اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میںفرمایا ہے کہ میں نے بعض انبیآء کوبعض انبیاء پربرتری دی ہے اگر چہ نفسِ نبوت ورسالت میں وہ یکساں ہیں ، اسی لئے حضرت رسالتمآب ﷺ نے تنبیہہ فرمائی ہے کہ مجھے انبیاء پرایسی فوقیت نہ دو کہ سابقہ انبیاء ورُسل کی اہانت نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے انہیںاپنے زمانوں میں ضرورت کے مطابق کامل شریعت ،ضابطۂ حیات،نظام اخلاق ،تعلیم دی تھی ، لیکن حضور اقدسﷺ کو زمان آخر میں مبعوث فرماکر ان کی نبوت ورسالت کو اس انتہا تک پہنچایا کہ اب کسی اور نبی ورسول کی ضرورت نہیں کہ وہ نظام زندگی کے تمام شعبوں ،علم واخلاق کو اوروسعت دے اس لحاظ سے حضرت نبی برحقﷺ کو تمام انبیآء ورسولوں پر برتری عطا کی گئی۔ ؎
حضرت ناصح گر آئے دیدہ و دل فرش را
کوئی مجھ کو تو یہ سمجھائے کہ سمجھائیں گے کیا
تخلیق نورِ نبوت کی سرفرازی کے لحاظ سے حضرت سرور دوعالم ﷺ اول ومصدر ہے اورباقی سب اس کے جزیات ہیں یہی وجہ ہے کہ میثاق دوم میں ہرنبی اوررسول سے یہ عہد لیا گیا کہ اگرتم لوگ ان کا زمانہ پائو گے تو ان پر ضرور ایمان اورنصرت کی ذمہ داری نبھانا ۔اللہ تعالیٰ نے پیغمبر آخر الزمان ﷺ کی امت کو اس لحاظ سے خیر امت بنادیا جس طرح حضور اقدسﷺ کو جماعت انبیآء ورسل میںمنتخب فرمایا اسی طرح اس امت کو تمام امت میںسے انتخاب کیاتو ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کبار تابعین تبع تابعین اولیائے کاملین کو بھی منتخب کیا کہ وہ اس دین اور شریعت مطہرہ کی آبیاری کیلئے بطور خلیفہ ہیں۔ انبیآء ایسی جماعت ہے جو وہبی ہے یعنی کوئی بھی اپنی کوشش سے یہ منصب حاصل نہ کرسکا بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ اُن پر انعام ہے۔
اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر قرآن مجید میں فرمایا :اللہ نے جس کو چاہا منتخب کیا اورجس نے کوشش کی اس کی طرف انہیں ہدایت فرمائی گئی یعنی ایک جس کو خدا نے خود چاہا دوسرا جو خدا کو چاہتا ہے جن کو خدا نے چاہا انہیں مجتبین کہتے ہیں جو خدا کو چاہنے میں محنت کرتے ہیں انہیں سالکین کہتے ہیں ۔حضرت رسول برحق ﷺ کی امت میں بعد صحابہؓ ودوازدہ ائمہ کے بعد یہ مرتبہ حضرت محبوب سبحانیؒ شیخ سیدعبدالقادر جیلانیؒ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے تمام اولیاء پر سیادت وقیادت کی برتری عطا فرمائی ہے اسی وجہ سے انہیں سید الاولیآء کا خطاب ملا ہے۔
حضرت محبوب سبحانی ؒ شیخ سید عبدالقادر جیلانیؒ فرماتے ہیں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے دین کی خدمت ودرد سوز کے عوض محی الدین کے نام سے معروف کیااس سے پہلے یہ خطاب کسی اور کو نہ ملا ۔بغداد کے خرافات دنیا پرستی کی حالات سے تنگ آکر میںنے گوشہ نشینی کا تہیہ کرلیا تھا۔ جب بغداد کے حدود سے نکلا ایک ضعیف العمر کوزمین پر لیٹے ہوئے دیکھا اس نے میری طرف روئے مخاطب ہوکر فرمایا السلام علیکم یامحی الدین ۔مجھے زمین سے اٹھانے کی استدعا کی جب میں نے اُسے اٹھایا تو فوراً اس میںایک نئی رونق بشاشت آئی میں نے کہا آپ کون ہیں؟فرمایا میںآپ کے جدامجد کادین ’’دین اسلام‘‘ ہوں۔ بغداد کے حالات نے مجھے ضعیف کردیامیری معاونت کرو ۔تو میںفوراً لوٹ کرجامع میںداخل ہوا تو ہر طرف سے یہ آواز آئی ۔یا سیدی محی الدین کچھ فرمایئے۔تو میں نے تبلیغ شروع کی۔پہلے مجھ پریہ خوف طاری ہوا کہ میں عجمی ہوں کہ عرب کے سامنے کیسے زبان کھولوں۔اس زمانے میں بڑے بڑے علماء واولیا بغداد میںموجود تھے، تاریخ گواہ ہے کہ کم از کم حضرت غوث الاعظم ؒ ایک آیت کی چالیس تفسیر فرماتے تھے اس کے بعد فرماتے تھے کہ اس یہ آیت کی تفسیر قال تھا اب میںتجھے حال کی طرف لے آئوں گا تو فوراً حضرت امام جوزی ؒ جیسے علماء اپنے جاموں کو تار تار کرتے تھے۔ غنیتہ الطالبین میں فاذکرونی اذکرکم وشکرولی ولا تکفرون کے اکتالیس معنی فرمائے ہیں اسی انداز سے احادیث نبوی ؐ کی بھی تشریح فرماتے ہیں اگر ان تشریحات کو یکجا کیاجائے تو یقینا تفسیر وحدیث کے دفاتر جمع ہوجائیںگے۔ جو آج بھی تشریح طلب ہے ۔حضرت شیخ محقق عبدالحق محدث دہلویؒ فرماتے ہیںکہ میں نے دو بار مفتوح الغیب کا مطالعہ کیا مجھے سمجھ نہیں آئی۔ اس کے بعد مجھے دو استاتذہ کے سامنے زانوے ادب بیٹھ کر اس کو سمجھنے کیلئے استفادہ کرنا پڑا تو پھر میں نے اس کتاب کو فارسی میں ترجمہ کیا پھر بھی حق ادا نہ ہوا۔
حضرت غوث الاعظم ؒ فرماتے ہیں کہ مجھے اکثر القا ہوتا تھا اے عبدالقادر میں نے تجھے اس دین کی آبیاری کیلئے چن لیا ہے اورتیری دین کی خدمت تمہیں اس مرتبے تک پہنچائے گی کہ تم تمام اولیاء کے مخدوم بن جائو گے اورتمہارے پیچھے تما م اولیاء تیرے نقش قدم پر چل کر کامیابی کے ڈنکے بجائیں گے۔
خود فرماتے ہیں تمام اولیاء میرے قدم اور میں خود برقدم جناب محمد رسول اللہ ﷺ ہوں لفظ قدم تصوف میںایک مستقل اصطلاح ہے جس کی وضاحت شیخ محی الدین ابن عربیؒ فتوحات مکیہ میں فرمایا :جو بالواسطہ حضرت پیر کے خلیفہ تھے حضرت شیخ عربی حضرت غوث الاعظم ؒ کے اس مرید کے فرزند جن کا کوئی بیٹا نہیںتھا تو جناب غوث الاعظم ؒ کے دعائوں سے ایسا جلیل القدر فرزند نصیب ہوا جنہیں اپنا نام محی الدین نام رکھنے کو کہا گیا ان کے علوم کے سامنے تمام اہل علم کو سرخم ہے گویا یہ تمام علوم حضرت غوث الاعظم ؒ کے ہمہ جہت علوم کا پر تو تھا جو شیخ محی الدین ابن برمکی سے ظہور ہوئے ۔قدم کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں جس ساخت سے کفار کے دل بنے ہوئے ہیں اس ساخت سے مومن کے دو پائوں کی تخلیق ہوئی ہے جس ساخت سے مومن کے دل بنے ہوئے ہیں اس ساخت سے اولیاء اللہ کے پائوں کی تخلیق ہوئی ہے۔ جس ساخت سے اولیاء اللہ کے قلوب بنے ہوئے ہیں اس ساخت سے انبیاء کرام کے پائوں بنے ہوئے ہیں ۔ جس ساخت سے انبیاء کرام کے قلوب بنے ہوئے ہیں اس ساخت سے حضرت سرور دوعالم کے پائے مقدس تخلیق ہوئے ہیں اب آپ اندازہ کیجئے حضور پُر انوار کا قلب مقدس کا عالم کیا ہوگا بلکہ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے تمام انوار برکات حضور اقدس کے قلب اطہر پر نازل فرماتا ہے اوریہ مخلوقات عالم کوبانٹ دیئے جاتے ہیں۔ یہی اس حدیث کی تشریح ہے وانما ان قاسم واللہ معطی۔اور یقینا اللہ تعالیٰ مجھے عطا فرماتا ہے اورمیں بانٹنے والا ہوں۔اور حضرت غوث الاعظم ؒ فرماتے ہیں کہ میرے قدم تمام اولیاء اللہ کے گردنوں پر ہیں کیونکہ میری گردن پر حضور اقدس ﷺ کے قد م اقدس ہیں گویا قدم بر قدم اطاعت واتباع نے مجھے اس مرتبے پر فائز کیا ہے۔
حضرت علی الہیتیؒ نے فرمایا علم کا سوال کروں گا کہ علمی گہرائی دیکھوں تو حضرت پیر ؒ نے فرمایا میں کوئی سوال نہیں کروں گا صر ف ملاقات اوراستفادہ کروں گا جب اس وقت کے غوث کے دربار میں پہنچے تو صنعان پر عتاب ہوا اورحضرت شیخ علی الہیتی ؒبال بال بچ گئے۔ تو حضرت پیر ؒ کو اپنے پہلو میں بٹھاکر فرمایا ،فرزند آپ نے ادب ملحوظ نظر رکھا عنقریب وقت آئے گا کہ آپ میرے غوث کے مسند پر سرفراز ہوجائو گے۔ آپ کا قدم تما م اولیاء کے گردنوں پر ہوگا۔اس وجہ سے حضرت شیخ علی الہیتیؒ نے سبقت کی۔ اورغائبانہ حضرت ابن غیاث خواجہ معین الدین چستیؒ نے سبقت کی تو بطور مکاشفہ حضرت پیر نے فرمایا ابن غیاث نے سبقت کو انہیں اس کے عوض ولایت ہند دیا گیا اولیاء اللہ زمانے مکان اور لسان کے تابع نہیں ہوتے ہیں بلکہ ابوالوقت ابوالسان ابوالمکان ہوتے ہیں لہٰذاانہوں نے اتنی دوری ہو کے بھی پھر حضرت غوث الاعظمؒ کا یہ فرمان سن لیا ۔
حضرت علامہ اقبال ؒ نے مومن کی اس مقام کی وضاحت یوں فرمائی کہ تیرے سامنے آسمان اور بھی ہیں۔
حضرت شاہ ہمدان ؒ اس مقام کی وضاحت یوں فرماتے ہیں۔
گرہمائی قاف قربی بال ہمت برکشا
درفضائے لامکان باقد سیاں انباز شو
کیونکہ انسان جسمانی طور ناسوتی ہے اور روحانی طور لا ہوتی ہے اگر اس نے اپنا مقام اورنفس نہیں پہچانا توا س کے پر کاٹ دیئے جاتے ہیں وہ لائق پرواز نہیں رہتا ہے۔
غذائے حرام ،اخلاق رزیلہ، طاغوت کی اطاعت ، خواہشوں کی اتباع سے انسان کی یہ استعداد ختم ہوجاتی ہے اورحضرت غوث الاعظم ؒ سے نقائص سے پاک ہوکر اس مقام باز اشعب پر فائز تھے۔حضرت غوث الاعظم ؒ فرماتے تھے میں ارادے سے پاک ہوگیا یعنی میری نیت وارادہ ان حدوں سے گذر گیا کہ میںاب خدا کے ارادے سے تمام کاموں کو انجام دیتا ہوں ۔خدا نے مجھے القا فرمایا ہے اے عبدالقادر اٹھ تہجد کا وقت ہوا ۔اے عبدالقادر آج یہ لباس پہن، اے عبدالقادر تجھے میری قسم آج یہ تناول فرما ،میں یہ از روئے تحدیت نعمت بیان کرتا ہوں کہ مجھے حضور ﷺ کے اتباع سے کیاکیا ملا ۔حضرت علامہ اقبال ؒ اس مقام کی وضاحت ایسے فرماتے ہیں
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیزہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں
خود ی کو کربلند اتنا ہر تقدیر سے پہلے
خدا بند سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
حضرت غوث الاعظم ؒ فرماتے ہیں کہ انا ملحوظ یعنی میں خدا کے دربار میںملحوظ نظر ہوں ۔میںکسی بھی طلسمات سے دھوکہ نہیں کھا سکتا ہوں مجھے خدا تعالیٰ نے قدم قدم پر رہنمائی کی ۔ابلیس نے بہت بار مجھے مغالطہ میںڈالنے کی کوشش کی مگر ہر بار اس کی کوشش ناکام ہوئی۔ یہاں تک کہ یہ کہا کہ اس مرتبے سے میں نے آج تک ستھر ولیوں کو گمراہ کیا مگر خدا نے مجھے اس فریب سے نجات دیکر اپنی پناہ میں رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے تمام غوثوں پر برتری دی اور غوث الاعظم ؒ کے لقب سے مجھے زمین نے آسمان میں میرا ڈنکا بجایا۔
طبولی فی السماء والارض دُکت
وشائوس الاسعادۃ قد بدالی
مشکواۃ شریف میںحد یث ہے کہ گرہ کیتانی حضرت امام نودی نے کتاب الاذکار میںکی ہے قال رسول اللہ ﷺ اذا نفلتت دابۃ احدکم فلینادو ا اعینونی یاعباد اللہ ۔اگر کسی کو کسی میدان میں اپنا جانور بھاگ جائے تو فوراً کہنا چاہئے ۔اے خدا کے بندو میری مدد کرو ،زمین وآسمان میں ایسے رجا ل اللہ ہوتے ہیں جو آواز سن کر اس مصیبت زدہ کی مدد کرتے ہیں گویا یہ شخص فریاد کرتا ہے ۔فریاد کرنے والے کو عربی میں استغاثہ کہتے ہیں اوراستغاثہ سننے والے کو غوث کہتے ہیں اورتمام غوث حضرات پر حضرت پیر ؒ کو سیادت حاصل تھی انہیں غوث الاعظم ؒ کا خطاب ملا ۔ مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی ؒ فرماتے ہیں کہ قطب الکبریٰ کے مقام پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ فائز تھے اس کے بعد حسنین ؓ کریمین اوریہ سلسلہ دروازہ ایمہ کے پاس ہے۔ حضرت امام مہدی ؒ کے ظہور تک یہ منصب قطب الکبریٰ حضرت پیر ؒ کے تفویض میں ہے اورامام مہدی کے ظہور کے بعد یہ ان کے پاس منتقل ہوگا ۔واضح رہے حضرت مجدد الف ثانی ؒ شریعت کے ایسی برہنہ تلوار تھے جس کے سامنے اکبر کا خود ساختہ دین الٰہی زمین بوس ہوا اور جس کی گردن جہانگیر کے سامنے کبھی نہیں جھکی۔
حضرت غوث الاعظم ؒ شریعت کی ایسی تلوار تھی جن کے سامنے خلاف شریعت کی بات کرنے کی کوئی جرأت نہیں کرتا تھا ،فرماتے تھے حضرت منصور حلاج ؒنے جو بات کہی جس کے عوض انہیں سولی پر چڑھنا پڑا اگر میں اس وقت ہوتا میںانہیں شریعت کی وہ رہبری کرتا اور ایسا کہنے سے باز رکھتا ۔اکثر حضرت شیخ بایزید بسطامی ؒ کو اپنے مواعظہ الحسنہ میںسلطان العارفین کے القابات سے ان کے ملفوظات بیان کرتے تھے مگرحضرات عارفین کا اتفاق ہے کہ حضرت بایزید بسطامی پر بھی حضرت غوث الاعظم ؒ کو برتری حاصل تھی کیونکہ حضرت بایزید بسطامی مغلوب الحال تھے مگر غوث الاعظم غالب الحال تھے انہوں نے شریعت کے زبان سے اہل اسلام کو ہر شعبے میں رہبری فرمائی اورہر میدان میں حضرت پیر کامیاب وکامران رہے انہوں نے کوئی بات ایسی نہیں کی جو شریعت سے ٹکراتی تھی جیسے کہ حضرت بایزید بسطامی نے مقام سکر پر سبحان ما اعظم شانی فرمایا ،مگر قریب انتقال خدا کی شان دیکھ کر اس بات کی طرف رجوع فرمائی۔
حضرت غوث الاعظم ؒ فرماتے ہیں ،مجھے مقام مخدع عطا کیاگیا گویا کہ عوام میری ذات دیکھ کر دھوکہ بھی کھاسکتے ہیں جیسے کہ کفار حضرت رسول برحق ﷺ کی ذات بابرکت دیکھ کر کہتے تھے کہ دیکھو نا کیاپیغمبر ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو بازاروں میں ہماری طرح گھومے ، کھائے پئے۔ نکاح کرے ، تجارت کرے ، معاملات کرے گویا ان کے لحاظ سے پیغمبر ان ذمہ داریوں سے مبرا ہوکر فرشتہ جیسا ہو۔انہیں معلوم نہیں تھا کہ پیغمبر اس لئے مبعوث کئے جاتے ہیں کہ وہ عوام کو ہر شعبے میں رہنمائی کریں ۔خود اس کے عامل ہوتے ہیں ،خدا ئے برحق کا جلال جمال وکمال بشریت کے لباس میں ترجمان ہوتے ہیں ۔اسی طرح اولیا اللہ میں حضرت غوث الاعظم ؒ ہر شعبے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار نظر آتے تھے اور عوام ان کے اصلی حقیقت سے ناآشنا ہوکر دھوکہ کھاتے تھے۔ اس مقام کو مقام مخدع کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ سوالوں او راعتراضات کے انبار ان کے سامنے ہوتے تھے ۔حضرت غوث الاعظمؒ فرماتے ہیں۔
سبھوں کاآفتاب ڈوب گیا اور میرا آفتاب ہمیشہ افق العلیٰ پر رہے گا ۔میں نے اطاعت سرور دو عالم ﷺ میں کوئی کوتاہی نہیں کی میرا وجود میرے جد امجد مولائے کائینات سروردو عالم ﷺ کے وجود اقدس کے تابع ہے ہر مرغ سحر خاموش ہوا لیکن ہمارے مرغ سحر کی اذان تاقیام قیامت سے میں زمانے کے نشیب وفراز سے خوف نہیں کھاتا ہوں۔خدا نے مجھے ان رجال اللہ سے بنایا جو کبھی خوف نہیں کھاتے ہیں ۔حضرت غوث الاعظم ؒ کی سید الاولیاء کے مرتبے کو حضرت خواجہ معین الدین چستی ؒ ۔حضرت بہائو الدین نقشبند ؒ ،خواجہ بختیار کاکیؒ ،حضرت خواجہ حبیب اللہ نوشہری ،حضرت میر سید نازک قادری،صاحب بہجۃ الاسرار ،حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی ،حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ،حضرت اشرف علی تھانوی، حضرت امام احمد رضا خان بریلوی، وغیرہ اپنے مناقب میںحضرت محبوب سبحانی شیخ عبدالقادر جیلانی کو غوث الاعظم کے لقب سے سراہا یہاں تک کہ علماء سلف اہل حدیث نے بھی حضرت پیرؒ اور حضرت غوث الاعظم ؒ کے القابات سے اپنے مواعظات الحسنہ میںان کا نام یاد کرتے ہیں۔
کلہد ارانِ ایں عالم گدایانِ گدائی تست
ترازیبد تراشاید کلہد اری وسلطانی
صدر انجمن حمایت الاسلام