لتا منگیشکر جنوری 2022 کے اوائل میں کووڈ سے متاثر ہونے کے بعد انھیں ممبئی کے بریچ کینڈی ہسپتال میں داخل کروایا گیا تھا۔ وہ کئی ہفتے تک انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل رہیں اور وہیں انہوں نے اتوار کی صبح 92 سال کی عمر میں آخری سانس لی۔لتا منگیشکر 28 ستمبر 1929 کو وسطی ہندوستان کے شہر اندور میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد پنڈت دینا ناتھ منگیشکر بھی گلوکار تھے۔ وہ اپنے والد کے پانچ بچوں میں سب سے بڑی تھیں۔ بعد میں لتا کے چھوٹے بہن بھائیوں نے بھی ان کی پیروی کی اور موسیقی کی دنیا میں قدم رکھا۔لتا منگیشکر کا فلمی میوزک کریئر نصف صدی سے زیادہ پر محیط تھا ،جس میں انہوں نے 36 ہندوستانی زبانوں میں 30 ہزار سے زیادہ گانے گائے۔یہ 1940 کی دہائی کی بات ہے، تب فلموں میں گانے کی اتنی گنجائش نہیں تھی۔ چنانچہ لتا منگیشکر نے خاندان کو چلانے کے لیے اداکاری شروع کر دی۔یہ قصہ 1943-44 کا ہے، ریاست مہاراشٹر کے شہر کولہا پور میں ایک فلم کی شوٹنگ چل رہی تھی اس زمانے کی مشہور گلوکارہ نور جہاں اپنے گانوں کی ریکارڈنگ کے لیے وہاں آئی تھیں، اسی فلم میں ایک چھوٹی بچی بھی ایک کردار نبھا رہی تھی۔
فلم کے ہدایت کار نے اس بچی کا تعارف نورجہاں سے کرواتے ہوئے کہا کہ یہ لتا ہے اور یہ بھی گاتی ہے۔ نور جہاں تپاک سے بولیں اچھا، کچھ گا کر سناؤ، لتا نے شاستریہ سنگیت سے سجا ایک گانا سنایا، اس وقت نور جہاں سنتی گئیں اور لتا گاتی رہیں۔بچی کے گانے سے خوش ہو کر نور جہاں بولیں ’بہت اچھا گایا، ریاض کرتی رہنا بہت آگے جاؤ گی‘۔
روزی روٹی کے لیے فلموں میں چھوٹے چھوٹے کردار کرنے والی یہ بچی آگے چل کر سُروں کی ملکہ لتا منگیشکر بن گئیں۔ اس وقت نغمہ نگار اور ہدایت کار گلزار نے ایک بات کہی تھی کہ لتا محض گلوکارہ ہی نہیں ہیں، وہ ایک انڈین کے روزمرہ کی زندگی کا حصہ بن چکی ہیں۔
برصغیر کی کئی نسلیں لتا منگیشکر کے گیت سن کر جوان ہوئی ہیں اور ابھی بھی ان کے گیت کروڑوں لوگوں کے دلوں کی دھڑکن ہیں۔ لتا جی نے فلمی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد شروع شروع میں اداکاری بھی کی اور مختلف فلموں میں بچوں کے کردار نبھائے۔ تاہم پھر اُنہوں نے خود کو صرف اور صرف گلوکاری کے لئے وقف کر دیا تھا۔ انہوں نے اپنے دور کے سبھی چھوٹے بڑے موسیقاروں کے ساتھ کام کیا تھا۔لتامنگیشکر جنہیں فلمی دنیا میں پیار سے ’’لتا دیدی ‘‘کہہ کر پکارا جاتا ہے، انہوں نے آخری گانا ۲۰۱۹ء میں ’سوگندھ مجھے اس مٹی کی‘ گایاتھا۔ وہ اس عمر میں بھی سوشل میڈیا پر کافی سرگرم رہتی تھیں۔ کسی کی سالگرہ ہو یا برسی وہ انہیں یاد کرنا نہیں بھولتیں۔ کسی کی موت ہوجائے تو سوشل میڈیا پر اسے خراج عقیدت پیش کرنے والوں میں بھی لتا منگیشکر شامل رہتی تھیں، افسوس کہ آج وہ بھی اپنے کروڑوں مداحوں کو چھوڑ کر چلی گئیں۔
ایک اندازے کے مطابق لتا منگیشکر نے اپنے کئی عشروں پر پھیلے ہوئے کیریئر کے دوران مختلف زبانوں میں تقریباً تیس ہزار گیت گائے۔ لتا منگیشکر کا کہنا تھا کہ وہ ساٹھ سے لے کر اَسی تک کے عشرے کو اپنے گیتوں کے حوالے سے سنہرا دور سمجھتی ہیں۔ ان میں سے بیشتر گیت فلموں کے لیے تھے تاہم خود اُنہیں ہلکی پھلکی موسیقی کی بجائے کلاسیکی موسیقی ہمیشہ زیادہ پسند رہی۔ 1945 میں لتا منگیشکر نے فلم ’محل‘ کے گانے گائے جو سپرہٹ ہوئے۔ اس میں مدھو بالا نے اداکاری کی تھی۔
اس کے بعد لتا منگیشکر نے مڑ کر نہیں دیکھا اور مسلسل آگے بڑھتی گئیں۔ بیجوباورا، مدر انڈیا اور مغل اعظم جیسی فلموں کے لیے گیت گائے، جبکہ برسات اور شری 420 کے لیے بھی پلے بیک سنگنگ کی۔کچھ عرصہ بعد انہوں نے بہترین خاتون پلے بیک سنگر کا ایوارڈ جیتا، فلم پریچے، کورا کاغذ اور لیکن کے لیے بھی ان کو تین قومی ایوارڈز سے نوازا گیا۔
انہوں نے پاکیزہ، ابھیمان، امر پریم، آندھی، سلسلہ، چاندنی، ساگر، دل والے دلہنیا لے جائیں سمیت بے شمار فلموں کے لیے ہزاروں گانے گائے۔
بھارتی حکومت کی جانب سے لتا منگیشکر کو 1969 میں بدما بھوشن (تیسرا بڑا سول ایوارڈ)، 1999 میں پدما وبھوشن (دوسرا بڑا سول ایوارڈ) اور 2001 میں سب سے بڑے سول ایوارڈ بھارت رتن سے نوازا گیا۔بھارت کی بلبل کہلانے والی عالمی شہرت یافتہ گلوکارہ نے صرف 13 برس کی عمر میں گلوکاری کا آغاز کیا اور اپنا پہلا گانا 1942 میں ریکارڈ کرایا۔ فلمی صنعت کے دیگر افراد کی گلیمر بھری زندگی کے برعکس لتا نے تمام عمر سادگی میں بسر کی۔ ان کے معاشقوں کی خبریں وقتا فوقتا آتی رہی مگر انہوں نے ساری عمر شادی نہیں کی، ہندوستان میں انہیں راجیہ سبھا کا رکن بھی بنایا گیا۔ مگر ان کی ذات پر فن ہی حاوی رہا۔ سیاست کی پرہیچ وادیوں کے بجائے انہوں نے سُروں اور سازوں کے بیچ رہنا پسند کیا۔لتامنگیشکرکےانتقال پر ملک میں دو روزہ قومی سوگ کا اعلان کیا گیا اور لتا منگیشکرکی یاد میں قومی پرچم بھی دو دن تک سرنگوں رہے گا۔ ان کے انتقال پر صدر رامناتھ کووند ،وزیراعظم نریندرمودی اور دیگر لیڈروں نے دکھ کا اظہار کیا ہے۔ گزشتہ روز لتا کی طبیعت بگڑنے کے باعث انہیں دوسری مرتبہ آئی سی یو منتقل کیا گیا تھا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکیں۔سابق انڈین وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے لتا کے بارے میں کہا تھا’ ’وہ ہندوستان کا قابل قدر ہیرا ہیں۔‘‘ اُن کے فن اور سازوں کی ہیرے کی مانند جگمگاہٹ شاید ہی کبھی ماند پڑے۔
(رابطہ/6005293688 )