نئی دہلی//سپریم کورٹ نے ایک تاریخی فیصلے میں کہا کہ دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر منتخب حکومت کے ہر فیصلے میں مداخلت نہیں کر سکتے اور وہ کابینہ کے مشورہ ماننے کے پابند ہیں۔چیف جسٹس دیپک مشرا کی صدارت والی پانچ رکنی آئینی بنچ نے الگ الگ، لیکن متفقہ فیصلے میں کہا کہ لیفٹیننٹ گورنر آئین کے آرٹیکل 239 اے اے کی دفعات کے علاوہ دیگر مسائل میں منتخب حکومت کا مشورہ ماننے کے پابند ہیں۔ جسٹس مشرا نے ساتھی ججوں جسٹس اے کے سیکری اور جسٹس اے ایم کھانولکر کی جانب سے فیصلہ پڑھا، جبکہ جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس اشوک بھوشن نے اپنا فیصلہ الگ سے سنایا۔آئینی بنچ نے دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کو ردکرتے ہوئے کہا کہ دہلی کی حالت مکمل ریاست سے مختلف ہے اور لیفٹیننٹ گورنر قانون، پولیس اور زمین سے متعلق معاملات کے لئے خاص طور پر ذمہ دار ہیں، لیکن دوسرے معاملات میں ان کو کابینہ کے مشورے ماننے ہوں گے ۔ غور طلب ہے کہ ہائی کورٹ نے لیفٹیننٹ گورنر کو دہلی کا انتظامی افسر بتاتے ہوئے کہا تھا کہ وہ (لیفٹیننٹ گورنر) حکومت کا مشورہ ماننے کے پابند نہیں ہیں۔ آئینی بینچ نے اپنے 535 صفحات کے فیصلے میں کہا کہ لیفٹیننٹ گورنر حکومت کے ہر فیصلے کو بغیر سوچے سمجھے صدر کے پاس نہیں بھیج سکتے ۔ عدالت نے واضح کیا کہ لیفٹیننٹ گورنر کو منتخب حکومت کے کام کاج کو متاثر نہیں کرنا چاہئے ۔ چیف جسٹس نے سب سے پہلے دو دیگر ساتھی ججوں کی جانب سے فیصلہ سنایا، اس کے بعد جسٹس چندرچوڑ نے اور آخر میں جسٹس بھوشن نے اپنافیصلہ سنایا۔ حالانکہ لیفٹیننٹ گورنر کے حقوق کے معاملے میں تینوں فیصلوں میں یکسانیت رہی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ لیفٹیننٹ گورنر کچھ ہی امور میں ہی دہلی کے انتظامی افسر ہیں، وہ گورنر قطعی نہیں ہیں۔ لیفٹیننٹ گورنر اراضی، پولیس اور قانون اور نظام کے معاملات کو چھوڑ کر دیگر معاملات میں دہلی کی منتخب حکومت کا مشورہ مامنے کے پابند ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اگرچہ حکومت کے فیصلوں کو لیفٹیننٹ گورنر کے پاس بھیجا جانا ضروری ہے ، لیکن ہرمعاملات میں لیفٹیننٹ گورنر کی منظوری لینا ضروری نہیں ہے ۔ لیفٹیننٹ گورنر کو حکومت کے ساتھ پرامن طریقے سے مل کر کام کرنا چاہئے ۔ جسٹس چندرچوڑ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ فیصلہ لینے کا اصل حق منتخب حکومت کے پاس ہوتا ہے اور لیفٹیننٹ گورنر کو منتخب حکومت کے مشورہ کے مطابق کام کرنا ہوتا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ دہلی کی خصوصی حیثیت کے پیش نظر قومی راجدھانی دہلی اور مرکز کے درمیان توازن کی ضرورت ہے ۔جسٹس بھوشن نے اپنے فیصلے میں کہا کہ آئین کی تشریح وقت کی ضروریات کی بنیاد پر ہونا چاہئے اور منتخب حکومت کے مقاصد کا احترام کیا جانا چاہئے ۔ آئین میں یہ پروویزن نہیں ہے کہ ہر معاملے میں لیفٹیننٹ گورنر کی منظوری ضروری ہو۔ آئینی بنچ نے گزشتہ سال چھ دسمبر کو اس معاملے میں بڑی سماعت کے دوران تمام متعلقہ فریقوں کی دلیلیں سننے کے بعد فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا۔ کیجریوال حکومت نے دہلی ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا جس میں اس نے کہا تھا کہ لیفٹیننٹ گورنر ہی دہلی کے انتظامی افسر ہیں۔ کیجریوال حکومت کا الزام تھا کہ مرکزی حکومت دہلی میں آئینی طور پر منتخب کی گئی حکومت کی حق تلفی کرتی ہے ۔ اس کی وجہ سے دہلی کے ترقیاتی کام متاثر ہوتے ہیں۔یواین آئی
فیصلہ عوام کی جیت:اروند کیجریوال
نئی دہلی//دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے دہلی حکومت بمقابلہ لفٹننٹ گورنر معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو یہاں کے عوام کی فتح قرار دیا ہے ۔ کیجریوال نے ٹوئٹ کرکے کہا کہ یہ دہلی کے عوام کی بڑی فتح ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ جمہوریت کی بھی بڑی کامیابی ہے ۔ دہلی کے نائب وزیر اعلی منیش سسودیا نے کہا'' یہ سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ ہے ۔ اب دہلی حکومت کی فائلیں لفٹننٹ گورنر کو نہیں بھیجنی ہونگی اور کام نہیں رکے گا۔ ہم دہلی کے عوام کی طرف سے سپریم کورٹ کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ لفٹننٹ گورنر کو کابینہ کے فیصلے کو ماننا ہوگا ۔ تبادلہ اور تقرری حکومت ہی کرے گی۔'' مسٹر سسودیا نے کہا کہ مکمل ریاست کا درجہ دلانے کی تحریک جاری رہے گی۔ خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے آج اپنے فیصلے میں کہا کہ لفٹننٹ گورنر قانون و انتظام ، پولیس اور زمین سے متعلق معاملات کے لئے خصوصی طورپر ذمہ دار ہیں لیکن دیگر امور میں انہیں کابینہ کا مشورہ ماننا ہوگا۔ آئینی بنچ نے کہا کہ لفٹننٹ گورنر کابینہ کے ہر فیصلے کو صدر کے پاس نہیں بھیج سکتے ۔ عدالت عظمی نے واضح کیا کہ لفٹننٹ گورنر کو منتخب حکومت کے کام کاج میں رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہئے ۔یو این آئی
فیصلہ اگر بڑی جیت ہے تو اب کیجریوال کام کرکے دکھائیں: شیلا دکشت
نئی دہلی//دہلی کی سابق وزیر اعلی اور کانگریس کی سینئر رہنما شیلا دکشت نے دہلی حکومت اور لفٹننٹ گورنر کے اختیارات کے معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے وزیر اعلی اروند کیجریوال کو مشورہ دیا کہ وہ مرکز کے ساتھ تال میل کرکے عوامی مفاد کے کاموں پر زیادہ توجہ دیں۔ پندرہ سال تک دہلی وزیر اعلی رہیں دکشت نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر کہا'' میرا ماننا ہے کہ سپریم کورٹ نے صورت حال واضح کردی ہے ۔ آئین کی دفعہ 239(اے اے ) کے مطابق دہلی مکمل ریاست نہیں ہے اور دیگر ریاستوں کے مقابلے میں یہاں کافی فرق ہے ۔ دہلی مرکز کے زیر انتظام صوبہ ہے ۔اگر یہاں دہلی کے وزیر اعلی اور لفٹننٹ گورنر مل کر کام نہیں کریں گے تو اس طرح کی پریشانیاں آئیں گی۔ کانگریس نے دہلی میں پندرہ سال حکومت کی لیکن کبھی ٹکراو کی صورت نہیں پیدا ہوئی۔سابق وزیر اعلی نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ حکومت اور لفٹننٹ گورنر کے اختیارات پر کسی کی جیت یا کسی ہار نہیں ہے ۔