سکول جلانے والے قوم کے خیر خواہ نہیں ہوسکتے

سرینگر// دانشگاہوں کی پراسرار آتشزدگی کے بیچ سیول سوسائٹی، صحافیوں  اور تاجروں نے یک زبان ہوکر تعلیمی اداروں کو قومی اثاثہ قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ آتش زن کسی بھی صورت میں قوم کے خیر خواہ نہیں ہوسکتے۔ وادی میں گزشتہ ایک ماہ کے دوران قریب27تعلیمی اداروں کے پراسر طور پر خاکستر ہونے پر جہاں مزاحمتی جماعتوں اور سرکار نے ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہریا وہیںسرینگر میں سیول سوسائٹی ،صحافیوں اور تاجر برداری نے گول میز کانفرنس کے دوران اسکولوں کی پراسرار آتشزدگی کی وارداتوں کا توڑ کرنے کیلئے مشترکہ حکمت عملی مرتب کرنے کی وکالت کی۔کشمیر ٹریڈرس فیڈریشن کی طرف سے منعقدہ اس اجلاس میں کشمیر اکنامک الائنس دھڑے کے چیئرمین حاجی محمد یاسین خان نے کہا کہ اسکولوں کے نذر آتش ہونے سے پوری وادی ہل چکی ہے جبکہ ان واقعات کے پیچھے نقاب اوڈھے جو چہرے ہیں وہ موجودہ ایجی ٹیشن کے خلاف سازشیں کر کے اس کو سبوتاژ کرناچاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اسکولوں سمیت زیارتوں اور دیگر عمارتوں میں پراسرار آگ کی وارداتیں اب اس قدر تشویشناک رخ کر چکی ہیں کہ صرف زبانی مذمت سے ان پر روک لگایا نہیں جاسکتا بلکہ کشمیر کو علمی نور سے محروم کرنے والے ایسے عناصر کے خلاف مشترکہ حکمت عملی مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے مشترکہ مزاحمتی قیادت کے پروگراموں کو آئندہ بھی جاری رکھنے کا اعلان کیا۔اس موقعہ پر معروف سماجی کارکن ڈاکٹر محمد فاروق کلو نے کیا کہ کشمیر ایک شورش زدہ علاقہ ہے ،جو گزشتہ کئی دہائیوں سے اس طرح کی پراسرار آتش زنی کا شکار ہوا ہے۔انہوں نے مشورہ دیا کہ محلہ اور دیہی سطح پر لوگ مشترکہ طور پر چوکس رہیں اور رضاکارانہ طور پر اسکولوں اور تعلیمی اداروں کو بچانے کیلئے خبردار رہیں۔ڈاکٹر فاروق احمد کلو نے مزید کہا کہ ان لوگوں کے عزائم کو خاک میں ملانے کی ضرورت ہے جو کشمیر میں تعلیمی اداروں کو تباہ کر کے کشمیری نوجوانون اور بچوں کے اثاثے پر ڈھاکہ ڈال رہے ہیں۔موقر انگریزی روزنامہ گریٹر کشمیر کے کالم نویس محمودالرشید نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسکولوں اور تعلیمی اداروں کو جلانے کا معاملہ علیحدہ طور پر دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے ۔انہوں نے صلاح دیتے ہوئے کہا کہ روان ایجی ٹیشن کو مستحکم طریقے سے چلانے کی ضرورت ہے،جہاں تحریک کی روانی اور ٹھہرائو ایک اہم رول ادا کرسکے ۔فیڈریشن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے سابق صدر محمد اشرف میر نے بھی دانش گاہوں کو خاکستر کرنے پر سخت تشویش کا اظہار کیا۔ صحافی ماجد حیدری اور میر باسط نے بھی اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جس حکومت نے10ہزار لوگوں کو حراست میں لیا اور ایک ہزار کو اندھا کیا، انہیں اس بات کا بھی علم ہوگا کہ اسکولوں کو پراسرار طور پر نذر آتش کرنے میں کس کا ہاتھ ہے۔انہوں نے کہا کہ پولیس کہ یہ اہم ذمہ داری ہے کہ عوام کے مال وجان اور جائیداد کی حفاظت یقینی بنائے۔اس موقعہ پر تجارتی برداری سے وابستہ کئی افرادنے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی سرکار تعلیم کو سیاست کیلئے استعمال کر رہی ہے جبکہ خاص طور پر وزیر تعلیم نعیم اختر کو اس سلسلے میں نشانہ بنایا گیا۔ سیول سوسائٹی اور تاجروں کے مشترکہ سیشن کے دوران اس بات کا متفقہ فیصلہ کیا کہ اس اہم مسئلے پر ایک اور کانفرنس کا انعقاد کیا جائے ۔