جموںوکشمیر مرکزی زیر انتظام علاقہ میں حکومت نے بالآخر تعلیمی ادارے جزوی طور کھولنے کا فیصلہ لیا ہے۔ اول تو اسی ماہ طلباء اور عملہ کی صد فیصد کووڈ ٹیکہ کاری یقینی بناکر کالج اور یونیورسٹیاں کھولنے کا فیصلہ لیاگیا ہے جبکہ دسویں اور بارہویں جماعتوں کیلئے تدریسی عمل شروع کرنے کی مشروط اجازت دی گئی تاہم دونوں جماعتوں کے طلاب کو صرف مخصوص ایام میں50 فیصد حاضری کے ساتھ تدریسی عمل میں شرکت کی اجازت ہوگی۔اس کے علاوہ سول سروسز اور انجینئرنگ کوچنگ سنٹر50 فیصد کی محدود بنیاد پر تدریسی سرگرمیاں بحال کر سکتے ہیں، البتہ عام کوچنگ سینٹر بدستور بند رہیں گے۔ سرکاری حکم نامہ کے مطابق بارہویں جماعت کے طلباء کیلئے ٹیکہ کاری لازمی قرار دی گئی ہے جبکہ دسویں جماعت کے طلاب کیلئے کووڈ ٹیسٹ لازمی قرار دی گئی ہے ،نیز والدین کی رضامندی بھی لازمی قرارپائی ہے۔ گوکہ دسویں اور بارہویں جماعت کے کلاسز کھولنے کا عمل اپنے آپ میں مستحسن قدم ہے اور اس کا خیر مقدم کیاجانا چاہئے تاہم کچھ باتیں ہیں جو حکام کے گوش گزار کرنا ضروری ہیں۔حکم نامہ میں کہاگیا ہے کہ سکول کے احاطے کو صاف ستھرا رکھا جائے گا اور ٹیکہ کاری کے حوالے سے مناسب سکریننگ سکول کے گیٹ پر کی جانی چاہیے اور اگر کوئی طالب علم یا استاد یاسکول کا دیگر عملہ کھانسی ، نزلہ ، یا بخار کی علامات ظاہر کرتا ہے، تو انہیں سکول میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوگی۔شرائط اچھی ہیں تاہم دیکھنایہ ہے کہ کیا سبھی سرکاری سکولوں میں سکریننگ ممکن ہے اور کیا سبھی سرکاری سکولوں کو سینیٹائز کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ ماضی کا تجربہ اس حوالے سے کچھ اچھا نہیںہے۔سرکاری سطح پرجس طرح تدریسی عمل میں تعطل پر تشویش کا اظہار کیاگیا،وہ اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ حکومت کو واقعی بچوں کی تعلیم کو لیکر کافی فکرہے اور ہونی بھی چاہئے ۔کوئی باپ نہیں چاہے گا کہ اُس کا بچہ سکول سے دور رہے ۔تمام والدین کی کوشش رہتی ہے کہ ان کے بچوں کا تعلیمی کیرئر متاثر نہ ہو اور اس کیلئے وہ کوئی بھی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرتے ہیںتاہم موجودہ حالات میں گوکہ یہ خوش کن اطلا ع ہے کہ سکول جزوی طور کھل جائیں گے لیکن والدین کو کچھ جائز خدشات لاحق ہیں جن کا ازالہ لازمی ہے ۔جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ کورونامعاملات میں اتار چڑھائو جاری ہے اور تیسری لہر کے بارے میں بار بار خبردار کیاجارہا ہے ۔اگر ایسا ہے تو کیا اس طرح کے ماحول میںبچوں کو سکول بھیجنا ٹھیک رہے گا؟ ۔ا سمیںکوئی دورائے نہیں کہ تعلیمی نقصان ہورہا ہے اور تدریسی عمل بحال ہونا چاہئے تاہم یہ سب طلباء کی زندگیوںکی قیمت پر نہیں ہوناچاہئے ۔ایک سکول میں بیسیوں علاقوںکے بچے مشترکہ طور پڑھتے ہیں اور کم ازکم ایک جماعت میں 30بچے ہوتے ہیں ۔کون جانتا ہے کہ سبھی بچے وائرس سے پاک ہیں ۔جب بھیڑ بھاڑ ہوگی تو کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔ا ب جبکہ تعلیمی ادارے جزوی طورکھولنے کا فیصلہ لیاجاچکا ہے تو حکومت کو چاہئے کہ وہ دسویں اور بارہویں جماعت کے سبھی بچوں کیلئے ٹیکہ کاری کا بندو بست کرے اور اس کے علاوہ ان سبھی بچوںکے ٹیسٹ کروائے جائیں تاکہ سکول جانے سے قبل یہ یقینی بنایا جاسکے کہ وہ انفیکشن میں مبتلا نہیں ہیں۔بچے بیماریوںکے تئیں انتہائی حساس ہوتے ہیں اور معمولی سا انفیکشن بھی ان کے لئے جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے ۔کورونا کا جہاںتک تعلق ہے تو یہ انتہائی سنگین متعدی مرض ہے اور بچوںکو اس مرض کیلئے ایکسپوژ کرنا دانشمندی نہیں ہے ۔اس بات سے بھی انکار نہیں کہ آن لائن تعلیم کا تجربہ کامیاب نہ رہا ۔اب جب درون خانہ حکومت کو بھی معلوم ہے کہ یہ عمل ناکام رہا تو وہ چاہتی ہے کہ روایتی تدریسی نظام بحال ہو،جو اچھی بات ہے اور ہونا بھی چاہئے ۔سکولوں کا تعلیمی ماحول کہیں نہیں ملے گااور بچے جو سکول میں سیکھتے ہیں ،شاید ہی کہیں سیکھ پائیں گے لیکن بچوں کو سکول لیجانے سے قبل اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ کہیں ہمارے سکول پھر کورونا کے نئے ہاٹ سپاٹ نہ بن جائیں جیسا کہ دوسری لہر کی ابتدائی میں ہوا۔ اس کے علاوہ یقینی طور پر سب سے پہلے والدین میں یہ احساس پیدا کرنا ہے کہ ان کے بچوں سکولوں میں محفوظ ہیں ۔مانا کہ حاضری لازمی نہیں ہے اور یہ والدین پر منحصر ہے کہ وہ اپنے بچوںکو سکول بھیجیں یا نہیں تاہم اگر حکومت واقعی چاہتی ہے کہ یہ عمل محض علامت بن کر نہ رہے تووالدین کو اعتماد میںلینا ہی پڑے گا ۔سکولوں میں بھیڑ بھاڑ ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔سماجی دوریوں پر سکولوںمیں بھی عمل پیرا رہنا پڑے گا۔امید کی جاسکتی ہے کہ حکومت ان مشوروںپر غور کرے گی او ر انہیں روبہ عمل بھی لائے گی تاکہ تعلیمی اداروں کی مکمل بحالی تک والدین میں اعتمادپیدا کیاجاسکے اور تعلیمی سفر کامیابی کے ساتھ دوبارہ شروع کیاجاسکے۔