آشا نارنگ۔الور
حال ہی میں ICSE سمیت مختلف ریاستوں کے 10ویں اور 12ویں جماعت کے نتائج کا اعلان کیا گیا ہے،جس میں طالبات کی بڑی تعداد نے توقع سے کہیں زیادہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اگر مواقع اور سہولیات فراہم کی جائیں تو لڑکیاں کسی بھی نتیجے کو اپنے حق میں بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ہمارے ملک میں مرکزی حکومت ہو یا ریاستی حکومتیں، سبھی کے لئے تعلیم ایک اہم موضوع رہا ہےاور اس کے لئے بنیادی سہولیات کی ترقی پر توجہ مرکوز رہی۔ کئی سطحوں پر منصوبے بنائے گئے کہ شہر سے لے کر گاؤں تک اور امیر سے غریب تک تمام بچوں کو یکساں تعلیم حاصل ہو۔ غریب بچوں کی تعلیم میں کوئی رکاوٹ نہ آئے،اس لئے لازمی اور مفت تعلیم کا انتظام کیا گیا، کتابیں، کاپیاں اور اسکول یونیفارم مفت فراہم کیے گئےگویاحکومت کے اس اقدام کے مثبت نتائج سامنے آنے لگے۔ آزادی کے بعد 1951 کی پہلی مردم شماری میں ملک میں شرح خواندگی صرف 18.33 فیصد تھی جبکہ 60 سال بعد 2011 میں یہ بڑھ کر 74 فیصد سے زیادہ ہو گئی۔ لیکن ان خوشگوار اعدادوشمار کے ساتھ اگر سکے کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو نوعمر لڑکیوں خصوصاً دور دراز دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کے لئے حصولِ تعلیم اب تک ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔ ملک میں اب بھی بہت سارے دیہی علاقے ہیں جہاں خواتین کی شرح خواندگی بہت کم ہے۔ لڑکیاں 12ویں تک بھی مشکل سے تعلیم حاصل کر پاتی ہیں۔
راجستھان کےالور ضلع میں آج بھی خواتین میں خواندگی کی شرح دوہرے اعداد و شمار سے بھی تجاوز نہیں کر سکی۔ اس گاؤں میں جہاں لڑکیوں کی تعلیم کے تئیں معاشرے میں بے حسی پائی جاتی ہے وہیں تعلیمی میدان میں بھی حکومت کی اسکیمیں ناکام ہوتی نظر آرہی ہیں۔الورا ضلع میں خواتین کی آبادی تقریباً 48 فیصد ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق اس مسلم اکثریتی گاؤں میں شرح خواندگی 18 فیصد سے بھی کم ہے۔ جن میں مردوں میں خواندگی کی شرح تقریباً 30 فیصد اور خواتین میں شرح خواندگی پانچ فیصد سے بھی کم ہے۔ گاؤں میں نہ پنچایت گھر، نہ آنگن واڑی اور نہ ہی کوئی عوامی بیت الخلا ءہے۔ دیہاتیوں کے روزگار کے اہم ذرائع مویشی پالنا، روزانہ مزدوری، تھریشر مشین چلانا اور ٹرک ڈرائیور یہے جبکہ کچھ خاندانوں کی اپنی زمین ہے جس پر وہ کاشتکاری کرتے ہیں۔ خواتین گھریلو کاموں کے ساتھ ساتھ کھیتی باڑی کے کاموں میں مردوں کی مدد کرتی ہیں۔ پکی سڑک نہ ہونے کی وجہ سے سفری سہولیات بھی میسر نہیں۔گاؤں میں لڑکیوں کی تعلیم کی تشویشناک صورتحال کے بارے میں 35 سالہ عباس کا کہنا ہے کہ گاؤں میں صرف آٹھویں جماعت تک کا مڈل اسکول ہے۔ مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے لڑکیوں کو 10 کلومیٹر دور دوسرے گاؤں جانا پڑے گا۔ لیکن سفری سہولیات کی کمی، لڑکیوں سے چھیڑ چھاڑ کے خوف اور لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے معاشرے کی محدود سوچ کے باعث والدین لڑکیوں کو اتنی دُور تک بھیجنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے لڑکی چاہ کر بھی نویں یا دسویں جماعت کی تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہتی ہیں۔ گاؤں میں موجود مڈل سکول سرکاری سکول میں بھی سہولیات کا فقدان ہے۔ یہ سکول ہیڈ ماسٹر سمیت صرف چار اساتذہ پر مشتمل ہے۔ اسمیں نہ تو پینے کے صاف پانیاور نہ بشری حاجت کے لئے بیت الخلاء کا انتظام ہے۔
ایک طالبہ کی والدہ کا کہنا ہے کہ’’ان کی بیٹی نے کئی بار اسکول میں سہولیات کے فقدان کی شکایت کی ہے۔ لیکن وہ مالی طور پر اتنی مضبوط نہیں کہ اپنی بیٹی کو گاؤں سے باہر یا کسی پرائیویٹ تعلیمی ادارے میں داخل کروا سکے۔‘‘ ا سکول میں کوئی خاتون ٹیچر نہ ہونے کی وجہ سے اکثر لڑکیوں کو ایامِ حیض کے دوران مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی لئے دیہات کی لڑکیاں ان ایام کے دوران اسکول جانا چھوڑ دیتی ہیںاوراُن کی تعلیم متاثر ہوجاتی ہے۔ آٹھویں کے بعد تعلیم کے لیے دوسرے گاؤں جانے کے سوال پر ایک اور خاتون کا کہنا ہے کہ’’ہم اپنی لڑکیوں کی حفاظت کے لیے پریشان ہیں۔ اگر کسی لڑکی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا کوئی واقعہ ہو جائے تونہ صرف اس لڑکی کی عزت بلکہ اس کے خاندان کی عزت ختم ہو جاتی ہے۔‘‘سماجی کارکن اورمیوات شکشا پنچایت کے رکن ظفر کہتے ہیں،’’جب گاؤں میں تعلیم کا ماحول نہیں ہے تو لڑکیوں کی تعلیم کا سوال تو دور کی بات ہے۔ آج تک گاؤں میں صرف ایک لڑکے کو سرکاری نوکری ملی ہے۔جب کوئی لڑکی گریجویشن تک نہیں پہونچے گی تو وہ سرکاری نوکری کی اُمید کیسے کر سکتی ہے؟ بقول اُن کے’’اگرچہ پہلے کے مقابلے اب گاؤں میں تعلیم کے تئیں بیداری تھوڑی بہت بڑھ گئی ہے، لوگ اپنے بچوں کو بھی تعلیم دلانا چاہتے ہیں، لیکن لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے ابھی بیداری کی ضرورت ہے۔ گاؤں میں ہی دسویں یا اگر بارہویں جماعت تک اسکول کھلتے ہیں تو شاید نوعمر لڑکیوں کے لیے اعلیٰ تعلیم تک رسائی آسان ہو جائے گی۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ’’کچھ این جی اوز جیسے الور میوات ایجوکیشن اینڈ ڈیولپمنٹ انسٹی ٹیوٹ نے اس سمت میں پہل کی ہے۔ انہوں نے عظیم پریم جی فاؤنڈیشن کے تعاون سے گاؤں میں ایڈلسنٹ گرلز لرننگ سنٹر (AGLC) شروع کیا ہے۔ اس میں 11سے 18 سال کی عمر کی وہ لڑکیاں جنہوں نے 8ویں کے بعد اسکول چھوڑ دیا تھا، بلکہ وہ لڑکیاں بھی جو کسی وجہ سے کبھی بھی اسکول نہیں گئی تھیں، ان کی تعلیم کا انتظام کیا جاتا ہے۔اس ادارے کے ذریعے 14 سال کی عمر پوری کرنے والی لڑکیوں کو بھی تعلیم دی جارہی ہے۔ تنظیم کی جانب سے اوپن اسکول سے 10ویں اور 12ویں جماعت کے امتحانات میں شرکت کرنے میں بھی مدد کی جاتی ہے۔ تنظیم کی اس کوشش کا نتیجہ ہے کہ صائمہ نامی لڑکی اس گاؤں کی پہلی لڑکی بن گئی ہے جوگذشتہ سال 10ویں جماعت کے امتحان میں بیٹھی ہے۔درحقیقت آج بھی ہمارے ملک میں کچھ گاؤں ایسے ہیں جہاں لڑکیوں کو درمیان میں ہی اسکول چھوڑا دیا جاتا ہے۔ اس کے پیچھے چند اہم عوامل میں صنفی امتیاز، معاشی حیثیت، اسکولوں تک رسائی کی کمی، کم عمری کی شادی اور سماجی اور ثقافتی اصول شامل ہیں۔ یہ وہ پہلو ہیں جو لڑکیوں کی تعلیم کو کسی نہ کسی طرح متاثر کرتے ہیں۔ (چرخہ فیچرس)