوں واقعیات یقیناً وقوع پذیر ہوئے مگر یہ دوسرا واقعہ مدینہ منورکے قیام کے زمانہ میں سات سال گذرنے کے بعد خیبر سے واپسی میں پیش آیا ۔اس واقعہ کو علامہ ابن حجر عسقلانی کی کتاب فتح الباری شرح بخاری اور علامہ جلال الدین سیوطی کی کتاب الخصائص الکبریٰ کے حوالے سے لکھا ہے۔
یہ دوسرا واقعہ ترتیب میں مدنی دور میں خیبر کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھا جائے تو ربط برقرار رہے گا ۔کتاب میں واقعہ معراج کی تفصیلات خصوصاً حضرات انبیاء علیھم السلام سے ملاقات اور اُس کے اسرار کا بیان بہت ایمان افروز بھی ہے اور ولولہ انگیز بھی۔واقعہ معراج میں سدرۃ المنتہیٰ، جنت و جہنم ،عرش و کرسی کا مشاہدہ تو متفقہ ہے مگر دیدار ِ الہٰی کے متعلق ہمیشہ سے دو نقطۂ نظر رہے ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ معراج میں رویت الٰہی نہیں ہوئی ہے ۔اس نقطۂ نظر کے حامل ہر ہر دور میں بے شمار اصحاب ِعلم و فضل رہے اور اِس کی سرخیل حضرت عائشہ صدیقہؓ ہیں کہ وہ رویت باری کی نفی کرتی ہیں ،
دوسرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ بلاشبہ رویت باری ہوئی ہے اور یہ رویت باری اُسی طرح ہوئی جیسے قیامت میں ہر صاحب ایمان اپنے خالق و مالک کی رویت و دیدار سے شرف یاب ہوگا ،تو جیسے قیامت میں ہر صاحب ایمان کی قوت بصارت میں اتنی قوت ہوگی کہ زیارت ِ الٰہی سے مشرف ہوگا ،اسی طرح بصارت محمدی میں وہ قوت ادراک موجود تھی اور عالم الامکان میں چونکہ آپ کی تمام جسمانی و روحانی قوتیں عالم دنیا سے یکسر مختلف تھیں اسی طرح قوتِ بصارت بھی اس درجہ کی تھی کہ رویت باری ہوگئی ۔اس رائے کے حاملین ہر ہر عہد میں بے شمار فقہاء ،محدثین ،متکلین اور اولیاء رہے ہیںاور اس کے اولین حامل حضرت عبداللہ بن عباس ؓ ہیں۔ترمذی ،نسائی ،طبرانی وغیرہ کے حوالوں سے یہ دوسرا نقطۂ نظر لکھ کر لائق مؤلف نے پہلے نقطہ نظر کے حاملین کی نہ تو ہین کی اور نہ ہی کوئی اور تنقید کی۔ہاں اس کی تفصیل اور مزید تحقیق کسی کو مطلوب ہوتو اس موضوع پر لکھی گئی مدلل کتابوں سے مستفید ہوسکتا۔علمی سلیقہ مندی یہی ہے۔
زیر نظر کتاب آسان زبان ،سلیس اور دلنشین اسلوب کے ساتھ عام فہم طرز پر لکھی گئی ہے۔مضامین میں نہ مغلق بحثیں ہیں ،نہ ثقیل اور دقیق طرز تحریر ہے ۔نہ ادب و انشاء ہے نہ سطحیت اور ابتذال ہے ۔بس مستند کتابوں کو سامنے رکھ کر سیرت مبارکہ کو مومنانہ اور محبانہ جذبات و احساسات کے ساتھ سپردِ قرطاس کیا ہے ۔یہ کتاب مساجد کے ائمہ و خطباء کے لئے بھی اپنے جمعہ کے خطابات کے لئے مفید ہے اور سکولوں و کالجوں کے طلباء اور نسلِ نو کے لئے بھی مناسب ہے۔
مؤلف نے اگرچہ اُن کتابوں کی مفصل فہرست درج نہیں کی ہے جو بطور ِماخذ اُن کے پیش نظر رہیںتاہم کتاب کے مضامین سے با آسانی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جو کچھ لکھا گیا ہے سیرت کی مستند کتابوں سے عطر کشید کرکے لکھا گیا ہے ۔چنانچہ جگہ جگہ حدیث ،تفسیر اور سیرت کی کتابوں کے حوالے ہیں، جس سے کتاب کے استناد کا درجہ یقیناً بلند ہوتا ہے۔
کتاب میں کتابت کی کچھ غلطیاں پڑھنے والے کے ذوقپر گراں گذرتی ہیں،مگری بھی حقیقت ہیکہ سہَوکام کرنے والے سے ہی ہوسکتے ہیں،جو ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہے،ا‘س سے کہاں غلطی ہوسکتی ہے ،تاہم غلطیوں کی تصحیح انسان کا حصہ ہونا چاہئے اور امید ہے کہ کتاب کی اائیدہ اشاعت میں اس پر توجہ مرکوز کرکے ان اغلاط کو درست کیا جائے گا۔
کتاب کے اخیر میں وصال کی تفصیلات میں بہت زیادہ اختصار و اجمال ہے۔ضرورت تھی کہ علالت کی ابتداء سے یوم وصال تک پیش آنے والے واقعات کو حدیث و سیرت کی کتابوں میں وہ تمام تفصیلات کے ساتھ نقل کیا جاتا اور تدفین کے بعد ایک پورا باب متروکات کا درج ہوتا۔
اس باب سے یہ واضح ہوتا کہ شہنشاہ ِ کونین ،سرور عالم اور کائنات ِ انسانی کی سب سے مقدس ہستی نے متاعِ دنیا کی کتنی چیزیں اپنے پیچھے چھوڑ ی تھیںاور امہات المومنین ازواج مطہرات کے گذر بسر کے لئے کیا سرمایہ چھوڑا تھا۔جس ذات اقدس کی حکومت پورے جزیرۃ العرب پر قائم تھی اُس کے گھر کی خواتین جو اس کائنات کی سب سے مبارک خواتین تھیں، اُن کے نانِ شبینہ کے لئے بطور قرض اناج کے طور کے صرف جو خریدے گئے اور وہ قرض بھی ابھی ادا نہ ہوسکا تھا کہ محبوب رب العالمین اس کائنات دنیا سے رخصت ہوگئے ۔اخیر میں ایک مغربی محقق کی یہ حقیقت افروز تحقیق لکھنے کو جی چاہتا جس میں وہ صرف یہ کہنا چاہتا ہے کہ دنیا میں کسی بھی مذہب کے بانی کے احوال اور سوانح اُس طرح محفوظ نہیں۔ جس طرح پیغمبر اسلام محمد رسول اللہؐ کے ،کہ تمام جزئیات وتمام تر تفصیلات کے ساتھ محفوظ ہیں اور یہ بھی حقانیت ِ محمدی کا تاریخی و علمی ثبوت ہے۔ٹرنٹی کالج آکسفورڈ کے فیلو ریونڈ اسمتھ نے رائل انسٹی ٹیوٹ آف گریٹ برٹن میں محمد اینڈ محمدازم کے عنوان پر لیکچر دیئے جو کتابی صورت میں شائع ہیں ۔اُس میں وہ کہتے ہیں:
جو کچھ عام طور پر مذاہب کی (ابتدائی معلومات ناپید ہونے کی)نسبت صحیح ہے وہی بدقسمتی سے ان تینوں مذاہب اور ان کے بانیوں کی نسبت بھی صحیح ہے جن کو ہم بہتر نام موجود نہ ہونے کی وجہ سے تاریخی کہتے ہیں۔ہم مذہب کے ابتدائی اور اولین کارکنوں کی نسبت بہت کم اور جنہوں نے بعد کو ان کی محنتوں کے ساتھ اپنی محنتیں ملائیں اُن کے متعلق شاید زیادہ جانتے ہیں ہم زر تشست اور کنفیوشس کے متعلق اس سے کم جانتے ہیں جو سولن اور سقراط کے متعلق جانتے ہیں۔
ہم موسیٰ(علیہ السلام)اور گوتم بدھ کے متعلق اس سے کم واقف ہیں جو ہم ایمبرس اور سیزر کے متعلق جانتے ہیں۔آگے لکھا ہم مسیح کی ماں ،مسیح کی خانگی زندگی ،ان کے ابتدائی احباب ،اُن کے ساتھ تعلقات ،اُن کے روحانی مشن کے تدریجی طلوع یا یک بیک ظہور کی نسبت کیا جانتے ہیں۔اُن کی نسبت کتنے سوالات ہم میں سے ہر ایک کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیںجو ہمیشہ سولات ہی رہیں گے۔
لیکن اسلام میں ہر چیز ممتاز ہے ۔یہاں دھندلاپن اور راز (چھپی ہوئی کوئی چیز)نہیں۔یہاں ہم پوری تاریخ دیکھتے ہیں ۔ہم محمد کے متعلق اس قدر جانتے ہیں جس قدر لوتھر اور ملٹن کے متعلق جانتے ہیں۔میتھا لوجی ،فرضی افسانے اور مافوق الفطرت واقعات ابتدائی عرب مصنفین میں نہیں۔کوئی شخص یہاں نہ خود کو دھوکا دے سکتا ہے نہ دوسرے کو ۔یہاں پورے دن کی روشنی ہے جو ہر چیز پر پڑرہی ہے اور ہر ایک تک پہنچ سکتی ہے۔(بحوالہ خطبات مدارس صفحہ ۱۶۸ ،ازعلامہ سید سلیمان ندوی)
بہر حال سیرت رسالت مآب کے لائق مؤلف اور اُن کے معاونین مبارک مبارک اور مبارک کے مستحق ہیں ۔سیرت نگاروں کی عظیم شخصیات کی صف میں خوش بختی سے شریک ہونا زہے نصیب ،زہے سعادت،زہے فیروز مندی۔