غور و فکر کرنا انسانوں کا خاص وصف ہے۔ دنیا میں ہزاروں معاملات ہیں جن پر انسان غور کر کے دنیا اور خود کو بدلنے کی سعی کر سکتا ہے۔ معمولی واقع اور بات سے متاثر ہو کر انسان میں مکمل بدلائو آ سکتا ہے۔ دنیا کو بدلنے کی کوشش کرنا اتنا ضروری نہیں جتنا اپنے آپ کواور اپنی سوچ کو بدلنا ضروری ہے۔ خود کو بدلنے میں پختہ ارادہ اور مکمل حوصلہ لگتا ہے۔ انسان اور جانور میں ان کی حرکات و سکنات اور عادت و اطوار میں فرق نہ رہے تو وہ اشرف المخلوقات کے حقیقی منصب پر فائز نہیں رہ سکتا، وہ اس کا حقدار تب ہی ہے جب علامات واضح ہوں جو تفاوت کرسکے کہ انسان افضل ہے۔
انسان نے ابتدا سے ہی زندگی کو آرام دہ بنانے کیلئے سوچنا شروع کیا اور آج اسی سوچ کی وجہ سے بجلی، ٹیلی فون، ہوائی جہاز، کمپیوٹراور موبائل فون جیسی سہولیات ہر ایک کو میسر ہیں۔دنیا کی بڑی سے بڑی کامیابی کی ابتدا بھی ایک سوچ سے ہوئی ہے۔یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ اچھی سوچ کے لگائے ہوئے بیج کا پھل انسان کی نسلیں کھاتی ہیں۔اسلئے ہمیں اپنی سوچ پر کام کرنا چاہئے کیونکہ سوچ انسان کی زندگی کی گاڑی کا انجن ہے اگر یہ درست سمت میں چلتا رہا تو پوری گاڑی درست سمت میں رہے گی۔اگر یہ ٹریک سے اتر گیا تو زندگی کی گاڑی غلط راستوں پر چل نکلے گی۔
اچھی سوچ والے معاشرے کو بہتری کی طرف لے جاتے ہیں اور بری سوچ بربادی کے دروازوں کو کھولتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اخوت اور محبت کے پھولوں کے بجائے نفرت کے کانٹے زیادہ پنپ رہے ہیں۔ ہم ایک دوسرے سے پیاراور محبت کے بجائے نفرت اور بیزاری سے رہنے کے عادی ہیں۔ ایک دوسرے سے منقطع رہنے کیلئے ہم نے دیواریں ہی اونچی نہیں کی ہیں بلکہ ایک دوسرے سے اختلاف کرنا ہماری سوچ میں شامل ہے۔ہم بغض و عداوت، حسد اور کینہ ہی نہیں رکھتے بلکہ ایک دوسروں کی اچھائیوں پر نظر رکھنے کی بجائے برائیوں کی خوب تشہیر کرتے ہیں۔ ہم نے اخلاق اور تمیز کا جنازہ نہیں نکالا ہے بلکہ انہیں گمنام قبروں میں دفن کر دیا ہے۔جس معاشرے میں گناہ اور ثواب میں تمیز کرنے کی صلاحیت مفقود ہو جائے اور یہ دونوں برابر سمجھے جانے لگیں وہ تنزل کا شکار ہوجاتا ہے اور مختلف قسم کی پریشانیوں، مصیبتوں اور آفتوں میں پھنس جاتا ہے۔ ہم تباہی و بربادی کے جس دہانے پر کھڑے ہیں اس کے پیچھے فقط ہماری منفی سوچ ہے۔ ہم اپنا کام بھول کر زیادہ تر وقت دوسروں کے کام میں نقص نکالنے میں صرف کرتے ہیں۔ اپنے گھر کی حالت کو درست کرنے کے بجائے دوسروں کو تنبیہ کرنا، اپنے گھروں کو دوزخ بنانے کے بعد جنت کی تمنا کرنا، بدتمیزی اور بے حیائی کو فروغ دے کر دوسروں سے تمیز و تہذیب کی توقع کرنا ہماری عادت بن گئی ہے۔
غیر معمولی شخصیت بننے کیلئے آپ کی سوچ بھی غیر معمولی ہونی چاہئے۔ایک سوچ کی اپنی کوئی حقیقت نہیں کیونکہ ہر شخص کی ایک ہی واقع کے حوالے سے سوچ مختلف ہوتی ہے لیکن ہر سوچ ایک حقیقت کو جنم دیتی ہے۔ آپ کے تمام حالات آپ کی سوچ کے مرہونِ منت ہیں کیونکہ آپ جیسا سوچتے ہیں ویسا بن جاتے ہیں۔ جو شخص کامیابی اور خوشحالی کا نہیں سوچتا، وہ اسے حاصل بھی نہیں کر سکتا۔ سوچ پانی کے بہاؤ کی مانند ہے۔ جب یہ بہاؤ متواتر ایک پتھر پر پڑتا رہے تو سخت پتھر بھی کٹ جاتا ہے اور اسے راستہ فراہم کر دیتا ہے۔اگر آپ اپنی کارکردگی کو بہتر کرنا چاہتے ہیں تو ایسی سوچ اپنائیں جو آپ کی صلاحیتوں کو ابھارے۔ وہ لوگ جو آپ سے بہتر حالت میں ہیں ان سے گفتگو کیجئے اور ان کے خیالات اور سوچ کو اپنایئے۔ آپ کو بھی ان جیسے نتائج ملنا شروع ہو جائیں گے۔ منفرد سوچ آپ کو منفرد بنا سکتی ہے۔چلیں، آپ اچھا نہیں سوچ سکتے تو برا بھی مت سوچیں۔ منفی سوچ دیمک کی مانند ہے جو آپ کی ذات کو کھوکھلا کردیتی ہے۔ یہ آپ کی خوشیاں چھین لیتی ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ پائیدار اور دیر پا لکڑی ٹیک کی ہے۔ ٹیک کو دیمک نہیں لگتا، کیونکہ دیمک اس کے ذائقے کو پسند نہیں کرتی۔ آپ بھی منفی سوچ جو کہ دیمک کی مانند ہے کو اپنے قریب نہ آنے دیں۔ اس طرح آپ مضبوط شخصیت کے مالک بن جائیں گے۔ ہر سوچ ایک بیج کی مانند ہے اور آپ کا ذہن ایک زمین کی طرح ہے۔ آپ نے اس زمین میں اپنی مرضی کے پھولوں والے پودے نہ بوئے تو غیر ضروری جھاڑیاں اور کانٹے اگنے لگیں گے۔
سوچ خود بخود غیر ارادی طور پر تبدیل نہیں ہوتی بلکہ اس کیلئے انسان کوخود سے بھی کوشش کرنا پڑتی ہے۔ اچھے خیالات کسی کو خود نہیں ڈھونڈتے اگر آپ کوئی اچھا آئیڈیا تلاش کرنا چاہتے ہیں،آپ کو اس کیلئے تگ و دو کرنا پڑے گی۔جب آپ اچھے مفکر بن جائیں گے تو اچھے خیالات آپ کے ذہن میں آنا شروع ہوجا ئیں گے مگر شرط یہ ہے کہ پہلے آپ اپنے ذہن کو اچھی سوچ کیلئے ڈھالیں۔ اپنے رویئے کو شاندار بنانے کیلئے اپنی سوچ کو جاندار بنائیے۔ آپ کی موجودہ حالت آپ کے ماضی کے خیالات کا نتیجہ ہے اور آپ کے مستقبل کو آپ کی آج کی سوچ متاثر کرتی ہے۔ اچھی قسمت کا دوسرا نام مثبت سوچ اور اچھا خیال ہے، کیونکہ یہ نہیں ہو سکتا ہے کہ ایک شخص باکمال سوچے اور اس کو شاندار نتائج نہ ملیں۔ اس دنیا پر آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کوئی گندم بوئے اور کپاس کی فصل اُگ آئے۔ جو بویا جاتا ہے، وہی کاٹا جاتا ہے۔
ہر چیز کا حصول ممکن ہے، بشرطیکہ سنجیدگی سے اس کے بارے میں سوچا جائے۔ المیہ یہ ہے کہ لوگ ناکامی سے بچنے کا سوچتے ہیں، حالانکہ انہیں کامیابی کا سوچنا چاہئے۔ بے شمار لوگ اپنی زندگی کو فقط گزارنے کا سوچ رہے ہیں۔ انہیں اپنی زندگی کو خوشحال بنانے کا سوچنا چاہئے۔ لوگ جرائم، برائیوں، سماجی خرافات، خود کشی، غربت، بدنظمی، بدحالی، مسائل اور بیماریوں کے متعلق سوچتے رہتے ہیں۔ یہ تمام خیالات ان کی شخصیت کو تباہ کرکے رکھ دیتے ہیں۔ انسان جب بولتا ہے تو اپنی سوچ اور شخصیت کو ظاہر کر رہا ہوتا ہے اور آج انہی مسائل اور مصائب کے تذکرے اور تبصرے ہر فرد کی زبان پر ہیں۔ آپ خود انصاف کریں کہ برائیوں کو سوچنے اور زیر بحث لانے سے کیا یہ ختم ہو جائیں گی۔ بہت کم لوگ ان برائیوں اور مسائل کے حل کے متعلق غورو فکر کر رہے ہیں اور وہی ہیرو کہلانے کے حق دار ہیں۔
ہمارا نظام کیوں نہیں بدل رہا ہے ۔ایک منٹ کیلئے ہمیں اپنے گریبان میں جھانک لینا چاہئے کہ کیا ہم نے اپنے اندر کوئی تبدیلی لائی ہے۔ اگر ہمارے اندر کوئی تبدیلی نہیں آئی تو اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں ۔ ذخیرہ اندوزی ، سفارش ، رشوت خوری ہم خود کریں اور ہم حکمرانوں سے نظام میں تبدیلی کے خواہاں ہوں۔ ایسا کسی بھی ملک یا معاشرے میں ممکن نہیں۔ہم سب کو اچھی طرح یاد ہے کہ جب کورونا وائرس نے دنیا بھر میں دستک دی تو ہرطرف ماسکوں کی مانگ میں اضافہ ہوگیا پھر دیکھتے دیکھتے ماسکوں کی قلت پیدا ہوگئی کیونکہ لوگوں نے کورونا سے محفوظ رہنے میں اہمیت کی حامل اس چیز کو ذخیرہ کرلیا۔ اب اس چیز کا ذمہ دار کون ہے۔موسم سرما میں سرینگر جموں شاہراہ بند ہونے کے بعد اشیائے ضروریہ کی ذخیرہ اندوزی کا سنگین جرم بھی کسی سے چھپا نہیں۔ یہ سب چیزیں ہم خود کریں اور تبدیلی کی توقع دوسروں پررکھیں جوناممکن ہے۔
اچھا سوچنے والوں کی ہمیشہ سے دنیا کو ضرورت رہی ہے ۔کامیاب سوچ کا مالک کبھی کسی کا غلام نہیں رہ سکتا۔ اچھا سوچنے والے اپنے مسائل بہتر طریقے سے حل کر سکتے ہیں۔ان کے پاس آئیڈیاز کی کمی نہیں ہوتی جس سے وہ تصورات قائم کرتے ہیں۔ وہ ہمیشہ زندگی کو امید کی نظر سے دیکھتے ہیں اور مستقبل کیلئے پرامید رہتے ہیں۔وہ اچھا سوچنے والے کبھی بھی اپنے آپ کو دوسروں کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑتے کہ ایسے لوگ ان سے ناجائز فائدہ اٹھائیں یا ان کو دھوکہ دیں۔ کسی بھی معاشرے کی عظمت اور سر بلندی کا اندازہ معاشرہ خاص طور پر نوجوانوں کی سوچ کی بلندی، منزل کی سچی تڑپ اور بلند کرداری میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ اگر نوجوان خواب دیکھتے ہیں اور محنت پر یقین رکھتے ہیں اور ایمانداری کا چراغ ہاتھ میں تھام کر مستقل مزاجی کے ساتھ آگے بڑھنے کا حوصلہ رکھتے ہیں تو زمین کے خزانے تو کیا آسمان کی وسعتیں بھی ان کے سامنے ڈھیر ہو جاتی ہیں۔ یہ تبھی ممکن ہوتا ہے جب امیدوں کے دیے روشن ہوں، جب کامیابی اور ناکامی کے مفاہیم کو حقیقی انداز میں وسیع النظری کے ساتھ سمجھا جائے ۔
آؤ آج اس بات کا عہد کریں کہ ہمارے راستے میں جو رکاوٹیں ہیں ان کو دور کریں ،ان رکاوٹوں کو کچل ڈالیں جو ہمارے نظام کو بدلنے سے روک رہے ہیں جس دن ہم اپنے اندر اس چیز کا احساس پیدا کریں اس دن سے ہمارے حالات بھی بدلنا شروع ہوجائیں گے۔ سوچ کے بدلنے سے ہماری پوری حالت بدل سکتی ہے اگر ہم منفی کے بجائے مثبت اور تخریب کے بجائے تعمیر کی طرف توجہ کریں گے۔