’’ سکوت ‘‘ وادی کشمیر کے ابھرتے ہوئے کہانی کار ایف آزاد ؔ دلنوی صاحب کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے، جو حال ہی میں چھپ کر آیا ہے۔ ایف آزادؔ کے نام کیساتھ دلنوی کے لاحقہ سے ہی عیاں ہے کہ آزاد صاحب ریاست کے مصروف قصبہ دلنہ کے رہنے والے ہیں۔ دلنہ کی سر زمین اس حوالے سے نہایت ہی ذرخیز مانی جاتی ہے کہ یہاں کے کئی ادیب اُ فق درب پر اپنی چھاپ ڈالکر ملکی سطح پر نام کمانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ اس وقت بھی قلمکاروں کی ایک کہکشاں آسمان علم وادب یہ ضیاپاشیاں کرنے میں مصروف ہے یہاں کے کہنہ مشق اور بزرگ شعراء وادباء کے ساتھ ساتھ نوجوان قلمکار بھی نہایت ہی سنجید گی کے ساتھ دن رات محنت کر کے علم و ادب کی ترقی و ترویج کے لئے تگ ودو میں مصروف ہیں ان ہی قلمکارو ں میں ایک تابندہ ستارہ ایف آزاد ؔ دلنوی ہے
ایف آزاد ؔ دلنوی بچپن سے ہی افسانہ نگاری میںطبع آزمائی کر رہے ہیں۔ چو نکہ اردو زبان کے ساتھ انہیں کافی لگائوتھا۔ اس لئے اعلیٰ تعلیم کے لئے اسی زبان کا انتخاب کیا۔ کشمیر یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے پاس کرنے کے بعدمحکمہ تعلیم میں بحیثیت مدرس ملازمت اختیار کی اور اس وقت ہائر سیکنڈری سطح کے طلباء کو اردو مضمون پڑھاتے ہیں۔ آزادؔ صاحب اُردو زبان میں طبع آزمائی کرنے کی ایک وجہ ا ردو زبان کے ساتھ وابستہ رہنا بھی ہوسکتی ہے
زیر تبصرہ کتاب میں تیس افسانے شامل ہیں جو انہوں نے وقتاً فوقتاً قلمبند کئے ہیں۔ آزاد ؔصاحب کے افسانے اخبار ’’کشمیر اعظمی‘‘ میں اکثر چھپتے رہتے ہیں اور اسی اخبار کے توسط سے میں نے آزادؔ کے کچھ اقسانوں کا مطالعہ کیا ہے اور ذاتی طور پر مجھے بہت پسند آئے کئی بار میں نے زوردار اور با مقصد افسانے تحریر کر نے پر آزادؔ صاحب کو فون پر مبارکباد بھی دی ہے۔
شاعر ہو یا افسانہ نگار ۔یہ اپنے ارد گردماحول اور سماج میں رونما ہونے والے واقعات کو لفظوں کا خوب صورت جامہ پہنا کر پیش کرتا ہے۔ آزاد ؔ صاحب کتاب میں درج ’’اپنی بات ‘‘ کے تحت خود بھی اعتراف کرتے ہیں۔
’’ایک افسانہ نگار اپنے عہد سے متاثر ہو کر ہی کچھ تخلیق کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ بڑی باریک بینی اور گہرائی کے ساتھ سماج میں رونما ہونے والے واقعات اور روز مرہ زندگی کے اتار چڑھائو کا مشاہدہ کرتا رہتا ہے اور اسی مشاہدہ پر اس کے افسانوں کی بنیاد پڑتی ہے۔ وہ سماج سے خام مواد حاصل کرنے کے بعداپنی تمام تر فنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اس مواد کولفظی جامہ پہنا کر افسانوی صورت میں قارئین تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے‘‘
یہ دوسری بات ہے کہ قارئین افسانہ نگار کی تخلیقی صلاحیتوں کوپسند کرکے اپنی آراء کا اظہار کرکے اس کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ اس کی صلاحیتوں کو جِلا ملے۔
آزاد ؔ صاحب کشمیری سماج کا ایک حصہ ہیں۔وہ یہاں پر روز مرہ رونما ہونے واقعات و حوادت سے باخبر ہیںاور شاید ہی کوئی کشمیری فرد یا گھرانہ ہوگا جو کشمیر کے پچھلے لگ بھگ تیس برسوں کے پر آشوب حالات سے بالواسطہ یا بلا واسطہ متا ثر نہ ہوا ہو۔آزاد صاحب خود اپنی آنکھوں سے یہاں کے یتیموں، بیوائوں کی آہ وبکا‘ مائوں بہنوں کی سسکیاں‘ نالہ زاری اور سینہ کوبی وغیرہ دیکھتے رہے ہیں اور تمام ترحالات و واقعات کا مشاہدہ کرکے انہیں اپنے افسانوں میں پیش کر تے ہیں۔
افسانہ ’’بد نصیب‘‘سے یہ اقتباس ۔’’تم نے میرے یوسف کوتو نہیں دیکھا ۔‘‘
سب نفی میں سر ہلا کر اس کی باتوں کی ان سنی کر تے نکل جاتے تھے ایک عورت سے روتے روتے بولی۔
’’تم نے کسی گورے چٹے جوان کو دیکھا میرے یوسف کو دیکھا ‘‘
نہیں بہن‘‘ کہہ کر وہ چلی گئی ۔زیبا پاگلوں کی طرح دیر تک ہر راہ گیر کے پیچھے بھاگتی رہی
’’ارے بھائی ۔میرے یوسف کو کہیں دیکھا ہے ۔ہے بہن تم نے دیکھا ‘‘۔لوگ چپ سادھ لینے کو ہی ترجیح دیتے تھے۔ بازار کی بھیڑ میںایک درویش نمودار ہوکراللہ ہو اللہ ہو کرنے لگا ۔زیبا اس کی طرف لپک کر بولی۔
’’بابا میرا بیٹا غائب ہے۔‘‘’’ادھر وہ سنسان جگہیں دیکھتی ہو ‘‘ اس نے انگلی سے اشارہ کر کے کہا۔’’وہاں ایک شہر زیر زمیں آباد ہے۔ وہیں گم نام قبریں بھی ہیں جن میں مائوں کے لال سورہے ہیں ۔‘‘
زیبا بالوں کو نوچتے نوچتے چلاتی رہی۔’’بابا ایسا مت کہو ۔وہ میرے جینے کا واحد سہارا ہے‘‘
آس پاس لوگ دانتوں تلے انگلی دابے دیکھ رہے تھے۔’’ارے ظالمو۔ کوئی تو بتائو میرا یوسف کہاں ہے۔‘‘
بھیڑ میں کسی نے آواز دی ۔’’شاید پاگل ہے ‘‘
ــ’’میں پاگل نہیں ہوں ۔میں ایک ماں ہوں۔ ایک بد نصیب ماں۔‘‘
اور وہ یوسف ۔۔۔۔یوسف چلاتے اس ویرانے کی طرف نکل پڑی۔جس کی طرف بابا نے اشارہ کیا تھا۔
مجھے ریاست کے نامور افسانہ نگار نور شاہ کے اس بیان سے اتفاق ہے کہ ایف آزاد ؔ دلنوی صاحب سچائی اور سادگی کے ساتھ حالات و واقعات کو نہایت ہنر مندی سے افسانوی روپ دیتے ہیں۔ ابھی ان کے ادبی سفر کا آغاز ہے۔ ان کی منزل بالکل قریب ہے کیونکہ وہ نہایت ہی حوصلہ مندی سے سفر طے کررہے ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب وہ اپنی سخت محنت اور قابلیت کے بل پر اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے افسانوی افق پر اپنی جگہ اور نام پانے میں کامیاب وکامران ہوجائیں گے۔ افسانوں میں استعمال کی گئی شگفتہ وشیرین زبان قابل رشک ہے۔
کتاب ۲۱۲صفحات پر مشتمل ہے۔ ٹائیٹل ‘کمپوٹر کمپوزنگ ‘کاغذ وغیرہ نہایت عمدہ ہیں۔ مہنگائی کے دور میں300روپے قیمت بہت کم دکھائی دیتی ہے۔
اللہ سے دعاہے کہ ’’سکوت ‘‘کے مصنف ایف آزاد دلنوی کو زور قلم اور صحت کامل عطا کرے۔ آمین۔
کانسپورہ، بارہمولہ