ستمبر 2014کا سیلاب کشمیر میں ہرسوتباہی پھیلاکر مکانات، پلوں، سڑکوں، کھیت اورفصلوں کوجہاں اپنے ساتھ بہالے گیا،وہیں لوگوں کو آنے والے برسوں کیلئے تلخ یادوں کاایک خزانہ بھی دے گیا۔اس تباہ کن سیلاب کی ایک بڑی وجہ ماہرین کے مطابق ریاست کی متواتر حکومتوں کی براعظم ایشیاء کے سب سے بڑے میٹھے پانی کے جھیل ،ولر کوتحفظ فراہم کرنے میں ناکامی تھی کیونکہ یہ جھیل ہرگزرتے دن کے ساتھ سکڑتی ہی چلی جاتی ہے۔نہ صرف اس جھیل میں آس پاس رہائش پزیدلوگوں نے مداخلت کرکے اس کے پانیوں پرناجائزقبضہ کیا،بلکہ ریاست کے محکمہ جنگلات نے جھیل کے اندر لاکھوں کی تعدادمیں درخت اُگاکردریائے جہلم کے بہاؤمیں رکاوٹ پیداکردی اور جب اس دریا کا بہاؤجوبن پرتھا،تویہ خطرناک سیلاب کاموجب بنا۔
1911میں جھیل ولرکارقبہ217مربع کلومیٹر تھاجواب نصف سکڑچکاہے،اوراس جھیل کے سیاحتی مقام بننے کی صلاحیت بھی برسوں قبل ختم ہوچکی ہے۔ویٹ لینڈانٹرنیشنل کے مطابق جھیل ولرحکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے سالہاسال سے سکڑرہا ہے اوردریائے جہلم کے آلودہ پانی نے اس جھیل کے ماحولیاتی نظام کو نقصان پہنچایا ہے۔ویٹ لینڈانٹرنیشنل ساوتھ ایشیاء نے حکومت کو تجویزپیش کی تھی کہ حکومت کو اس جھیل کوبچانے کیلئے ’ایکو ٹورازم‘سہولیات کومتعارف کراناچاہیے،اوراس جھیل کی سیرپرآنے والے لوگوں کواس جھیل کوبچانے میں تعاون دینے کیلئے ماحولیاتی تعلیمی مراکزپرآگاہی فراہم کرنی چاہیے،لیکن حکومت نے ویٹ لینڈ انٹرنیشنل کی سفارشات کونظراندازکرکے ان پر کوئی کارروائی نہیں کی۔
شجرکاری نے جھیل کے رقبہ کوکافی کم کیا ہے اور سرما کے ایام تو یہ جھیل اور بھی سکڑ جاتی ہے۔اکثر درخت محکمہ جنگلات نے لگائے ہیں اور سالہاسال سے بدروپانی کے جھیل میں نکاس نے تو اسے ناپاک اور عفونت بھرے آبی وسیلہ میں تبدیل کیا ہے۔لوگوں نے بھی جھیل کے رقبہ کو زرعی سرگرمیوں میں استعمال کرنا شروع کیا ہے، جھیل میں لوگوں کی طرف سے کی گئی شجرکاری کاحجم تقریباً12فیصد ہے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق ضلع انتظامیہ نے جھیل کوتحفظ دینے کیلئے اس کے گردونواح میں بستیوں سے کوڑاکرکٹ جمع کرنے کیلئے جدیدگاڑیاں جن میں ہائی ٹیک کمپریسروغیرہ شامل ہیں،حاصل کی ہیں تاکہ گندگی کوجھیل میں بہنے سے روکاجائے۔ ضلع انتظامیہ نے کوڑاکرکٹ کوٹھکانے لگانے کیلئے سائنسی بنیادوں پر کام کرنے والے ایک ڈمپنگ سائٹ کامنصوبہ بنایا ہے،لیکن فی الحال جھیل کے نزدیک ہی ایک ڈمپنگ سائٹ موجود ہے جہاں ضلع کے کوڑاکرکٹ کو ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔ضلع انتظامیہ کے مطابق یہاں پر کوڑاکرکٹ کو ڈمپنگ یارڈ سے باہرکسی طورپھیلنے نہیں دیاجاتا ہے۔ ضلع انتظامیہ حکام کے مطابق ایک سیویج ٹریٹمنٹ پلانٹ کو یہاں قائم کرنے میں رقومات کی عدم دستیابی آڑے آتی ہے۔ انہیں ہرسال ولرکنزرویشن اینڈمنیجمنٹ اتھارٹی کی طرف سے40لاکھ روپے سائنسی بنیادوں پر گھروں سے نکلنے والے کوڑاکرکٹ اور سیویج کوٹھکانے لگانے کیلئے فراہم کئے جاتے ہیں ،لیکن یہ رقم اتنی کم ہے کہ اس سے سائنسی بنیادوں پر اس گندگی اورسیویج کوٹھکانے نہیں لگایاجاسکتا ہے،بلکہ اس کیلئے رقومات میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ضلع انتظامیہ نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ لوگوں کی طرف سے بارہایہاں سیویج ٹریٹمنٹ پلانٹ قائم کرنے کا مطالبہ کیاگیا۔
ویٹ لینڈ انٹرنیشنل ساؤتھ ایشیاء نے اپنے ایک جامع منصوبے میںانکشاف کیا ہے کہ بھاری انسانی مداخلت اورناجائزقبضہ ،گندے پانی کے نکاس اور مٹی اور گارے کے جمع ہونے سے جھیل کا رقبہ نصف سکڑ چکا ہے۔مذکورہ ادارے نے حکومت کو بانڈی پورہ میں ایک سیویج ٹریٹمنٹ پلانٹ قائم کرنے کی صلاح دی تھی اورٹھوس کوڑاکرکٹ کوجمع کرنے کیلئے بھی کمیونٹی ویسٹ منیجمنٹ فیسلٹی قائم کرنے کی سفارش کی تھی۔
جھیل کی شان رفتہ کی بحالی میں رقومات کی کمی ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہورہی ہے۔جھیل کے تحفظ کیلئے ولرکنزرویشن اینڈ منیجمنٹ اتھارٹی نے جھیل کوگارے مٹی سے صاف کرنے پرزوردیا ہے اور ذرائع کے مطابق ولرجھیل کوبچانے کیلئے اس سلسلے میں کام جاری ہے۔
ادھر جھیل میںبھاری مقدارمیں مٹی اورگارے کے جمع ہونے ،ناجائزتجاوزات اور غیرقانونی شکار کی وجہ سے مہمان پرندے اس جھیل کارُخ کرنے سے اب کتراتے ہیں۔گزشتہ سال اس جھیل میں 30000مہمان پرندوں نے ڈیرہ جمایا تھا لیکن جنگلی حیات ماہرین کے مطابق اس جھیل کارُخ کرنے والے مہاجرپرندوں کی تعدادمیں کمی ہورہی ہے۔جھیل ولرایشیاء کی سب سے بڑی آبی پناہ گاہ ہونے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ’رام سر‘ سائٹ ہے۔اس آبی پناہ گاہ کا رقبہ جو1911میں 217کلومیٹر تھا اب 57کلومیٹر تک سکڑچکا ہے۔مقامی لوگوں اور سرکاری محکموں کی طرف سے ناجائزتجاوزات کی وجہ سے جھیل کا45فیصد رقبہ کم ہوچکا ہے جس کے نتیجے میں مہاجر پرندوں ،جونومبر سے مارچ کے مہینے تک کشمیرمیں اپنابسیراکرتے ہیں،کامسکن متاثرہوا ہے۔سرکاری طور ولرآبی پناہ گاہ157.74کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہے لیکن مقامی کسانوں کی طرف سے جھیل کے رقبے پر کئے گئے ناجائزقبضے کی وجہ سے اس کا رقبہ اب نصف سے کم ہوگیا ہے ۔جنگلی حیات محکمے کے ایک گارڈکے مطابق اس آبی پناہ گاہ کے سکڑنے کی وجہ سے مہاجر پرندے یہاں اپناآشیانہ بنانے کیلئے آپس میں لڑتے ہیں۔حکام کے مطابق مقامی کسانوں نے جھیل کے دلدل کو بچے کھچے ضائع زرعی پیداوارکوٹھکانے لگانے کی جگہ بنایاہے۔
جھیل کی سطح پرروزدریائے جہلم کے علاوہ نالہ ارن، مدھومتی اور دیگر ندی نالوں سے ہزاروں ٹن مٹی اورگاراجمع ہوتا ہے۔ جھیل کی سطح پر سالانہ ریت، مٹی اورگارے کے جمع ہونے کی شرح3.33ایکڑفی فٹ ہے۔مٹی اورریت گارے کے جمع ہونے نے پہلے ہی جھیل کے77فیصد رقبے کوختم کیا ہے اوراب گندے پانی کے نکاس اورمیوہ درختوں پر چھڑکائے جارہے ادویات جواس جھیل میں گندے پانی کے بدروکے ساتھ پہنچ پاتے ہیں،جھیل میںکائی اورگھاس پھوس کے پھلنے پھولنے میں معاون ومددگارثابت پورہے ہیںجوجھیل کی بقاء کیلئے سم قاتل ہیں۔
حال ہی میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ سوناواری،بانڈی پورہ،وٹلب،ننگلی ،سوپور وغیرہ میں63000کنال جھیل کے رقبے پر ناجائزقبضہ کیاگیا ہے،حالانکہ یہ جھیل سرکاری ملکیت ہے۔جھیل کے25کلومیٹر سے بھی زائد دلدلی رقبے پر ریاستی حکومت نے سوشل فارسٹری اسکیم کے تحت بیدکے درختوں کی ایک نرسری لگائی ہے اورکچھ رقبے کو دھان کے کھیتوں میں تبدیل کیاگیا ہے۔ماہرین کے مطابق ولرآبی پناہ گاہ تیزی سے سکڑرہی ہے اور اگر حال رہا تو آئندہ سات یادس برسوں کے بعداس کا وجودہی ختم ہوجائے گا۔